الفاظ کا اثر

ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا تھا، ہمارے مسلسل منفی الفاظ نے بالآخر ہمارا معاشرہ ایک عمومی منفی کیفیت کا شکارکردیا تھا۔

naeemshah802@gmail.com

میری اپنے دوست سے کئی سال بعد اچانک ملاقات ہوگئی۔ اس نے مجھے دیکھ کر گرمجوشی سے کہا ''یار تم تو بالکل ویسے ہی ہو، ذرا نہیں بدلے، وہی چہرہ، فٹ باڈی، تم پر تو جیسے گزرے وقت نے کوئی اثر ہی نہیں چھوڑا؟'' اس کے ان چند جملوں نے جیسے میرے اندر توانائی سی بھردی۔ میں جو گرم موسم میں وہاں پریشان گھوم رہا تھا، ایک دم خود کو تندرست و توانا اور فٹ محسوس کرنے لگا۔ اتفاق سے چند روز پہلے ہی میری ایک اور عزیز سے بھی کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی تھی مگر اس نے میرا استقبال کچھ ان الفاظ سے کیا تھا ''کیا بات ہے یار، تم تو پہچانے نہیں جارہے، کیا بیمار ہو؟ کوئی پریشانی ہے؟'' اس کے ان منفی جملوں نے میرے ذہن کو بوجھل کردیا، میں واقعی خود کو کچھ پریشان اور بیمار سا محسوس کرنے لگا۔

میں پریشان سا سوچنے لگا کہ یہ کیا ماجرا تھا۔ دوسرے کے ہمارے بارے میں کہے الفاظ کس طرح ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ کس طرح ہماری کیفیات کا تعین اور سوچ مثبت یا منفی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں؟ ہماری ذہنی، جسمانی و جذباتی حالت کا دارومدار بہت حد تک دوسروں کے ہمارے بارے میں کہے الفاظ پر ہی ہوتا ہے۔ لفظوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔اس روز مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ ہمارا معاشرہ دراصل ہمارے ہی ایک دوسرے کے بارے میں کہے منفی الفاظ کے نتیجے میں اس مقام تک پہنچا تھا۔ ہم، جو ہمیشہ منفی الفاظ ہی استعمال کرتے ہیں۔ دوستوں، اداروں، لیڈروں، سب کے لیے۔ کبھی کسی کے شکر گزار نہیں ہوتے، کسی کے اچھے کام کی بھی تعریف نہیں کرتے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق کسی کو اگر مسلسل اچھے یا برے الفاظ سے پکارا جائے تو وہ بالآخر ویسا ہی بن جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا تھا، ہمارے مسلسل منفی الفاظ نے بالآخر ہمارا معاشرہ ایک عمومی منفی کیفیت کا شکارکردیا تھا۔ اسی لیے اسلام میں کسی کو برے ناموں سے پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ مگر ہمارے یہاں تو... لوگ، میڈیا، اخبارات کھلے عام دوسروں کا تمسخر اڑاتے ہیں، اس کی پرواہ کیے بغیر کہ دوسروں پر ان الفاظ کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ جب کہ مہذب معاشروں میں ایسا کرنے پر سزا دی جاتی ہے۔ ہمارا ملک ذہین، تخلیقی، محنتی لوگوں سے بھرا پڑا ہے لیکن ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، حکومتی سطح پر، نہ ہی ان کے دوستوں، احباب کی جانب سے۔ ہم کسی کے غیر معمولی کام انجام دینے پر بھی اس کی تعریف کرنے کے بجائے چپ سادھ لیتے ہیں، اسے نظر انداز کرکے بددل کردیتے ہیں۔

چنانچہ مثبت الفاظ کا پانی نہ ملنے کے سبب وہ بیش قیمت پودے تناور درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں، جن کی گھنی چھاؤں میں کل ہمارے ہی بچوں نے بیٹھنا تھا۔ ہمیں مثبت، مہربان لفظ استعمال کرنے کی عادت ڈالنا ہوگی، ورنہ ہمارے منفی لفظوں کا سیلاب ہمارے معاشرے اور رشتوں میں سے بچی کچھی محبت و خلوص بھی بہا لے جائے گا۔ ہم عجیب لوگ ہیں، کسی کے کارنامے پر تو ایک لفظ تعریف کا نہیں بولتے مگر ذرا سی کوتاہی پر تنقید کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ کسی کی اچھائی میں بھی برائی کا پہلو نکال کر اس کے منہ پہ دے مارتے ہیں۔ مثلاً ہمارے یہاں جہاں پٹرول کبھی چند پیسوں سے زیادہ کم نہیں ہوا، وہاں موجودہ حکومت نے اسے 35 روپے فی لیٹر تک کم کردیا، مگر ہم حکومت کی اس مہربانی پر بھی اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ اس مثبت قدم پر بھی اسے ان تنقیدی الفاظ سے نوازتے ہیں کہ یہ عوام دشمن حکومت ہے جو غریبوں کا خون چوس رہی ہے، پٹرول 60 کے بجائے صرف 35 روپے سستا کیا گیا؟

حضورؐ کے پاس چند صحابہ بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک سلام کرکے رخصت ہوئے تو حضورؐ کے ساتھ بیٹھے دوسرے صحابی نے رخصت ہونے والے کے بارے میں کہا کہ ''مجھے یہ شخص بہت پسند ہے'' حضورؐ نے فرمایا ''تم نے انھیں یہ بات بتائی؟'' صحابی نے نہ میں سر ہلایا ، تو آپؐ نے تاکید فرمائی کہ ''ابھی جاکر انھیں بتائیں۔'' آپؐ نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ جب وہ صحابی ان سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کریں گے تو دونوں میں خلوص و دوستی کا رشتہ قائم ہوگا، جو بالآخر معاشرے میں عمومی بھائی چارے کی فضا میں اضافے کا سبب بنے گا۔


شکر اور ناشکری کے الفاظ کس طرح نہ صرف انسان بلکہ دیگر موجودات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اس کا آنکھیں کھولنے والا تجربہ ایک جاپانی سائنس دان Dr. Masaru Emoto نے پانی پر کیا جس کا احوال ان کی کتاب The hidden message in water میں بیان کیا گیا ہے، جس کا اردو ترجمہ محمد علی سید نے اپنی کتاب ''پانی کے عجائبات'' میں بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے، جسے پڑھ کر ہمیں شکر اور ناشکری کے الفاظ کے حیران کن اثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس جاپانی سائنس دان نے پانی کو اپنی لیبارٹری میں برف کے ذرات یعنی کرسٹلزکی شکل میں جمانے کا کام شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ڈسٹلڈ واٹر، نلکے کے پانی اور دریا اور جھیل کے پانیوں کے نمونے لیے اور انھیں برف کے ذرات یعنی Crystals کی شکل میں جمایا۔

اس تجربے سے اسے معلوم ہوا کہ پانی، اگر بالکل خالص ہو تو اس کے کرسٹل بہت خوبصورت بنتے ہیں لیکن اگر خالص نہ ہو تو کرسٹل سرے سے بنتے ہی نہیں یا بہت بدشکل بنتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ ڈسٹلڈ واٹر سے (جو انجکشن میں استعمال ہوتا ہے) خوبصورت کرسٹل بنے، صاف پانی والی جھیل کے پانی سے بھی کرسٹل بنے لیکن نلکے کے پانی سے کرسٹل بالکل ہی نہیں بنے کیوں کہ اس میں کلورین اور دوسرے جراثیم کش اجزا شامل تھے۔اس کے بعد اس نے ایک اور تجربہ کیا جس کے نتائج حیران کردینے والے تھے۔ اس نے شیشے کی سفید بوتلوں میں مختلف اقسام کے پانیوں کے نمونے جمع کیے۔

ڈسٹلڈ واٹر والی بوتل پر اس نے لکھا "You Fool" اور نلکے کے پانی والی بوتل پر لکھا "Thank You" یعنی خالص پانی کو حقارت آمیز جملے سے مخاطب کیا اور نلکے کے پانی کو شکر گزاری کے الفاظ سے اور ان دو بوتلوں کو لیبارٹری میں مختلف مقامات پر رکھ دیا۔ لیبارٹری کے تمام ملازمین سے کہا گیا جب اس بوتل کے پاس سے گزرو تو You Fool والی بوتل کے پانی کو دیکھ کر کہو "You Fool" اور "Thank You" والی بوتل کے پاس ٹھہرکر سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک جاؤ اور بڑی شکر گزاری کے ساتھ اس سے کہو "Thank You"۔

یہ عمل 25 دن جاری رہا۔ 25 ویں دن دونوں بوتلوں کے پانیوں کو برف بنانے کے عمل سے گزارا گیا۔ نتائج حیران کن تھے۔ ڈسٹلڈ واٹر سے (جو خالص پانی تھا اور اس سے پہلے اسی پانی سے بہت خوبصورت کرسٹل بنے تھے) کرسٹل تو بن گئے لیکن انتہائی بدشکل۔ ڈاکٹر اموٹو کے کہنے کے مطابق یہ کرسٹل اس پانی کے کرسٹل سے ملتے جلتے تھے جن پر ایک مرتبہ انھوں نے "SATAN" یعنی شیطان لکھ کر رکھ دیا تھا۔

نلکے والا پانی جس سے پہلے کرسٹل نہیں بنے تھے، اس مرتبہ اس پر ''تھینک یو'' لکھا ہوا تھا اور کئی لوگ 25 دن تک اس پانی کو دیکھ کر ''تھینک یو'' کہتے رہے تھے، اس پانی سے بہترین اور خوب صورت کرسٹل بن گئے تھے۔اس کا مطلب یہ کہ نعمتوں کو ٹھکرانے، انھیں حقیر سمجھنے اور ان کا مضحکہ اڑانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ خالص پانی آلودہ پانی میں تبدیل ہوگیا۔ نعمتوں کا ادراک کرنے اور انھیںدیکھ کر شکریہ ادا کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آلودہ پانی خالص آب حیات میں تبدیل ہوگیا۔ہمیں ترقی یافتہ، مہذب قوم بننے کے لیے دوسروں کی تعریف اور شکریہ ادا کرنا سیکھنا ہوگا۔ ان کی خامیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بجائے ان کی اچھائیاں تلاش کرکے انھیں کھلے دل سے باآواز بلند سراہنا ہوگا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ صرف اسی وقت ہم ایک اخلاقی و ایمانی طور پر پھلتی پھولتی قوم بن پائیں گے۔
Load Next Story