ارسلان افتخار نے نیب کی تحقیقاتی کمیٹی مسترد کردی
سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر،جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا
ڈاکٹر ارسلان افتخار نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کرتے ہوئے تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی ہے جبکہ نیب کی قائم کردہ مشترکہ کمیٹی کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس کے سربراہ اور ایک رکن کے ملک ریاض سے قریبی تعلقات ہیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ملک ریاض حسین اور ارسلان افتخار کے درمیان مبینہ ڈیل کے کیس میں اٹارنی جنرل کو تحقیقات کرانے کا حکم دیا تھا اور اٹارنی جنرل نے چیئرمین نیب کو لیٹر بھجوایا تھا۔ڈاکٹر ارسلان نے ایڈووکیٹ سردار اسحاق کی وساطت سے نظرثانی کی درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ انہیں حکومت کے تحقیقاتی اداروں پراعتماد نہیں جبکہ اٹارنی جنرل نے بھی دو رکنی بینچ کے فیصلے کی درست تشریح نہیں کی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ نہیں کہا تھاکہ معاملہ نیب کو بھجوا دیاجائے،اس معاملے مین نہ تو کسی بینک کے قرضے کا معاملہ ہے اور نہ ہی کوئی قومی خزانے کو لوٹا گیا ہے اس لیے یہ کیس نیب کا نہیں بنتا۔ تحقیقاتی ٹیم سے واقفیت رکھنے والے ذرائع کاکہنا ہے کہ موجودہ تحقیقاتی عمل کا بین الاقوامی پس منظر بھی ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات اور برطانیہ کے بینک اکائونٹس سمیت غیر ملکی بینکنگ سسٹمز کے ذریعے مبینہ لین دین ہوا ہے، تحقیقاتی ٹیم پہلے ہی ملک ریاض کو 16 جولائی کو نیب ہیڈ کوارٹرز میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کرچکی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ملک ریاض حسین اور ارسلان افتخار کے درمیان مبینہ ڈیل کے کیس میں اٹارنی جنرل کو تحقیقات کرانے کا حکم دیا تھا اور اٹارنی جنرل نے چیئرمین نیب کو لیٹر بھجوایا تھا۔ڈاکٹر ارسلان نے ایڈووکیٹ سردار اسحاق کی وساطت سے نظرثانی کی درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ انہیں حکومت کے تحقیقاتی اداروں پراعتماد نہیں جبکہ اٹارنی جنرل نے بھی دو رکنی بینچ کے فیصلے کی درست تشریح نہیں کی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ نہیں کہا تھاکہ معاملہ نیب کو بھجوا دیاجائے،اس معاملے مین نہ تو کسی بینک کے قرضے کا معاملہ ہے اور نہ ہی کوئی قومی خزانے کو لوٹا گیا ہے اس لیے یہ کیس نیب کا نہیں بنتا۔ تحقیقاتی ٹیم سے واقفیت رکھنے والے ذرائع کاکہنا ہے کہ موجودہ تحقیقاتی عمل کا بین الاقوامی پس منظر بھی ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات اور برطانیہ کے بینک اکائونٹس سمیت غیر ملکی بینکنگ سسٹمز کے ذریعے مبینہ لین دین ہوا ہے، تحقیقاتی ٹیم پہلے ہی ملک ریاض کو 16 جولائی کو نیب ہیڈ کوارٹرز میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کرچکی ہے۔