متنازع جوہری پروگرام پر ایران اور عالمی طاقتوں میں مذاکرات اہم مرحلے میں داخل
مذاکرات کے لیے 31 مارچ اور حتمی معاہدے کے لیے 30 جون کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے۔
ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر امریکا اور 6 عالمی طاقتوں کے ایرانی حکام سے مذاکرات انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں اور منگل کو ختم ہونے والی ڈیڈ لائن سے قبل ہی فریقین کے معاہدے پر اتفاق رائے کی قوی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے علاوہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری، جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر اور فرانسیسی وزیرخارجہ لاراں فابیوس مذاکرات میں شریک ہیں۔ جرمنی کے وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طویل مذاکرات کا آخری مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور ایران کے ساتھ 12 سالہ مذاکرات کے بعد اب ہمارے سامنے فیصلہ کن دن ہیں، فرانسیسی وزیر خارجہ لوراں فیبیوس کا کہنا تھا کہ ہم نے کچھ معاملات میں پیش رفت کی ہے، بی بی سی کی نامہ نگار باربرا پلیٹ اشر کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ متنازع معاملات تاحال حل طلب ہیں۔
خیال رہے کہ مذاکرات کے لیے 31 مارچ اور حتمی معاہدے کے لیے 30 جون کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے۔ بات چیت میں شامل روس کے مرکزی مذاکرات کار اور روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریبکوو نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں امریکہ کے حمایت یافتہ سعودی اتحاد کی ایران نواز باغیوں کیخلاف کارروائی جوہری مذاکرات کے ماحول پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ انھوں نے ایک روسی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'بدقسمتی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ یمن میں پیش آنے والے المناک واقعات کا اثر بات چیت کے ماحول پر پڑ رہا ہے تاہم انھوں نے امید ظاہر کی کہ یمن کی صورتحال 'بات چیت کے کچھ شرکا' کے موقف میں تبدیلی نہیں لائے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ معاہدے پر اتفاقِ رائے کے امکانات اب 50/50 سے زیادہ ہیں ادھر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ ایران اور عالمی برادری کے درمیان ایرانی جوہری معاہدے تک پہنچنے کیلیے فریم ورک پر متوقع اتفاق کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ان کے ملک کے خدشات سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔اسرائیل عالمی برادری اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کا مخالف ہے جو اس کے خیال میں ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے کا سبب بنے گا اور ایرانی جوہری انفراسٹرکچر بھی موجود رہے گا جو اسرائیل کے خیال میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کیلیے ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے علاوہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری، جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر اور فرانسیسی وزیرخارجہ لاراں فابیوس مذاکرات میں شریک ہیں۔ جرمنی کے وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طویل مذاکرات کا آخری مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور ایران کے ساتھ 12 سالہ مذاکرات کے بعد اب ہمارے سامنے فیصلہ کن دن ہیں، فرانسیسی وزیر خارجہ لوراں فیبیوس کا کہنا تھا کہ ہم نے کچھ معاملات میں پیش رفت کی ہے، بی بی سی کی نامہ نگار باربرا پلیٹ اشر کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ متنازع معاملات تاحال حل طلب ہیں۔
خیال رہے کہ مذاکرات کے لیے 31 مارچ اور حتمی معاہدے کے لیے 30 جون کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے۔ بات چیت میں شامل روس کے مرکزی مذاکرات کار اور روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریبکوو نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں امریکہ کے حمایت یافتہ سعودی اتحاد کی ایران نواز باغیوں کیخلاف کارروائی جوہری مذاکرات کے ماحول پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ انھوں نے ایک روسی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'بدقسمتی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ یمن میں پیش آنے والے المناک واقعات کا اثر بات چیت کے ماحول پر پڑ رہا ہے تاہم انھوں نے امید ظاہر کی کہ یمن کی صورتحال 'بات چیت کے کچھ شرکا' کے موقف میں تبدیلی نہیں لائے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ معاہدے پر اتفاقِ رائے کے امکانات اب 50/50 سے زیادہ ہیں ادھر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ ایران اور عالمی برادری کے درمیان ایرانی جوہری معاہدے تک پہنچنے کیلیے فریم ورک پر متوقع اتفاق کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ان کے ملک کے خدشات سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔اسرائیل عالمی برادری اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کا مخالف ہے جو اس کے خیال میں ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے کا سبب بنے گا اور ایرانی جوہری انفراسٹرکچر بھی موجود رہے گا جو اسرائیل کے خیال میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کیلیے ہے۔