جدوجہد آزادی کی ہم رکاب
مسلم طالبات اور خواتین نے اپنے آنچلوں کو پرچم بناتے ہوئے ’’مسلم ویمن نیشنل گارڈز‘‘ جیسی تنظیم قائم کی۔
قیام پاکستان میں خواتین کے کردار پر ایک نظر۔ فوٹو: فائل
برصغیر میں خواتین کی سیاست میں شمولیت اور جدوجہدکی تاریخ ایک صدی پرانی ہے۔ 1906ء میں لاہور میں پہلی انجمن خواتین قائم کی گئی۔ 1921ء کے بعد یہاں کی خواتین کو حق رائے دہی ملنا شروع ہوا۔ 1935ء میں مکمل طور پر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے ذریعے پورے خطے کی تقریباً 66 لاکھ خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہو گیا۔ یوں وہ بھی تحریک آزادی میں مردوں کی ہم آواز ہونے کی اہل ہوگئیں۔
جنوری 1936ء میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن برائے طالبات کی تشکیل ہوتے ہی خواتین بڑی تعداد میں اس کا حصہ بنیں۔ چناں چہ دسمبر 1937ء میں کلکتہ (کولکتہ) میں جب فیڈریشن کا پہلا اجلاس ہوا، تو آسام کی مندوب بیگم جہاں آرا نے انتہائی سرگرمی سے اس اجلاس کو کام یاب بنایا، جس کے نتیجے میں بیگم شائستہ اکرام اﷲ کو ایم ایس ایف کے صدر راجا صاحب محمود آباد نے طالبات کی قیادت کا اختیار دیا۔ جس کے بعد تحریک میں خواتین کی شرکت مزید بڑھ گئی اور لاہور، الٰہ آباد، میرٹھ، بمبئی وغیرہ کی طالبات جوق در جوق ایم ایس ایف کا حصہ بنتی چلی گئیں۔ 1936-37ء کے انتخابات میں مسلمان خواتین بیگم جہاں آرا، شاہ نواز اور بیگم شائستہ اکرام اﷲ نے انتخابات میں کام یابی حاصل کی اور قومی اسمبلی کی اراکین منتخب ہوئیں، جب کہ بیگم جہاں آرا شاہ نواز قانون ساز اسمبلی کے اراکین میں شامل تھیں۔
1937ء میں مسلم لیگ کااجلاس لکھنؤ میں ہوا۔ قائداعظم نے جب آل انڈیا ورکنگ کمیٹی ترتیب دی، تو اس میں بیگم محمد علی جوہر کو بھی نام زَد کیا۔ 1942ء میں مسلم خواتین اور طالبات کی ایک نمایندہ کانفرنس بیگم اعزاز رسول کی زیر صدارت دہلی میں منعقد ہوئی۔ یہ مسلم خواتین کا پہلا ملک گیر اجتماع تھا۔ اسی طرح 1943ء میں خواتین کی ایک عظیم الشان کانفرنس علی گڑھ میں ہوئی، جس میں پشاور کی مندوب زریں سرفراز اور بیگم شاہ نواز کی بیٹی ممتاز جہاں نے بڑی جوشیلی اور ولولہ انگیز تقاریر کیں۔
اس میں باپردہ طالبات کو بھی ایم ایس ایف کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ دسمبر 1938ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پٹنہ میں قائد اعظم کے زیر صدارت ہوا اور جس کی کام یابی میں محترمہ فاطمہ جناح بھی پیش پیش تھیں۔ اس موقع پر خواتین کے حق میں ایک خصوصی قرارداد بھی منظور کی گئی، یہ قرارداد یوپی سے تعلق رکھنے والی بیگم حبیب اﷲ نے پیش کی اور اپنی تمہیدی تقریر میں کہا کہ ''اب وقت آگیا ہے کہ مسلم خواتین اپنے مسلمان بھائیوں اور بیٹیوں کے شانہ بشانہ کام کریں۔
ہمیں اعتراف ہے کہ ہماری خواتین زندگی کے ہر شعبے میں بہت پیچھے ہیں اور ان کی پس ماندگی ہماری قوم کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔۔۔ مسلمان خواتین کو اب اپنی سرگرمیاں اور ذمے داریاں صرف چولھے اور چار دیواری تک محدود نہیں رکھنی چاہئیں، بلکہ کچھ گھر سے باہر نکل کر بھی دیکھیں کہ دنیا کس طرح بدل رہی ہے، یہ بھی دیکھنا چاہیے اور سوچنا ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کون سے نئے مسائل سامنے لا رہی ہے اور مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے کس نوعیت کی جنگ سر پر کھڑی ہے۔ اسلام نے خواتین کو جو خصوصی مراعات اور حقوق عطا کیے ہیں وہ دنیا کے کسی اور مذہب نے نہیں دیے ہیں اس لیے مسلم خواتین کو آگے بڑھ کر اسلام کی عطا کردہ مراعات سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔''
یوں بیگم حبیب اﷲ کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ''مسلم خواتین کو ترقی کے لیے ایسے مناسب مواقع دینا ضروری ہیں کہ وہ ہندوستان میں مسلم قوم کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی جد وجہد میں عملاً شریک ہو سکیں۔'' اس طرح یہ قرار پایا کہ آل انڈیا مسلم خواتین کی سب کمیٹی تشکیل دی جائے جس کے اغراض و مقاصد یہ تھے۔
(1) صوبائی و ضلعی مسلم لیگ کے تحت صوبائی و ضلعی خواتین سب کمیٹیاں قائم کی جائیں۔
(2) خواتین کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں مسلم لیگ کا کارکن بنایا جائے۔
(3) برصغیر میں مسلم خواتین میں تشہیر کے وسیع ذرایع اختیار کر کے ان میں زیادہ سے زیادہ سیاسی شعور پیدا کیا جائے۔
(4) مسلم معاشرے کی ترقی کا زیادہ دار و مدار چوں کہ خواتین پر ہے، اس لیے ان کی مناسب راہ نمائی کی جائے۔''
اس قرارداد کی رو سے آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی سب کمیٹی میں مختلف صوبوں سے کئی خواتین کو رکنیت ملی، جس کے بعد خواتین میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا ہو گیا۔
23مارچ کے دن اگر خواتین کی جد وجہد کے بارے میں بات نہ کی جائے، تویہ ملک کی 52 فی صد آبادی سے سراسر نا انصافی ہو گی۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے، تو مسلم طالبات اور خواتین نے اپنے آنچلوں کو پرچم بناتے ہوئے ''مسلم ویمن نیشنل گارڈز'' جیسی تنظیم قائم کی اور تحریک پاکستان میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا۔ تحریک پاکستان میں خواتین نے سیاست کے میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا اور جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا، تو محترمہ فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لے کر دوسری خواتین کو سیاست میں آنے کی ترغیب دی۔ 23مارچ 1940ء میں پیش کی گئی تاریخی قرارداد پاکستان کی تائید خواتین کی طرف سے بیگم مولانا محمد علی جوہر نے کی۔ یوں تحریک پاکستان میں 23 مارچ کے تاریخی اور نتیجہ خیز یوم پاکستان کو کام یابیوں سے ہم کنار کر کے خواتین نے ثابت کر دکھایا کہ وہ بھی اسی جذبے اور صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ بقول مجاز لکھنوی ؎
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا