برے لوگو مرجاؤ
یہ اس مظلوم لیاری کا ذکر ہے جو امن، بھائی چارہ، بقائے باہمی اور بندہ نوازی کا گہوارہ تھی۔
KARACHI:
گرم آنسوؤں کے چند قطرے آنکھ سے ٹپکے تھے مگر پہلے سے شرمندہ ، ذلتوں کی ماری اور کچلی ہوئی روح کو گہرائی تک اداس کرگئے۔ وجہ صرف معروضیت سے بیزار اور سنسنی خیزی سے لتھڑے ہوئے آزاد میڈیا کی ایک خبر بنی، چار کم عمر دہشت گردوں کی جو 5 روز قبل پکڑے گئے موچکو تھانہ کے علاقے سے اور مارے گئے لیاری کے مختلف علاقوں میں۔ موت انھیں چپکے سے بغدادی تھانہ کے قریب لے آئی۔ دوسرے مقتولوں سے شناسائی نہ تھی مگر کم عمر مقتول ارسلان عرف گولو کی دردناک موت کا صدمہ اتنا پھیلا کہ ان ہلاک شدگان کی مسخ شدہ لاشیں اور ان کی جواں سالی کی موت نظروں کے سامنے گھوم گئی۔
سوچتا ہوں کہ گینگ وار تو ہر جگہ ہے، پوری اسلامی تاریخ گینگ واروں سے بھری پڑی ہے یارو! ، سارا عالم اسلام ہولناک اتھل پتھل سے دوچار ہے، قتل و غارت گری ہے، ظالم ومظلوم کی اس جنگ میں انصاف کا ادارہ تو محض اخباری جھلکیوں سے سنائی دینے والی وارننگ ہے۔ ایک اور دردانگیز حقیقت یہ تھی کہ ایک رات قبل مجھے اپنے بھتیجے عدیل شاہ نے جنوبی افریقہ سے لائی ہوئی نیلسن منڈیلا کی انقلابی جدوجہد پر مبنی بی بی سی ڈاکومنٹری کی ڈی وی ڈی دی تھی جسے دیکھنے کی تیاری کررہا تھا کہ یہ سانحہ ہوگیا۔ یوں لگا میں اپنے کسی بیٹے یا شاگرد کا جسم چھلنی ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ پھر مجھے شہر قائد سمیت ملک بھر میں موت کے گھاٹ اتر جانے والے ایسے کم سن دہشت گرد یاد آگئے جنہیں ان کے جرم کی سزا ئیں کسی عدالت نے نہیں دیں ۔ وہ آپس میں لڑے مرے یا پھر زبردستوں نے انھیں ماردیا ۔ بہرحال گینگسٹرز کا المیہ یہ ہے کہ
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آہے پر نہیں آتی
مگر یہ کسک دل میں ہمیشہ رہے گی کہ جس غربت زدہ ارسلان کو تعلیم کی ضرورت کا احساس دلاتا اور اسے فٹ بالر بننے کا کہتا رہا اسے بے وقت موت ہم سے چھین کر لے گئی۔ اور وہ بھی مکار، اور بے رحم معاشرے کی اس دہلیز سے جو اکیسویں صدی کی سائنس و ٹیکنالوجی کی چکاچوند سے محروم اور مسلسل لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں غرق ہے ۔ سندھ کی ٹھگوکریسی کا تماشا ملاحظہ ہو ، دو دن قبل موچکو تھانہ کے ایس ایچ او سے بات ہوئی کہنے لگے ارسلان نام کا کوئی بندہ ہمارے پاس نہیں، چار دوسرے ''اٹھائے'' ہیں۔ اس غریب بچہ کو میں نے ہاتھ سے کھانا کھلایا، اس کی ماں جب پیسے منگواتی تو گولو چند روپے لے کر یوں دوڑتا ہوا گھر سے نکلتا جیسے میراتھن ریس میں شامل ہونے جارہا ہے۔
پیر کو اس کا جنازہ اٹھا تو میں اسے کاندھا دینے سے معذور تھا کیونکہ سیفی لین میں میرے آبائی گھر پر دو سال قبل گینگ وار کارندوں نے حملہ کیا تھا۔کوئی مدد کو نہیں آیا،لیکن یہ جانتا تھا کہ میں ایک غیرانسانی ، مردہ ، بے حس اور عروس البلاد کراچی کے ٹکڑوں پر پلنے والی بستی کا خجل و خوار Dehumanized مکین ہوں،اس لیے مجھے یا کسی کو بھی ملکی آئین و قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ان بے منزل اور بد نصیب کارندوں کو ماورائے قانون قتل کرنے کے لیے کہیں سے ایل ایم جی چرا کر ان کی لاشیں گرا دیتا۔ ایسا ہوتا رہا تو کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔
دماغ میں ماضی کی فلم گھوم گئی جب پاکستان فٹ بال ٹیم کے سابق کپتان عبدالغفور مجنا(مرحوم) کے بڑے بیٹے عبدالغنی کو دیگر نوجوانوں کے ساتھ گھر سے گرفتار کیا گیا اور غنی کے گھر سے بھاری اسلحہ برآمدگی کا دعویٰ دو ہفتے بعد کیا گیا ۔ ان لڑکوں کی جیل سے رہائی کے لیے روزنامہ ایکسپریس اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی خصوصی کوششوں سے عمل میں آئی۔ ان میں سے اکثر کی ملازمتیں چھوٹ گئیں۔
یہ اس مظلوم لیاری کا ذکر ہے جو امن، بھائی چارہ، بقائے باہمی اور بندہ نوازی کا گہوارہ تھی۔ یہی وہ بستی تھی جس کے لوگ نسلی امتیاز کے دنوں میں جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا کو اپنے خوابوں میں سجائے رہتے تھے، 71-72 میں پروفیسر ن، م، دانش کی پوری تفکرانہ شاعری نیلسن منڈیلا کی انقلابی سوچ اور ان کی امن دوست و تشدد شکن غیر معمولی جمہوری رویے اور سیاسی مسلک پر محیط تھی۔ اسی جگہ جہاں ارسلان گولو کا جنازہ اٹھا تھا ماضی کے شاندار مگر سادہ سے اسٹریٹ اسکول کی راتیں علم کے نور سے جھلملاتی رہتی تھیں، اسی کے خمیر سے پروفیسر صبا دشتیاری شہید کا علمی پیکر تراشا گیا۔ چند طالب علموں نے اسٹریٹ اسکول کے قیام کا تجربہ کیا، اور یوں اسٹریٹ اسکول کا یونیسکویا یونیسیف نے کتابچہ چھاپا پھر روزنامہ ''ڈان'' نے اس پر مضمون شایع کیا، جس میں لیاری کے فری اسٹریٹ اسکول کو فروغ علم کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا۔
آگے جاکر مختلف پرائیویٹ اسکولوں کا جال پھیلا، ایسے والدین نے اپنے بچوں کو ان میں داخلہ دلوایا جو خود جہالت اور پسماندگی کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ کراچی میں نفرتوں کے سیاسی بگولے اٹھنے لگے، بحر عرب کی اس بستی کو غیر انسانی سماج میں بدلنے کے لیے 80ء کے بعد کی دہائیوں میں سیاسی جماعتوں ، ڈرگ و لینڈ مافیا اور قبضہ گیروں کے آمرانہ اور جمہوری گماشتوں نے محاصرہ میں لے لیا، اچانک بھانت بھانت کی داخلی و خارجی بلائیں لیاری کی بہار اور اس کی پرامن فضاؤں میں زہر گھول گئیں۔
پیپلز پارٹی اس لیے بھی اس سارے فسانے میں معتوب ہوئی کہ لیاری اس کا سیاسی قلعہ ہے، ووٹ بینک ہے جسکے سر سے پہلے بھٹو کا سایہ ہٹا، پھر بینظیر و نصرت بھٹو کو اس سے جدا کیا گیا، کوئی دوسرا غیر بھٹو حکمراں لیاری کے دل ودماغ نہ جیت سکا، اور لیاری کی سماجی، معاشی، انسانی اور تاریخی شناخت کو آگ لگ گئی۔ مفسدانہ پروپیگنڈہ سے ثابت کرایا گیا کہ یہ بستی اپنی جبلت میں گینگ وار کے لیے بسائی گئی تھی، چنانچہ اس داستان میں ماضی کے دادل، شیرو، بیکل، کالا ناگ، بادشاہ خان، محمدیہ ڈاکو، اللہ بخش اور بابو اقبال ڈکیت کا تڑکا لگایا گیا جب کہ دور حاضر میں سردار رحمٰن، ارشد پپو، عزیر، بابا لاڈلا، شیراز کامریڈ، جبار جینگو، راشد ریکھا، استاد تاجو، غفار ذکری کے ذریعے گینگ وار کا اسکرپٹ تیار گیا۔
مجھ حقیر کو کوئی یہ بتائے کہ کن کاریگر ہاتھوں نے بے آسرا لیاری کی امن دوست بستی کو بلڈوز کیا، جمہوریت نے گینگ وار کے پیچھے کیوں پناہ لی؟ یہاں روزگار، تعلیم، صحت، اسپورٹس اور رہائش کی سہولتوں کی فراہمی اور فروغ کے بجائے بہیمانہ موت کا کھیل کس ستم ایجاد کی کارستانی ہے؟ بتائیے پلیز کون ہے وہ جس نے پر امن لیاری کو کراچی کا سب سے بڑا دشمن بنا کر رکھ دیا۔ ابھی لی کوان یو کو موت کی وادی میں اترے زیادہ دن نہیں گزرے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ کراچی کو فری پورٹ بنانے کے منصوبہ کو وہ مضحکہ خیز اور غیر ضروری قرار دیتے تھے، مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ مستقبل کے فری پورٹ کے ماسٹر پلان میں لیاری قربانی کا سب پہلا بکرا تجویز کیا گیا تھا۔ اس کے ملبہ پر فری پورٹ کا ڈھانچہ کھرا ہونا تھا۔ دردناک کہانی یہ ہے کہ لیاری کو پیپلز پارٹی کے عہد حکومت میں اتنا فنڈ نہیں ملا جتنی ذوالفقار مرزا نے امن کمیٹی کے ہاتھوں موت بانٹی۔ ایسی اذیت ناک اموات اور افتادگان کاک کی ایسی بے منزل زندگی۔
ایک معاصر انگریزی اخبار میں فیصل صدیقی صاحب نے بہت فکر انگیز اور سنجیدہ بات لکھی ہے، اور ابتدا جارج برنارڈ شا کے ایک قول سے کی ہے کہ قتل سے ہمیشہ قتل جنم لیتا رہے گا تاوقتیکہ دیوتا خونریزی سے اکتا کر ایسی نسل نہ پیدا کر لیں جو عقل و شعور کی دولت سے مالا مال ہو۔ مضمون نگار نے نئے موت آفریں کلچر کے حوالے سے کہا، استدلال کیا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں شاذ و نادر ہی کسی مسئلہ پر اتفاق رائے ہوتا ہو، مگر محسوس ہوتا ہے کہ اس امر پر اتفاق رائے ہوتا نظر آیا ہے کہ مختلف ریاستی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے نسخہ کیمیا موت ہے۔
چاہے یہ سزائے موت کے بے جا استعمال کے ریاستی اختیار کے مظہر کے طور پر ہو، یا جرائم و دہشت گردی کے مسئلہ کے خاتمہ کے لیے ماورائے عدالت مقابلے میں ہونے والی ہلاکتیں ہوں، یا قبائلی علاقوں کے ''وار آن ٹیرر'' میں ملٹرائزیشن ہو جسے ایک وجودی ریاستی ضرورت کے طور پر پیش کیا جارہا ہو، یا ہجوم کی طرف سے قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے موقع پر کیا جانے والا دردناک انصاف ہو، یا مذہبی جماعتوں کے تشدد آمیز واقعات، یا والدین کا معاشی و سماجی محرومیوں کے باعث اپنے بچوں کو قتل کرنا ہو، اس سارے درد انگیز منظر نامہ میں موت کا جشن منانے کا طریقہ یکساں ہے۔
آخر میں ایک التماس: یہ خبر گرم ہے کہ زرداری صاحب لیاری تشریف لا رہے ہیںان سے نیلسن منڈیلا کے حوالے سے ایک درخواست ہے کہ وہ لیاری کے لیے ایک ''مفاہمتی کمیشن'' تشکیل دیں ۔ مارا ماری ختم ہونی چاہیے، روزگار دیں۔ ایک این آر او پہلے مل چکا ہے اب دوسرا دے دیں۔