پانی ماحولیات اور جنگلی حیات
چند دن پیشتر 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا گیا۔ انسانی زندگی کی بقا کا انحصار پانی پر ہے
چند دن پیشتر 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا گیا۔ انسانی زندگی کی بقا کا انحصار پانی پر ہے اور صرف انسان ہی نہیں حیوانات 'جنگلات سبھی کا انحصار پانی پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا دو تہائی حصہ پانی اور ایک تہائی خشکی پر مشتمل ہے۔ انسانی جسم کا زیادہ حصہ بھی پانی پر مشتمل ہے لیکن پاکستان کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں پانی نایاب یا کم یاب ہے۔ پاکستان میں ساڑھے چھ کروڑ افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔کارخانوں کی چمنیوں سے نکلتا ہوا دھواں ان سے خارج شدہ زہر یلا کیمیکل ملے پانی نے دریاؤں' نہروں' سمندروں کو آلودہ کر دیا ہے۔ دریائے گنگا جو بھارت میں واقع ہے اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ گندہ دریا ہے۔ یہ انتہا درجے کی آلودگی کا شکار ہے۔
آلودگی اور ماحولیات میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے جنگلی حیات اور جنگل بھی متاثر ہو رہے ہیں دنیا بھر میں جنگلات میں تیری سے کمی آ رہی ہے۔ پاکستان میں صورتحال بدترین ہے۔ جنوبی امریکا میں ایمزون کا خطہ 70 لاکھ کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے جس میں 390 بلین ارب درخت پائے جاتے ہیں۔ ا90ء کی دہائی میں ایمزون کے جنگلات کے ایک بڑے حصے کا خاتمہ ہو گیا جس کا رقبہ تین ملکوں کے برابر تھا یعنی 6 لاکھ مربعہ کلو میٹر ۔ ہو سکتا ہے کہ بیشتر لوگوں کو پتہ نہ ہو کہ ایمزون کے جنگلات کی کیا اہمیت ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یہ جنگلات دنیا کی 60 فیصد آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ اس لیے ان جنگلات کا تحفظ پوری دنیا کی ذمے داری ہے۔
اس پس منظر میں بہت ہی چھوٹے پیمانے پر لاہور کی مال روڈ اور نہر کنارے درخت 30 فیصد آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ ہم ماحولیات کے حوالے سے جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جنگلات کو خطرے میں ڈالنے کا مطلب انسانوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ بے پناہ صنعتی ترقی کی ''برکت'' نے فضا کو ایسے زہریلے عناصر سے آلودہ کر دیا ہے جو بارش ہونے کی صورت میں جنگلات پر تیزابی پانی پھینک کر ان کا خاتمہ کر رہے ہیں۔چین میں درجہ حرارت باقی دنیا کے مقابلے چار گناہ زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں چین کے موسم میں تباہ کن تبدیلیاں آئی ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیئر کے پگھلنے کی رفتار میں انتہائی تیزی آ گئی ہے۔ آخر کار ان کا نتیجہ گلیشیر کے خاتمے کے نتیجے میں نکلے گا اور طویل مدت میں ایشین دریا جس میں دریائے سندھ' گنگا شامل ہیں خشک ہو جائیں گے۔
خطرہ ہے کہ ہمالین گلیشیئر 2035ء تک پگھل جائیں جو پانی دریاؤں کو مہیا کرتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ہمالیہ اور انٹارٹیکا کی برف 2060ء تک پگھل جائے گی نتیجتاً بے تحاشا سیلاب آئیں گے۔ سمندر کی سطح میں اضافے سے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔ یہاں تک کہ ہمالیہ کے پہاڑ سبزے سے خالی پتھریلے پہاڑ رہ جائیں گے۔ ایمزون اور مشرق بعید کے جنگلات جو بنگلہ دیش' برما' تھائی لینڈ لاؤس' کموچیا' ویت نام' ملائشیا' انڈونیشیا تک پھیلے ہوئے ہیں کو نہ بچایا گیا تو دنیا کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان صنعتی ترقی کی دوڑ نے انسانیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ چین کے شہروں میں آلودگی کا تناسب اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ لوگ منہ پر ماسک لگانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے 70 لاکھ لوگ مر چکے ہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی جنگلات کا خاتمہ اور کوئلہ کا غیر ضروری استعمال اوزون کا خاتمہ کر رہا ہے۔ اوزون کی تہہ 50ء کی دہائی سے متاثر ہونا شروع ہوئی۔ اوزون انسانی زندگیوں کی اس طرح حفاظت کرتی ہے کہ سورج کی مضر صحت شعاؤں کو فلٹر کر کے ہمیں محفوظ بناتی ہے۔ اب اوزون کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ صنعتی ترقی کی رفتار کو کم کیا جائے ترقی یافتہ ملکوں میں۔ جب کہ سائنس دانوں کی ایک تعداد تو یہ بھی تجویز کرتی ہے کہ ہے کہ ہر طرح کی صنعتی ترقی پر پابندی لگا دی جائے اور جو ترقی ہو چکی ہے اسی پر اکتفا کیا جائے۔ یعنی ایک طرح سے ماضی کی طرف مراجعت!!!
ماحولیات کے ضمن میں جنگلی حیات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جس کا انسانوں کے ہاتھوں قتل عام ہو رہا ہے۔1900ء کے قریب کئی لاکھ گینڈے جنوبی افریقہ میں پائے جاتے تھے۔ جن کی تعداد 90ء کی دہائی کے شروع میں ڈھائی ہزار سے بھی کم رہ گئی۔ اندازہ کریں انسانوں کی وحشت و بربریت کا گینڈوں کی کئی اقسام ہیں۔ ان کی ایک قسم ناپید ہو گئی ہے۔ جب کہ سفید شمالی گینڈے جن کی تعداد صرف پانچ رہ گئی ہے ختم ہونے والے ہیں۔ لاہور چڑیا گھر جو برصغیر کا سب سے پرانا چڑیا گھر ہے ہاں پر بھی ایک گینڈا رہ گیا ہے۔ گینڈوں کے سینگوں کی غیر قانونی تجارت ان کے لیے ایک عظیم خطرہ بن گئی ہے۔ کیونکہ اس کے سینگوں سے قیمتی اشیاء اور دوائیاں بنتی ہیں۔ 81ء میں چین گینڈوں کے سینگوں کا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا۔
چائینیز روایتی جنسی ادویات میں ان کا استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان گینڈوں کے سینگوں کی قیمت پچاس ہزار ڈالر فی کلو گرام تک پہنچ گئی۔ پندرھویں صدی تک موجودہ پاکستان میں بھی گینڈے پائے جاتے تھے۔ لاہور سے بہاولپور تک کے علاقے میں۔ بابر بادشاہ اور اس کے فوجیوں نے اس بڑے پیمانے پر ان کا شکار کیا کہ وہ ناپید ہو گئے۔ انگریزوں کی آمد نے بھارتی علاقے سے بھی گینڈوں کا تقریباً صفایا کر دیا۔
بڑے قوی الجثہ جانوروں میں سے ہاتھی بھی ناپید ہو رہا ہے جن کی تعداد تیس لاکھ سے گر کر ساڑھے چار لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ انسانوں کے ہاتھوں بندوق اور جدید اسلحہ کے استعمال نے بے بس جنگلی حیات کو دنیا سے ناپید ہونے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انسان خود اپنا کتنا بڑا دشمن ہے اور کس بے رحمی سے اپنے ہی گھر دنیا کو تباہ کر رہا ہے۔ دنیا کی تباہی اس وقت ہی رک سکتی ہے جب ہر انسان اسے اپنے گھر جیسا سمجھے دشمن کا نہیں۔
چشم کشا کالم اپنے بچوں مرتضی' ارتضی کی خواہش پر لکھا گیا جن کی عمریں فقط 12سے10 سال ہیں لیکن ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں از حد فکر مند رہتے ہیں۔ میں نے سوچا ہے کہ ہم اگر مدبر اور دانشور کے بجائے محض بچے بن کر سوچیں تو شاید نسل انسانی کی بقا و ترقی کے لیے زیادہ بہتر کام کر سکیں۔
مئی سے سال کا آخر سیلابوں زلزوں کے حوالے سے احتیاط طلب وقت ہے۔
آلودگی اور ماحولیات میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے جنگلی حیات اور جنگل بھی متاثر ہو رہے ہیں دنیا بھر میں جنگلات میں تیری سے کمی آ رہی ہے۔ پاکستان میں صورتحال بدترین ہے۔ جنوبی امریکا میں ایمزون کا خطہ 70 لاکھ کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے جس میں 390 بلین ارب درخت پائے جاتے ہیں۔ ا90ء کی دہائی میں ایمزون کے جنگلات کے ایک بڑے حصے کا خاتمہ ہو گیا جس کا رقبہ تین ملکوں کے برابر تھا یعنی 6 لاکھ مربعہ کلو میٹر ۔ ہو سکتا ہے کہ بیشتر لوگوں کو پتہ نہ ہو کہ ایمزون کے جنگلات کی کیا اہمیت ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یہ جنگلات دنیا کی 60 فیصد آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ اس لیے ان جنگلات کا تحفظ پوری دنیا کی ذمے داری ہے۔
اس پس منظر میں بہت ہی چھوٹے پیمانے پر لاہور کی مال روڈ اور نہر کنارے درخت 30 فیصد آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ ہم ماحولیات کے حوالے سے جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جنگلات کو خطرے میں ڈالنے کا مطلب انسانوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ بے پناہ صنعتی ترقی کی ''برکت'' نے فضا کو ایسے زہریلے عناصر سے آلودہ کر دیا ہے جو بارش ہونے کی صورت میں جنگلات پر تیزابی پانی پھینک کر ان کا خاتمہ کر رہے ہیں۔چین میں درجہ حرارت باقی دنیا کے مقابلے چار گناہ زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں چین کے موسم میں تباہ کن تبدیلیاں آئی ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیئر کے پگھلنے کی رفتار میں انتہائی تیزی آ گئی ہے۔ آخر کار ان کا نتیجہ گلیشیر کے خاتمے کے نتیجے میں نکلے گا اور طویل مدت میں ایشین دریا جس میں دریائے سندھ' گنگا شامل ہیں خشک ہو جائیں گے۔
خطرہ ہے کہ ہمالین گلیشیئر 2035ء تک پگھل جائیں جو پانی دریاؤں کو مہیا کرتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ہمالیہ اور انٹارٹیکا کی برف 2060ء تک پگھل جائے گی نتیجتاً بے تحاشا سیلاب آئیں گے۔ سمندر کی سطح میں اضافے سے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔ یہاں تک کہ ہمالیہ کے پہاڑ سبزے سے خالی پتھریلے پہاڑ رہ جائیں گے۔ ایمزون اور مشرق بعید کے جنگلات جو بنگلہ دیش' برما' تھائی لینڈ لاؤس' کموچیا' ویت نام' ملائشیا' انڈونیشیا تک پھیلے ہوئے ہیں کو نہ بچایا گیا تو دنیا کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان صنعتی ترقی کی دوڑ نے انسانیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ چین کے شہروں میں آلودگی کا تناسب اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ لوگ منہ پر ماسک لگانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے 70 لاکھ لوگ مر چکے ہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی جنگلات کا خاتمہ اور کوئلہ کا غیر ضروری استعمال اوزون کا خاتمہ کر رہا ہے۔ اوزون کی تہہ 50ء کی دہائی سے متاثر ہونا شروع ہوئی۔ اوزون انسانی زندگیوں کی اس طرح حفاظت کرتی ہے کہ سورج کی مضر صحت شعاؤں کو فلٹر کر کے ہمیں محفوظ بناتی ہے۔ اب اوزون کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ صنعتی ترقی کی رفتار کو کم کیا جائے ترقی یافتہ ملکوں میں۔ جب کہ سائنس دانوں کی ایک تعداد تو یہ بھی تجویز کرتی ہے کہ ہے کہ ہر طرح کی صنعتی ترقی پر پابندی لگا دی جائے اور جو ترقی ہو چکی ہے اسی پر اکتفا کیا جائے۔ یعنی ایک طرح سے ماضی کی طرف مراجعت!!!
ماحولیات کے ضمن میں جنگلی حیات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جس کا انسانوں کے ہاتھوں قتل عام ہو رہا ہے۔1900ء کے قریب کئی لاکھ گینڈے جنوبی افریقہ میں پائے جاتے تھے۔ جن کی تعداد 90ء کی دہائی کے شروع میں ڈھائی ہزار سے بھی کم رہ گئی۔ اندازہ کریں انسانوں کی وحشت و بربریت کا گینڈوں کی کئی اقسام ہیں۔ ان کی ایک قسم ناپید ہو گئی ہے۔ جب کہ سفید شمالی گینڈے جن کی تعداد صرف پانچ رہ گئی ہے ختم ہونے والے ہیں۔ لاہور چڑیا گھر جو برصغیر کا سب سے پرانا چڑیا گھر ہے ہاں پر بھی ایک گینڈا رہ گیا ہے۔ گینڈوں کے سینگوں کی غیر قانونی تجارت ان کے لیے ایک عظیم خطرہ بن گئی ہے۔ کیونکہ اس کے سینگوں سے قیمتی اشیاء اور دوائیاں بنتی ہیں۔ 81ء میں چین گینڈوں کے سینگوں کا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا۔
چائینیز روایتی جنسی ادویات میں ان کا استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان گینڈوں کے سینگوں کی قیمت پچاس ہزار ڈالر فی کلو گرام تک پہنچ گئی۔ پندرھویں صدی تک موجودہ پاکستان میں بھی گینڈے پائے جاتے تھے۔ لاہور سے بہاولپور تک کے علاقے میں۔ بابر بادشاہ اور اس کے فوجیوں نے اس بڑے پیمانے پر ان کا شکار کیا کہ وہ ناپید ہو گئے۔ انگریزوں کی آمد نے بھارتی علاقے سے بھی گینڈوں کا تقریباً صفایا کر دیا۔
بڑے قوی الجثہ جانوروں میں سے ہاتھی بھی ناپید ہو رہا ہے جن کی تعداد تیس لاکھ سے گر کر ساڑھے چار لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ انسانوں کے ہاتھوں بندوق اور جدید اسلحہ کے استعمال نے بے بس جنگلی حیات کو دنیا سے ناپید ہونے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انسان خود اپنا کتنا بڑا دشمن ہے اور کس بے رحمی سے اپنے ہی گھر دنیا کو تباہ کر رہا ہے۔ دنیا کی تباہی اس وقت ہی رک سکتی ہے جب ہر انسان اسے اپنے گھر جیسا سمجھے دشمن کا نہیں۔
چشم کشا کالم اپنے بچوں مرتضی' ارتضی کی خواہش پر لکھا گیا جن کی عمریں فقط 12سے10 سال ہیں لیکن ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں از حد فکر مند رہتے ہیں۔ میں نے سوچا ہے کہ ہم اگر مدبر اور دانشور کے بجائے محض بچے بن کر سوچیں تو شاید نسل انسانی کی بقا و ترقی کے لیے زیادہ بہتر کام کر سکیں۔
مئی سے سال کا آخر سیلابوں زلزوں کے حوالے سے احتیاط طلب وقت ہے۔