پاکستان ڈاٹ کام
انٹرنیٹ آیا تو یہی کیٹلاگ سسٹم اس پر آگیا، چیزیں گھروں پر ڈیلیور کرنے کا انفرااسٹرکچر پہلے ہی سے تھا،
پاکستان میں اس وقت انٹرنیٹ کے تیس ملین سے زیادہ USERS ہیں، یعنی ہماری دو سو ملین کی آبادی میں سے پندرہ فیصد لوگ مستقل انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ہیں اور ان انٹرنیٹ یوزرز کی تعداد مستقل بڑھ رہی ہے، اس کے باوجود ہمارے یہاں انٹرنیٹ بوم نہیں آیا جو دنیا کے مختلف ملکوں میں 1995 کے آس پاس آیا تھا۔
1995 میں ٹائمز میگزین نے تجزیہ کیا تھا کہ انٹرنیٹ یوزرز چار ہزار فیصد کی رفتار سے بڑھ رہے ہیں اور اسی لیے کئی کمپنیز اور عام لوگوں کی نظریں انٹرنیٹ پر جم گئیں اور وہ یہ سوچنے لگے کہ ہم کیسے انٹرنیٹ کو بزنس کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
ای بے، یاہو، ایمزان جیسی ویب سائٹس 1997 تک عام امریکنوں میں بے حد مقبول ہوگئیں، 1955 سے امریکا میں کریڈٹ کارڈز کا رجحان ہے، ہر انسان جو 18 سال کی عمر کا ہوتا ہے وہ آسانی سے کریڈٹ کارڈ حاصل کرسکتا ہے، اس لیے امریکا میں 1960 سے کیٹلاگ آرڈرنگ کا نظام تھا یعنی امریکا میں مختلف کمپنیوں کی موٹی موٹی کیٹلاگ گھروں پر آتیں اور لوگ ان میں سے فون پر چیزوں کا آرڈر دیتے جو کوریئر کمپنیاں ڈیلیور کرتیں۔
انٹرنیٹ آیا تو یہی کیٹلاگ سسٹم اس پر آگیا، چیزیں گھروں پر ڈیلیور کرنے کا انفرااسٹرکچر پہلے ہی سے تھا، ساتھ ہی لوگوں کو گھر بیٹھے فون کے ذریعے چیزیں خریدنے کے لیے کمپنیوں کو ٹرینڈ نہیں کرنا پڑا۔
1998 کے آس پاس ''گوگل'' آگیا، وہ ویب سائٹ جو کسی بھی دوسرے سرچ انجن سے بہتر رزلٹ دیتی اور لوگوں کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرنا اور بھی آسان ہوگیا، انٹرنیٹ کی کئی کمپنیوں کے اسٹاک تین سو سے چار سو ڈالر تک کے بکنے لگے، کمپنیز زیادہ اور خریدار کم، اس لیے درجنوں انٹرنیٹ کمپنیاں 1999 کے آس پاس بینک کرپٹ ہوگئیں، جسے امریکن اکانومی میں انٹرنیٹ میل برسٹ ہونا بھی کہا جاتا ہے، لیکن پھر بھی جہاں سیکڑوں کمپنیاں بند ہوئیں وہیں درجنوں نے پاؤں جمالیے۔
پچھلے 15 سال سے ''ایمزون ڈاٹ کام'' دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس ویب سائٹ بن چکی ہی، ایمزون پر ہر سال 70 بلین سے زیادہ کی چیزیں فروخت ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایمزون نہ صرف امریکا بلکہ یوکے، جاپان، آسٹریلیا یہاں تک کہ انڈیا تک میں موجود ہے۔
ایمزون پر آپ ایک سوئی سے لے کر کمپیوٹر، ٹی وی اور فرنیچر تک خرید سکتے ہیں، یہ دنیا میں ہر جگہ اپنی پروڈکٹس شپ کرتا ہے سوائے چند ملکوں کے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستان کو کوئی بھی بڑی ای کامرس سائٹ قابل بھروسہ نہیں سمجھتی، جیسے انٹر نیٹ پر پے منٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ ''پے پیل ڈاٹ کام'' پر پاکستان میں اکاؤنٹ بنانا منع ہے۔
ایسے میں کچھ لوگوں نے پاکستان میں ای کامرس کو ایک موقع جانا، شایان طاہر ایک 29 سالہ لڑکا ہے جس نے پیسے جمع کیے کہ وہ آئی پوڈ خرید سکے لیکن جب اس نے ایمزون پر اپنا آرڈر ڈالا تو وہ اس لیے ریجیکٹ ہوگیا کہ وہ پاکستان میں تھا، اس واقعے کے بعد شایان نے امریکا میں رہنے والے اپنے کزن سے تین آئی پوڈز منگوائے ایک خود رکھا اور دو کلاسیفائیڈ اشتہار کے ذریعے بیچ دیے جس کے بعد انھیں خیال آیا کہ وہ پاکستان میں بھی ایمزون جیسی سائٹ بنائیں اور یہاں سے انھوں نے آغاز کیا''ہوم شاپنگ ڈاٹ پی کے'' کا۔
اس وقت پاکستان میں ای کامرس آہستگی سے آرہا ہے، پچھلے سال پاکستان میں 35 ملین ڈالرز کی سیل آن لائن ہوئی تھی جو کہ امریکا کے ایمزون، چائنا کی علی بابا ڈاٹ کام اور انڈیا کی فلپ کارٹ کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے لیکن پھر بھی ایک اچھی شروعات ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے 30 ملین یوزرز میں سے سب کے پاس کریڈٹ کارڈز نہیں ہیں، ہمارا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیلیوری سسٹم بھی امریکا کی طرح نہیں ہے، کورئیر کمپنیاں موجود تو ہیں لیکن انٹرنیٹ شپمنٹس کا زیادہ تجربہ نہیں ہے اور ان کے زیادہ ریٹ کی وجہ سے ڈیلیوری کے لیے ان کا استعمال ممکن نہیں ہے۔
پاکستان میں اس وقت کئی ایسی سائٹس ہیں جو یقیناً پاکستان کے انٹرنیٹ کا مستقبل ہیں، نہ صرف پاکستان میں بلکہ باہر کے ممالک کے انویسٹرز بھی ان میں پیسہ لگا رہے ہیں، جو اچھی بات ہے، شاپ ہائف ڈاٹ کام، دراز ڈاٹ پی کے، زمین ڈاٹ کام اور گاڑیوں کی ویب سائٹ پاک وہیلرڈاٹ کام وہ سائٹس ہیں جن میں بہت مواقع ہیں، پہلی بار پاکستان میں انویسٹرز اس کو سنجیدگی سے لے کر پیسہ لگارہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ دسمبر 1995 میں آیا تھا اور آج 20 سال بعد بھی ہم ای کامرس میں اتنے ابتدائی دور میں کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم پر تھوڑے دن میں پہیے کو دوبارہ سے ایجاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی کوئی ویب سائٹ آتی ہے جو ای کامرس شروع کرتی ہے لیکن یا تو کچھ عرصے میں وہ دم توڑ دیتی ہے یا پھولتی پھلتی نہیں۔
پاکستان میں اس وقت ہمیں ضرورت ہے سب سے پہلے اپنا شپنگ انفرااسٹرکچر درست کرنے کی، ایسی کمپنیاں جو صرف اور صرف انٹرنیٹ پر خریدی چیزوں کو ڈیلیور کرتی ہوں جو ہفتے میں چار نہیں بلکہ دن میں چالیس ڈیلیوریز کرنے کا تجربہ رکھیں۔
لوگوں کو عادت نہیں ہے تو انھیں عادت ڈالیں جس کے لیے آن لائن ایسی پروڈکٹس سستی بیچیں جو عام آدمی خریدنا چاہتا ہے، جیسے انڈے، دودھ، گوشت جس سے ہم ہر عام پاکستانی کو انٹرنیٹ خریداری کے لیے تیار کردیں گے۔
ایک پے پیل جیسی پے منٹ سسٹم جس میں آن لائن شاپنگ کے لیے ایک شخص کو اپنا بینک اکاؤنٹ یا پھر کریڈٹ کارڈ یا کیش ڈپازٹ کرواکر اس کو استعمال کرکے آن لائن شاپنگ کرسکتا ہو، اس وقت پاکستان میں آن لائن شاپنگ ''COD'' ہوتی ہے یعنی کیش آن ڈیلیوری ہوتی ہے، حالات کو دیکھتے ہوئے لوگ گھر میں کیش رکھے ہوئے ہیں اور وہ سامان آنے کا انتظار کررہے ہیں وہ یہ کسی ویب سائٹ کو بتانے میں بھی ڈرتے ہیں، پے منٹ سے متعلق ہر چیز آن لائن ہونی ضروری ہے والیوم بڑھانے کے لیے۔
جب ہم اپنا انفرااسٹرکچر بہتر کرلیں گے تو امریکا ، انگلینڈ کی مشہور ویب سائٹس کو دکھا سکتے ہیں کہ ہم کتنے مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور وہ ہمارے یہاں بھی آکر بزنس کریں کیونکہ اگر ''ایمزون آئی این'' ہوسکتا تو ''ایمزون ڈاٹ پی کے''کیوں نہیں؟
پاکستان ای کامرس میں ہمیں ہر بار ''پہیہ'' ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو دنیا میں پہلے سے انٹرنیٹ کی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں انھیں یہ باور کرانا ہے کہ ہم بھی ای کامرس کرسکتے ہیں جو پاکستان کی معیشت کے لیے بڑا اور اہم قدم ہوگا۔
1995 میں ٹائمز میگزین نے تجزیہ کیا تھا کہ انٹرنیٹ یوزرز چار ہزار فیصد کی رفتار سے بڑھ رہے ہیں اور اسی لیے کئی کمپنیز اور عام لوگوں کی نظریں انٹرنیٹ پر جم گئیں اور وہ یہ سوچنے لگے کہ ہم کیسے انٹرنیٹ کو بزنس کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
ای بے، یاہو، ایمزان جیسی ویب سائٹس 1997 تک عام امریکنوں میں بے حد مقبول ہوگئیں، 1955 سے امریکا میں کریڈٹ کارڈز کا رجحان ہے، ہر انسان جو 18 سال کی عمر کا ہوتا ہے وہ آسانی سے کریڈٹ کارڈ حاصل کرسکتا ہے، اس لیے امریکا میں 1960 سے کیٹلاگ آرڈرنگ کا نظام تھا یعنی امریکا میں مختلف کمپنیوں کی موٹی موٹی کیٹلاگ گھروں پر آتیں اور لوگ ان میں سے فون پر چیزوں کا آرڈر دیتے جو کوریئر کمپنیاں ڈیلیور کرتیں۔
انٹرنیٹ آیا تو یہی کیٹلاگ سسٹم اس پر آگیا، چیزیں گھروں پر ڈیلیور کرنے کا انفرااسٹرکچر پہلے ہی سے تھا، ساتھ ہی لوگوں کو گھر بیٹھے فون کے ذریعے چیزیں خریدنے کے لیے کمپنیوں کو ٹرینڈ نہیں کرنا پڑا۔
1998 کے آس پاس ''گوگل'' آگیا، وہ ویب سائٹ جو کسی بھی دوسرے سرچ انجن سے بہتر رزلٹ دیتی اور لوگوں کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرنا اور بھی آسان ہوگیا، انٹرنیٹ کی کئی کمپنیوں کے اسٹاک تین سو سے چار سو ڈالر تک کے بکنے لگے، کمپنیز زیادہ اور خریدار کم، اس لیے درجنوں انٹرنیٹ کمپنیاں 1999 کے آس پاس بینک کرپٹ ہوگئیں، جسے امریکن اکانومی میں انٹرنیٹ میل برسٹ ہونا بھی کہا جاتا ہے، لیکن پھر بھی جہاں سیکڑوں کمپنیاں بند ہوئیں وہیں درجنوں نے پاؤں جمالیے۔
پچھلے 15 سال سے ''ایمزون ڈاٹ کام'' دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس ویب سائٹ بن چکی ہی، ایمزون پر ہر سال 70 بلین سے زیادہ کی چیزیں فروخت ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایمزون نہ صرف امریکا بلکہ یوکے، جاپان، آسٹریلیا یہاں تک کہ انڈیا تک میں موجود ہے۔
ایمزون پر آپ ایک سوئی سے لے کر کمپیوٹر، ٹی وی اور فرنیچر تک خرید سکتے ہیں، یہ دنیا میں ہر جگہ اپنی پروڈکٹس شپ کرتا ہے سوائے چند ملکوں کے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستان کو کوئی بھی بڑی ای کامرس سائٹ قابل بھروسہ نہیں سمجھتی، جیسے انٹر نیٹ پر پے منٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ ''پے پیل ڈاٹ کام'' پر پاکستان میں اکاؤنٹ بنانا منع ہے۔
ایسے میں کچھ لوگوں نے پاکستان میں ای کامرس کو ایک موقع جانا، شایان طاہر ایک 29 سالہ لڑکا ہے جس نے پیسے جمع کیے کہ وہ آئی پوڈ خرید سکے لیکن جب اس نے ایمزون پر اپنا آرڈر ڈالا تو وہ اس لیے ریجیکٹ ہوگیا کہ وہ پاکستان میں تھا، اس واقعے کے بعد شایان نے امریکا میں رہنے والے اپنے کزن سے تین آئی پوڈز منگوائے ایک خود رکھا اور دو کلاسیفائیڈ اشتہار کے ذریعے بیچ دیے جس کے بعد انھیں خیال آیا کہ وہ پاکستان میں بھی ایمزون جیسی سائٹ بنائیں اور یہاں سے انھوں نے آغاز کیا''ہوم شاپنگ ڈاٹ پی کے'' کا۔
اس وقت پاکستان میں ای کامرس آہستگی سے آرہا ہے، پچھلے سال پاکستان میں 35 ملین ڈالرز کی سیل آن لائن ہوئی تھی جو کہ امریکا کے ایمزون، چائنا کی علی بابا ڈاٹ کام اور انڈیا کی فلپ کارٹ کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے لیکن پھر بھی ایک اچھی شروعات ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے 30 ملین یوزرز میں سے سب کے پاس کریڈٹ کارڈز نہیں ہیں، ہمارا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیلیوری سسٹم بھی امریکا کی طرح نہیں ہے، کورئیر کمپنیاں موجود تو ہیں لیکن انٹرنیٹ شپمنٹس کا زیادہ تجربہ نہیں ہے اور ان کے زیادہ ریٹ کی وجہ سے ڈیلیوری کے لیے ان کا استعمال ممکن نہیں ہے۔
پاکستان میں اس وقت کئی ایسی سائٹس ہیں جو یقیناً پاکستان کے انٹرنیٹ کا مستقبل ہیں، نہ صرف پاکستان میں بلکہ باہر کے ممالک کے انویسٹرز بھی ان میں پیسہ لگا رہے ہیں، جو اچھی بات ہے، شاپ ہائف ڈاٹ کام، دراز ڈاٹ پی کے، زمین ڈاٹ کام اور گاڑیوں کی ویب سائٹ پاک وہیلرڈاٹ کام وہ سائٹس ہیں جن میں بہت مواقع ہیں، پہلی بار پاکستان میں انویسٹرز اس کو سنجیدگی سے لے کر پیسہ لگارہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ دسمبر 1995 میں آیا تھا اور آج 20 سال بعد بھی ہم ای کامرس میں اتنے ابتدائی دور میں کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم پر تھوڑے دن میں پہیے کو دوبارہ سے ایجاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی کوئی ویب سائٹ آتی ہے جو ای کامرس شروع کرتی ہے لیکن یا تو کچھ عرصے میں وہ دم توڑ دیتی ہے یا پھولتی پھلتی نہیں۔
پاکستان میں اس وقت ہمیں ضرورت ہے سب سے پہلے اپنا شپنگ انفرااسٹرکچر درست کرنے کی، ایسی کمپنیاں جو صرف اور صرف انٹرنیٹ پر خریدی چیزوں کو ڈیلیور کرتی ہوں جو ہفتے میں چار نہیں بلکہ دن میں چالیس ڈیلیوریز کرنے کا تجربہ رکھیں۔
لوگوں کو عادت نہیں ہے تو انھیں عادت ڈالیں جس کے لیے آن لائن ایسی پروڈکٹس سستی بیچیں جو عام آدمی خریدنا چاہتا ہے، جیسے انڈے، دودھ، گوشت جس سے ہم ہر عام پاکستانی کو انٹرنیٹ خریداری کے لیے تیار کردیں گے۔
ایک پے پیل جیسی پے منٹ سسٹم جس میں آن لائن شاپنگ کے لیے ایک شخص کو اپنا بینک اکاؤنٹ یا پھر کریڈٹ کارڈ یا کیش ڈپازٹ کرواکر اس کو استعمال کرکے آن لائن شاپنگ کرسکتا ہو، اس وقت پاکستان میں آن لائن شاپنگ ''COD'' ہوتی ہے یعنی کیش آن ڈیلیوری ہوتی ہے، حالات کو دیکھتے ہوئے لوگ گھر میں کیش رکھے ہوئے ہیں اور وہ سامان آنے کا انتظار کررہے ہیں وہ یہ کسی ویب سائٹ کو بتانے میں بھی ڈرتے ہیں، پے منٹ سے متعلق ہر چیز آن لائن ہونی ضروری ہے والیوم بڑھانے کے لیے۔
جب ہم اپنا انفرااسٹرکچر بہتر کرلیں گے تو امریکا ، انگلینڈ کی مشہور ویب سائٹس کو دکھا سکتے ہیں کہ ہم کتنے مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور وہ ہمارے یہاں بھی آکر بزنس کریں کیونکہ اگر ''ایمزون آئی این'' ہوسکتا تو ''ایمزون ڈاٹ پی کے''کیوں نہیں؟
پاکستان ای کامرس میں ہمیں ہر بار ''پہیہ'' ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو دنیا میں پہلے سے انٹرنیٹ کی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں انھیں یہ باور کرانا ہے کہ ہم بھی ای کامرس کرسکتے ہیں جو پاکستان کی معیشت کے لیے بڑا اور اہم قدم ہوگا۔