نیوزی لینڈ کا ایندھن ختم آسٹریلیا کی بادشاہت کا آغاز…
نیوزی لینڈ کی شکست کی سب سے بڑی وجہ کیا رہی؟ وہی جو اب تک ان کی سب سے بڑی قوت تھی۔
نیوزی لینڈ کے پاس جو آخری دَم بچا تھا، ایسا لگا کہ وہ جنوبی افریقہ کے خلاف سیمی فائنل میں ہی نکل چکا تھا کیونکہ فائنل جیسے بڑے مقابلے میں وہ کارکردگی دکھائی، جس کی توقع صرف پاکستان سے کی جاسکتی ہے۔
1999ء کے عالمی کپ فائنل کے زخم کتنے گہرے ہیں؟ اس کا اندازہ آج ہر اس شخص کو ہو رہا ہوگا جو نیوزی لینڈ کے حق میں تھا۔ پے در پے فتوحات، بہترین بلے بازی، شاندار باؤلنگ اور جاندار فیلڈنگ، یہ سب کچھ فائنل میں پہنچ کر ڈھیر ہوگیا۔ آسٹریلیا کی طوفانی باؤلنگ، پھرتیلی فیلڈنگ اور دَم دار بیٹنگ کے سامنے، جس نے خود کو حقیقی چیمپئن ثابت کیا۔ عالمی کپ 2015ء کے فائنل میں ایسا محسوس ہوا کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے نیوزی لینڈ کا ایندھن ختم ہوگیا ہے کیونکہ وہ جارحانہ کھیل جو پورے ٹورنامنٹ میں بلیک کیپس پیش کرتے آرہے تھے، اس کی معمولی جھلک بھی نہیں دکھائی دی اور آسٹریلیا نے پانچویں بار عالمی کپ جیت لیا۔
نیوزی لینڈ کی شکست کی سب سے بڑی وجہ کیا رہی؟ وہی جو اب تک ان کی سب سے بڑی قوت تھی۔ دراصل نیوزی لینڈ کے مختصر میدانوں پر بے پروائی سے کھیلے گئے شاٹ بھی چھکے کے لیے روانہ ہوجاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ بلیک کیپس کی تمام مقابلوں میں یہی حکمت عملی رہی کہ کپتان برینڈن میک کولم چھوٹتے ہی حریف گیند بازوں پر پل پڑیں گے، ان کے حوصلوں کو توڑیں گے اور کم سے کم اوورز میں زیادہ سے زیادہ رنز حاصل کرکے باقی کا کام آنے والے بلے بازوں پر چھوڑ دیں گے۔
یہ حکمت عملی گروپ مقابلے میں آسٹریلیا کے خلاف ناکام ہوتے ہوتے رہ گئی تھی جب محض 152 رنز کے تعاقب میں نیوزی لینڈ 9 وکٹوں سے محروم ہوگیا تھا، لیکن فائنل میں آسٹریلیا نے کوئی غلطی نہیں دہرائی۔ فل اور یارکر لینتھ پر گیندیں پھینک کر نیوزی لینڈ کی اس کمزوری کو نمایاں کرکے رکھ دیا۔ جو سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کے گیندبازوں کی نظروں سے اوجھل رہا وہ آسٹریلیا کے باؤلرز نے دنیا کے سامنے عیاں کردیا۔
اندازہ لگائیے، پہلی تین وکٹیں 39 رنز پر اور آخری 7 وکٹیں محض 33 رنز کے اضافے سے گریں۔ اگر گرانٹ ایلیٹ کی 83 رنز کی اننگز کو نکال دیں تو باقی 9 کھلاڑیوں نے کل 100 رنز ہی بنائے۔ عالمی کپ کے فائنل جیسے بڑے مقابلے میں ایسی غلطی کا کوئی ازالہ ہوسکتا ہے؟ وہ بھی اگر مقابلہ آسٹریلیا سے ہو اور مقابلہ بھی اْسی کے میدان پر ہو؟ ہر گز نہیں!
شاید عالمی کپ 1999ء کے فائنل میں پاکستان سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی جب پوری ٹیم صرف 132 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی۔ حالانکہ نیوزی لینڈ ہی کی طرح پاکستان نے بھی گروپ مرحلے میں آسٹریلیا کو شکست دی تھی۔ فائنل سے قبل اس کے حوصلے بھی بلند تھے، توقعات بھی بہت زیادہ تھیں اور دعاؤں کا سہارا بھی بہت لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب دعاؤں اور صلاحیت کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے تو میدان قابل مرد ہی کے ہاتھ رہتا ہے کیونکہ خدائی مدد بھی ہمتِ مرداں دکھانے والے کو ملتی ہے۔
ملبورن میں آسٹریلیا کی باؤلنگ اتنی ہی شاندار تھی، جتنی کہ 1999ء میں۔ تب شین وارن نے اپنا جادو جگایا تھا، آج تیز گیندبازوں نے کمال دکھایا۔ ایک یارکر پہلے ہی اوور میں برینڈن میک کولم کا کام تمام کرگئی، دوسری نے آل راؤنڈر کوری اینڈرسن، ان دونوں سمیت چار کھلاڑی صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔
آسٹریلیا کی بیٹنگ لائن کو 184 رنز تک پہنچنے سے روکنے کے لیے نیوزی لینڈ کو جس باؤلنگ کارکردگی کی ضرورت تھی، وہ بھی نہیں دکھائی دی۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا نے ہدف کو 34 ویں اوور میں ہی حاصل کرلیا۔ سب سے نمایاں اور یادگار اننگز کپتان مائیکل کلارک کی رہی جو اپنا آخری ایک روزہ مقابلہ کھیل رہے تھے۔ فائنل سے ایک دن پہلے کلارک نے اعلان کیا تھا کہ وہ عالمی کپ 2015ء کے ساتھ ہی ایک روزہ کرکٹ چھوڑ دیں گے۔ اپنے آخری مقابلے میں انھوں نے 72 گیندوں پر 74 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور اسٹیون اسمتھ کے ساتھ 112 رنز کی شراکت داری بھی قائم کی۔ یہاں تک کہ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ عالمی کپ کا جشن منایا۔ آسٹریلیا گزشتہ 6 عالمی کپ ٹورنامنٹس میں سے 5 کے فائنل تک پہنچا اور چار میں کامیابی بھی حاصل کی۔ اس سے ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
نیوزی لینڈ کے لیے عالمی کپ کا اختتام اتنا ہی مایوس کن تھا جتنا کہ 1992ء میں، جب کوئی ان سے شکست کی توقع نہیں کررہا تھا، اس وقت ہارے۔ 1992ء میں مسلسل 7 میچز جیتے اور آخری گروپ مقابلے اور سیمی فائنل میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کھا کر باہر ہوگئے۔ اب 2015ء میں 23 سال بعد بھی کہانی تقریباً وہی رہی۔ گرانٹ ایلیٹ کا چھکا انھیں سیمی فائنل سے فائنل تک لانے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن ملبورن میں کوئی تدبیر نہ چلی۔ یہاں تک کہ ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی بھی کسی کام نہ آ سکی بلکہ شاید اسی فیصلے نے نیوزی لینڈ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔ صرف ایک مقابلے میں شکست نے نیوزی لینڈ کو عالمی کپ سے محروم کردیا لیکن اس میں اگر کوئی قصور ہے تو خود نیوزی لینڈ کا ہے، جس کے پاس آسٹریلیا کی تیاری اور منصوبہ بندی کا کوئی جواب نہیں تھا۔
اب دنیائے کرکٹ پر آسٹریلیا کی بادشاہت کا نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔ نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور بھارت سمیت تمام ٹیموں کے پاس اپنے زخم چاٹنے کے لیے چار سال ہیں۔ جب 2019ء میں انگلستان کے میدانوں پر ایک بازی جمے گی تو وہ زیادہ سخت ہوگی کیونکہ وہاں صرف 10 ٹیمیں کھیلیں گی۔ لیکن... چار سال طویل عرصہ ہے جناب، ''کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک''!
1999ء کے عالمی کپ فائنل کے زخم کتنے گہرے ہیں؟ اس کا اندازہ آج ہر اس شخص کو ہو رہا ہوگا جو نیوزی لینڈ کے حق میں تھا۔ پے در پے فتوحات، بہترین بلے بازی، شاندار باؤلنگ اور جاندار فیلڈنگ، یہ سب کچھ فائنل میں پہنچ کر ڈھیر ہوگیا۔ آسٹریلیا کی طوفانی باؤلنگ، پھرتیلی فیلڈنگ اور دَم دار بیٹنگ کے سامنے، جس نے خود کو حقیقی چیمپئن ثابت کیا۔ عالمی کپ 2015ء کے فائنل میں ایسا محسوس ہوا کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے نیوزی لینڈ کا ایندھن ختم ہوگیا ہے کیونکہ وہ جارحانہ کھیل جو پورے ٹورنامنٹ میں بلیک کیپس پیش کرتے آرہے تھے، اس کی معمولی جھلک بھی نہیں دکھائی دی اور آسٹریلیا نے پانچویں بار عالمی کپ جیت لیا۔
نیوزی لینڈ کی شکست کی سب سے بڑی وجہ کیا رہی؟ وہی جو اب تک ان کی سب سے بڑی قوت تھی۔ دراصل نیوزی لینڈ کے مختصر میدانوں پر بے پروائی سے کھیلے گئے شاٹ بھی چھکے کے لیے روانہ ہوجاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ بلیک کیپس کی تمام مقابلوں میں یہی حکمت عملی رہی کہ کپتان برینڈن میک کولم چھوٹتے ہی حریف گیند بازوں پر پل پڑیں گے، ان کے حوصلوں کو توڑیں گے اور کم سے کم اوورز میں زیادہ سے زیادہ رنز حاصل کرکے باقی کا کام آنے والے بلے بازوں پر چھوڑ دیں گے۔
یہ حکمت عملی گروپ مقابلے میں آسٹریلیا کے خلاف ناکام ہوتے ہوتے رہ گئی تھی جب محض 152 رنز کے تعاقب میں نیوزی لینڈ 9 وکٹوں سے محروم ہوگیا تھا، لیکن فائنل میں آسٹریلیا نے کوئی غلطی نہیں دہرائی۔ فل اور یارکر لینتھ پر گیندیں پھینک کر نیوزی لینڈ کی اس کمزوری کو نمایاں کرکے رکھ دیا۔ جو سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کے گیندبازوں کی نظروں سے اوجھل رہا وہ آسٹریلیا کے باؤلرز نے دنیا کے سامنے عیاں کردیا۔
اندازہ لگائیے، پہلی تین وکٹیں 39 رنز پر اور آخری 7 وکٹیں محض 33 رنز کے اضافے سے گریں۔ اگر گرانٹ ایلیٹ کی 83 رنز کی اننگز کو نکال دیں تو باقی 9 کھلاڑیوں نے کل 100 رنز ہی بنائے۔ عالمی کپ کے فائنل جیسے بڑے مقابلے میں ایسی غلطی کا کوئی ازالہ ہوسکتا ہے؟ وہ بھی اگر مقابلہ آسٹریلیا سے ہو اور مقابلہ بھی اْسی کے میدان پر ہو؟ ہر گز نہیں!
شاید عالمی کپ 1999ء کے فائنل میں پاکستان سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی جب پوری ٹیم صرف 132 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی۔ حالانکہ نیوزی لینڈ ہی کی طرح پاکستان نے بھی گروپ مرحلے میں آسٹریلیا کو شکست دی تھی۔ فائنل سے قبل اس کے حوصلے بھی بلند تھے، توقعات بھی بہت زیادہ تھیں اور دعاؤں کا سہارا بھی بہت لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب دعاؤں اور صلاحیت کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے تو میدان قابل مرد ہی کے ہاتھ رہتا ہے کیونکہ خدائی مدد بھی ہمتِ مرداں دکھانے والے کو ملتی ہے۔
ملبورن میں آسٹریلیا کی باؤلنگ اتنی ہی شاندار تھی، جتنی کہ 1999ء میں۔ تب شین وارن نے اپنا جادو جگایا تھا، آج تیز گیندبازوں نے کمال دکھایا۔ ایک یارکر پہلے ہی اوور میں برینڈن میک کولم کا کام تمام کرگئی، دوسری نے آل راؤنڈر کوری اینڈرسن، ان دونوں سمیت چار کھلاڑی صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔
آسٹریلیا کی بیٹنگ لائن کو 184 رنز تک پہنچنے سے روکنے کے لیے نیوزی لینڈ کو جس باؤلنگ کارکردگی کی ضرورت تھی، وہ بھی نہیں دکھائی دی۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا نے ہدف کو 34 ویں اوور میں ہی حاصل کرلیا۔ سب سے نمایاں اور یادگار اننگز کپتان مائیکل کلارک کی رہی جو اپنا آخری ایک روزہ مقابلہ کھیل رہے تھے۔ فائنل سے ایک دن پہلے کلارک نے اعلان کیا تھا کہ وہ عالمی کپ 2015ء کے ساتھ ہی ایک روزہ کرکٹ چھوڑ دیں گے۔ اپنے آخری مقابلے میں انھوں نے 72 گیندوں پر 74 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور اسٹیون اسمتھ کے ساتھ 112 رنز کی شراکت داری بھی قائم کی۔ یہاں تک کہ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ عالمی کپ کا جشن منایا۔ آسٹریلیا گزشتہ 6 عالمی کپ ٹورنامنٹس میں سے 5 کے فائنل تک پہنچا اور چار میں کامیابی بھی حاصل کی۔ اس سے ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
نیوزی لینڈ کے لیے عالمی کپ کا اختتام اتنا ہی مایوس کن تھا جتنا کہ 1992ء میں، جب کوئی ان سے شکست کی توقع نہیں کررہا تھا، اس وقت ہارے۔ 1992ء میں مسلسل 7 میچز جیتے اور آخری گروپ مقابلے اور سیمی فائنل میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کھا کر باہر ہوگئے۔ اب 2015ء میں 23 سال بعد بھی کہانی تقریباً وہی رہی۔ گرانٹ ایلیٹ کا چھکا انھیں سیمی فائنل سے فائنل تک لانے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن ملبورن میں کوئی تدبیر نہ چلی۔ یہاں تک کہ ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی بھی کسی کام نہ آ سکی بلکہ شاید اسی فیصلے نے نیوزی لینڈ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔ صرف ایک مقابلے میں شکست نے نیوزی لینڈ کو عالمی کپ سے محروم کردیا لیکن اس میں اگر کوئی قصور ہے تو خود نیوزی لینڈ کا ہے، جس کے پاس آسٹریلیا کی تیاری اور منصوبہ بندی کا کوئی جواب نہیں تھا۔
اب دنیائے کرکٹ پر آسٹریلیا کی بادشاہت کا نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔ نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور بھارت سمیت تمام ٹیموں کے پاس اپنے زخم چاٹنے کے لیے چار سال ہیں۔ جب 2019ء میں انگلستان کے میدانوں پر ایک بازی جمے گی تو وہ زیادہ سخت ہوگی کیونکہ وہاں صرف 10 ٹیمیں کھیلیں گی۔ لیکن... چار سال طویل عرصہ ہے جناب، ''کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک''!