گورکھ سے واپسی

وہ سفر جو ہم نے ہنستے کھیلتے گورکھ سے شروع کیا لاڑکانہ میں افسوسناک احساسات کے ساتھ ختم ہوا،

گورکھ سے واپسی پر دوسرے دن ہم سندھ کے ایک قدیم شہر ''میہڑ'' پہنچے۔ یہ شہر ادب کے حوالے سے اور عوام کی دو پسندیدہ چیزوں ''مہندی'' اور ''ماوے'' کے لیے مشہور ہے۔ ماوا سندھ میں ''مٹیاری'' کا بھی مشہور ہے۔ وجوہات الگ الگ ہیں اور ہوسکتی ہیں۔ مہندی بہرحال میہڑ کی ہی مشہور ہے۔ حیرت انگیز بات یہ معلوم ہوئی ہے کہ ''میہڑ کی مہندی'' جو مشہور ہے دراصل میہڑ میں کہیں اور سے لائی گئی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بہت سے نووارد میہڑ میں بھی آباد ہوئے۔

ان آنے والوں میں سے ایک صاحب واپس ہندوستان ملنے گئے تو وہاں فریدآباد سے مہندی کے بیج لائے اور انھوں نے یہاں اپنی زمین میں اس بیج کی کاشت کی اور قدرت نے مہربان ہوکر اس بیج کو شہرتِ دوام بخشی اور آج دنیا بھر میں میہڑ کی مہندی کی دھوم ہے۔ ہمارے سندھ کے تاریخی شہر کے بازار بھی تاریخی ہیں، کئی چوبارے جن پر قدیم زمانے کے نقش و نگار اور تاریخ کنندہ تھی، بازاروں میں جگہ جگہ مہندی دکانوں پر تھی۔افسوس یہ ہوا کہ یہاں لوگوں نے ملاوٹ والی مہندی اور ماوا بھی ایجاد کررکھا ہے، اور جگہوں کی طرح کہ یہ ہماری قومی عادت ہوگئی ہے۔

نئے راستے تلاش کرنے اور ایمانداری سے مقام حاصل کرنے کے بجائے لوگ شارٹ کٹ اختیار کرنے لگے ہیں جس سے سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے۔ مہندی پہلے میہڑ شہر کے چاروں طرف موجود تھی اور یوں سمجھیے کہ جیسے گھر گھر مہندی کی باڑھیں لگی تھیں۔ مگر اب اندرون دیہات سے نقل مکانی نے لوگوں کو شہروں کے اردگرد آباد ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ لہٰذا شہر کے آس پاس کی زمینیں سونے کے بھاؤ ہوگئی ہیں اور آبادی بڑھ گئی ہے، آس پاس کی مہندی اب دور دراز کے کھیتوں تک محدود ہوگئی ہے۔میہڑ ایک ایسا ہی شہر ہے جس کے ریشم بازار، شاہی بازار، سبزی منڈی اور تنگ بازار جو ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں، آپ کے اپنے بازار اور گھر لگتے ہیں۔

ہماری اگلی منزل ''وگن'' تھی۔ یہ ہم بتادیں کہ میہڑ سے پہلے رات ہم نے دادو میں گزاری تھی۔ وگن میں بشیر صاحب کے دوست احمد برڑو ہمیں لینے کے لیے شہر سے باہر بائی پاس پر آئے ہوئے تھے۔ دوسروں کے مشورے سے یہ فیصلہ کیا کہ دوپہر ہم احمد برڑو صاحب کے پاس رہیںگے اور رات قمبر میں عبدالوہاب مغیری کے پاس وگن میں۔ احمد برڑو کا گاؤں وہی گاؤں تھا جو اندرون سندھ کا گاؤں ہوسکتا ہے، ہر چیز سے قدامت کا احساس، حالانکہ مہمان خانے میں احمد نے آرام کا بے حد انتظام بھی کر رکھا ہے۔

تھوڑی دیر میں ''ددڑی'' DADRI اور بیر ہمارے سامنے تھے، یہ گاؤں کی سوغات ہیں ''ددڑی'' ایک چھوٹی پھلی ہے جس میں ننھے ننھے بیج ہوتے ہیں۔ اسے ابالاجاتا ہے پھر دانتوں سے بیج گویا نچوڑ لیے جاتے ہیں، بہت مزے دار اور بیر کے ذائقے سے تو سب واقف ہیں۔ دیر تک ددڑی اور بیر کا سلسلہ چلتا رہا، اس کے بعد سندھ کی مشہور ڈش ''پکوڑے'' لائے گئے، پکوڑے ویسے تو پورے پاکستان میں ہی کھائے جاتے ہیں مگر سندھ میں پکوڑا ڈبل روٹی بھی ایک سوغات عام ہے۔


یہاں سے گاؤں لالو رونک کی طرف روانہ ہوئے۔ عبدالوہاب نے بتایاکہ حالات ٹھیک نہیں ہیں اور رات گئے لوگ سفر نہیں کرتے۔ گاؤں سے باہر یا گاؤں آنے کے لیے ڈاکوؤں کا خطرہ رہتاہے۔ شادی والا گھر چند روز پہلے لٹا تھا۔ عین شادی کے دوران ڈاکوؤں نے آکر باراتیوں کو لوٹا، شادی کے جہیز کا سامان گاڑی میں رکھ کر آرام سے چلے گئے، پولیس اس علاقے میں زیادہ تر ڈاکوؤں کی ہم نوا ہے، جب کہ ملحقہ علاقے میں جہاں میر نادر مگسی کا علاقہ ہے اس قسم کی حرکت کا تصور نہیں کیاجاسکتا، وہاں جرائم کا پرندہ پر نہیں مارسکتا۔ لائٹ نہیں تھی سارا علاقہ آہستہ آہستہ اندھیرے میں ڈوب رہا تھا۔ ہم تقریباً اندھیرے میں ہی عبدالوہاب مغیری کے کزن کی اوطاق میں پہنچے یہاں روشنی کے لیے وہی انتظامات تھے جو ناکافی انتظامات ہمارے پاس ہوتے ہیں۔

خاصی دیر ہوگئی تب لائٹ آئی، شاید رات کے دس بجے تھے، کھانا لگایاگیا، عارف صاحب واش روم گئے اور نہ جانے کیسے سلپ ہوگئے، بائیں بازو میں شدید چوٹ آئی جہاں تھوڑی دیر پہلے قہقہے گونج رہے تھے وہاں خاموش چھاگئی۔ عبدالوہاب مغیری فوراً ڈاکٹر کو لائے۔ وہاں پنجاب کے ایک ڈاکٹر ہیں جو ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ وہاں کے ڈومیسائل پر دوسرے ڈاکٹرز بڑے شہروں میں عیش کررہے ہیں۔ انھوں نے کچھ دوا دی اور نیند کا انجکشن لگادیا شاید، کیوں کہ عارف فوراً سوگئے۔ عبدالوہاب مغیری اور ان کے بزرگ کزن بہت ملول تھے کہ مہمان کو چوٹ لگ گئی مگر حادثے کے لیے نہ وقت کا تعین ہوتا ہے نہ مقام کا، یہ ہم ان سے وہاں بھی کہتے رہے اور اب بھی کہتے ہیں۔

لالو رونک سے فیصلہ کیا عارف صاحب نے کہ لاڑکانہ چلیںگے وہاں ریڈیو اسٹیشن چلیںگے اور اسپتال بھی، حالانکہ میں چاہتاتھا کہ وہ حیدرآباد آجائیں مگر ان کو موہن جو دڑو دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ لاڑکانہ چانڈکا میڈیکل کالج کی صورت حال دیکھ کر بہت افسوس ہوا، نا اہلوں کی بھرمار، ایکسرے میں گھنٹوں لگ گئے اور تیسرا ایکسرے ان کے خیال کے مطابق درست آیا جو میرے خیال کے مطابق درست نہیں تھا۔ اس کے بعد پلاسٹر چڑھانے کے لیے اس شعبے میں گئے وہاں کا بھی برا حال تھا زمین پر پاؤڈر بکھرا ہوا، بینچ گندی، جو صاحب یہ کام کررہے تھے وہ بھی مجھے انسانوں سے زیادہ جانوروں کی مرہم پٹی کرنے والے لگے۔

اقربا پروری اور سیاست نے اداروں کو تباہ کردیا ہے، یہی حال چانڈکا میڈیکل کا تھا، کالج تو بن گیا Professionalism کہاں گیا؟ جو پٹی انھوں نے چڑھائی بہت بھدی اور عیب دار، اس نے سارے راستے تکلیف دی اور حیدرآباد CMH میں معلوم ہوا کہ انھوں نے زور آزمائی کرکے ہاتھ خراب کردیا۔ کراچی جانا پڑا جہاں دوبارہ پٹی ہوئی اور پندرہ روز تک ان پر ہلنے جلنے پر پابندی ہے پھر پتہ چلے گا ہاتھ کا کیا انجام ہوا۔

وہ سفر جو ہم نے ہنستے کھیلتے گورکھ سے شروع کیا لاڑکانہ میں افسوسناک احساسات کے ساتھ ختم ہوا، موہن جو دڑو میں بھی دل نہ لگا، اجاڑ تو وہ پہلے ہی ہے، ان حالات نے اسے اور اجاڑ دکھایا اور ہم شام کے قریب وہاں سے رخصت ہوئے جو حاصل سفر بات رہی وہ یہ کہ ہمارے دیہاتوں میں اخلاص اور محبت کا ایک سمندر ہے جو لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے، جس میں عبدالرزاق جمالی، عبدالنور شاہانی، احمد برڑو، عبدالوہاب مغیری جیسے انسان دوست موجود ہیں، تو وہیں لاڑکانہ ہے جو اپنے مزاج میں بالکل الگ ہے اور وہاں ہم جیسے پڑھے لکھے سمجھ دار لوگوں کے ساتھ یہ سلوک ہوا ہے تو سندھ کے وہ غریب عوام جو اسی چانڈکا میڈیکل کالج پہنچتے ہیں بحالت مجبوری، ان بے چاروں کا کیاحال ہوتا ہوگا۔ کیوں کہ بیشتر جگہوں پر تو بڑے ڈاکٹر موجود ہی نہیں ہیں۔ نچلا طبقہ کام کررہا ہے اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو فیصلہ اور کام سرجن کا ہے وہ اگر کمپاؤنڈر یا نچلا عملہ کرے گا تو کیسا ہوگا۔

خدا کرے کوئی صاحب دل ایسا ہو، کبھی اس کا دور ہو کہ یہ ساری خرابیاں ختم ہوجائیں۔ احتساب کا خوف پیدا ہو تب کہیں جاکر ان اداروں کا احوال درست ہوگا۔ ہم جیسے مسافر حادثوں کی صورت میں درست Advice اور علاج حاصل کرسکیںگے، ہم نے بھی بازار سے سب کچھ خریدا علاج کے لیے، ہر غریب خریدتا ہے اور شاید نہ بھی خرید سکتا ہو تو اس کا علاج کیسے ہوگا۔ اسپتال کا میڈیکل فنڈ کہاں ہے وہ کن لوگوں پر خرچ ہوتا ہے، VIPs پر، شاید کیوں کہ یہ اسپتال ان کے لیے ہی تو قائم کیا گیا ہے غریبوںکے لیے خیراتی شفاخانے ہیں نا پورے ملک میں۔
Load Next Story