احسان دانش کی یاد میں
دن اور تاریخ تو ہمیں یاد نہیں البتہ یہ بات ہمارے حافظے میں آج بھی محفوظ ہے
KARACHI:
دن اور تاریخ تو ہمیں یاد نہیں البتہ یہ بات ہمارے حافظے میں آج بھی محفوظ ہے جب ہماری احسان دانش صاحب سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی تھی۔ان سے بالمشافہ ملاقات کا شرف ہمیں ریڈیو پاکستان کراچی میں اس وقت حاصل ہوا جب ہم اس عظیم ادارے سے بحیثیت پروگرام منیجر وابستہ تھے۔ وہ اپنی کسی نجی مصروفیت کے سلسلے میں لاہور سے کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور ہماری خصوصی درخواست پر ریڈیو پاکستان کے لیے انٹرویو ریکارڈ کرانے پر بخوشی آمادہ ہوگئے تھے۔
دانش صاحب نے مقررہ وقت پر تشریف لاکر حکیم محمد سعید شہید اور حکیم محمد احسن صاحب (مرحوم) کی یاد تازہ کردی جن کی پابندی وقت کے ہم ہمیشہ معترف رہیں گے۔ دانش صاحب کی آمد کے ساتھ ہی پورے کمرے میں گویا ایک خوشبو اور روشنی سی پھیل گئی اور ہمیں فراق صاحب کا وہ شعر یاد آگیا جو انھوں نے اپنی ذات کے حوالے سے برجستہ کہا تھا:
آنے والی نسلیں تم پر ناز کریں گی ہمعصرو
جب تم ان کو بتلاؤ گے ہم نے فراقؔ کو دیکھا تھا
ہم واقعی بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہمیں فراق صاحب اور دانش صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ یہ ملاقاتیں ہمارے لیے سرمایہ حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔
احسان دانش صاحب اور ہمارے درمیان دو باتیں قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایک مظفر نگر جو ہندوستان کے سب سے بڑے اور مشہور صوبے اتر پردیش (یوپی) کا ایک انتہائی اہم اور معروف ضلع ہے اور دوسرے شعر و شاعری۔ دانش صاحب اسی ضلع کے ایک قصبے کاندھلہ میں 1914 میں پیدا ہوئے جو جید علمائے دین کے حوالے سے بھی اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ انھوں نے ایک محنت کش گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد قاضی دانش علی قصبہ باغپت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے اور ان کے نانا ابو علی کاندھلہ میں ایک غریب سپاہی کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔
احسان دانش صاحب کے والد صاحب بھی کوئی پڑھے لکھے آدمی نہیں تھے مگر ان کا علمی ذوق بڑا وسیع تھا اور انھیں فارسی کی سیکڑوں غزلیں زبانی یاد تھیں جس کا تذکرہ احسان دانش صاحب نے اپنی سرگزشت میں بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ کیا ہے۔ تاہم اپنے چشم و چراغ کو زیور علم سے آراستہ کرنے کی شدید خواہش اور تمنا اپنے دل میں رکھتے تھے۔ افسوس کہ غربت نے ان کی اس دلی آرزو کی تکمیل میں رکاوٹ حائل کردی اور اس کے نتیجے میں احسان دانش کو کم عمری ہی میں پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کا سہارا لینا پڑا۔
ابتدا میں انھوں نے اپنے قصبے میں ہی روزگار تلاش کرنے کی کوشش کی اور پھر گردش حالات نے انھیں میونسپلٹی میں نائب قاصد کے طور پر نوکری کرنے پر مجبور کردیا۔ تاہم اپنے علمی ذوق کی تسکین کے لیے وہ اپنے استاد قاضی محمد ذکی کاندھلوی سے فیض حاصل کرتے رہے۔ اس حوالے سے وہ اپنی سرگزشت میں یوں رقم طراز ہیں۔ ''میرا مطالعہ اور جذبہ مجھے قصبہ کاندھلہ میں بلند نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ میں کھیتوں کھلیانوں، سڑکوں اور دفتروں کے راستے ناپتا ناپتا تھک گیا۔'' تھک ہار کر انھوں نے تلاش معاش کے سلسلے میں دہلی کا رخ کیا اور ایک چھاپہ خانہ میں کچھ عرصہ Ink man کی حیثیت سے کام کیا لیکن عدم اطمینان کے باعث کاندھلہ واپس آگئے۔ اس کے بعد گردش حالات نے انھیں لاہور کا رخ کرنے پر مجبور کردیا جہاں کچھ عرصے تک انھوں نے باورچی کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
لاہور کے ابتدائی ایام ان کے لیے بڑی کڑی آزمائش تھے۔ دن بھر کی محنت و مشقت انھیں اس قدر نڈھال کردیتی تھی کہ وہ بے حس و حرکت پڑے رہتے۔ لیکن بوڑھے والدین کا احساس انھیں پھر سے توانا کردیتا تھا اور وہ اپنی ہر نئی صبح کا آغاز ایک نئے عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ کردیتے۔ اسی دوران ان کی شاعری بھی پروان چڑھتی رہی۔ چنانچہ رات کو وہ مشاعروں کی محفلوں میں جلوہ افروز ہوتے تو دن کے وقت ہاتھوں میں برش اور رنگ و روغن کی بالٹی تھامے ہوئے محنت مزدوری کرتے ہوئے پائے جاتے تھے۔ لاہور شہر میں احسان دانش صاحب نے اپنے ابتدائی ایام میں بڑے پاپڑ بیلے اور سخت محنت اور عسرت کی زندگی بسر کی جس میں مزدوری، معماری، باغبانی، چوکیداری اور قلعی گری بھی شامل ہے لیکن ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے محنت کو عار نہ سمجھا اور محنت میں عظمت کو اپنا شعار بنایا اور وہ کبھی ہمت نہیں ہارے۔
کتابیں احسان دانش کا اوڑھنا بچھونا رہیں۔ یہ ان کا ذوق مطالعہ ہی تھا جس نے چار جماعتیں پڑھے ہوئے ایک معمولی سے طالب علم کو بہت بڑا عالم بنادیا۔ ریلوے میں کچھ عرصہ نائب قاصد کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد کتابوں سے عشق نے انھیں ایک مطبع کے کتب خانے میں بیس روپے ماہانہ کی ملازمت اختیار کرنے پر آمادہ کرلیا۔ اسی عرصے میں ان کی پہلی کتاب ''حدیث ادب'' اشاعت پذیر ہوئی جس کے بعد انھوں نے اپنے ایک مکتبہ کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد کتابیں لکھنے اور شایع کرنے کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ کتاب ان کی زندگی بھر کی ساتھی رہی اور یہی ان کی وجہ شہرت بھی بنی۔ شاعری میں اگرچہ ان کا کوئی استاد نہیں تھا لیکن شعری ذوق انھیں قاضی محمد ذکی کی صحبت بدولت میسر آیا۔
شروع شروع میں ان کی شاعری بھی روایتی انداز کی ہی تھی جس میں حسن و عشق اور عاشق و محبوب کا رنگ غالب تھا لیکن بہت جلد اس میں ان کی انفرادیت نمایاں ہونے لگی۔ چونکہ ان کی ذاتی زندگی محنت مزدوری سے عبارت تھی، اس لیے وہی ان کی شاعری کا مرکز و محور بن گئی اور عوام الناس نے انھیں ''شاعر مزدور'' کے خطاب سے نواز دیا جو حقیقتاً ان کے شایان شان تھا۔ وہ ایسے شاعر مزدور نہیں تھے جن کی شاعری ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں جنم لیتی ہے۔ ان کی شاعری جگ بیتی نہیں بلکہ حرف بہ حرف آپ بیتی ہے جس میں ان کی ذات کا درد اور کرب قطعی نمایاں ہے۔
ان کی نظمیں ''باغی کا خواب'' اور ''سادھو کی چتا'' عوام میں بے حد مقبول ہوئیں جس نے انھیں بہت جلد مشاعروں کی مرکزی شخصیت بنادیا۔ ان کی شاعری ہی میں نہیں بلکہ آواز میں بھی بلا کا سوز تھا جو سامعین پر سحر طاری کردیتا تھا۔ علم عروض میں بھی انھیں کمال حاصل تھا اور ہر مصرعے کی بندش لاجواب ہوتی تھی۔ ان کے الفاظ کا ذخیرہ بحر بیکراں سے کم نہ تھا۔ فصاحت و بلاغت ان کا طرہ امتیاز تھا۔ واقعہ نگاری اور واردات کے بیان میں انھیں غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ غزل اور نظم دونوں ہی اصناف سخن پر انھیں یکساں عبور حاصل تھا۔
احسان دانش جتنے اعلیٰ درجے کے شاعر تھے اتنے ہی بڑے نثر نگار بھی تھے۔ ان کی خودنوشت ''جہان دانش'' اس کی بہترین مثال ہے۔ ان کی تصانیف کی مجموعی تعداد 80 سے بھی زیادہ ہے جب کہ ان کے مختلف مضامین کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ''اردو مترادفات'' اور ''لغت الاصلاح'' اردو زبان کے حوالے سے ان کی انتہائی قابل قدر خدمات میں شمار کی جاتی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ڈگریاں علمیت و قابلیت کے لیے ہرگز لازم و ملزوم نہیں۔ حکومت پاکستان نے احسان دانش کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 1978 میں انھیں تمغہ امتیاز سے نوازا تھا۔
احسان دانش 21 مارچ 1982 کو اس جہان فانی سے ملک عدم روانہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور درجات بلند فرمائے (آمین)