شاہ رخ جتوئی اور شاہ زیب کے ورثا کا صلح نامہ عدالت میں پیش

ماتحت عدالت سے صلح اور معافی نامے کی تصدیق کے بعد صلح اور معافی نامے کا بھی جائزہ لیاجائے گا، سندھ ہائیکورٹ

ماتحت عدالت سے صلح اور معافی نامے کی تصدیق کے بعد صلح اور معافی نامے کا بھی جائزہ لیاجائے گا، سندھ ہائیکورٹ۔ فوٹو: فائل

شہر کے پوش علاقے میں خاندانی برتری کے نشے میں قتل کرنے والے مجرموں کے سر پر سزائے موت کی لٹکتی تلوار اب ٹلتی نظر آتی ہے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ہائیکورٹ میں پیش کردہ اپنی رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی اور متوفی شاہ زیب کے ورثا کے درمیان صلح نامہ عدالت میں پیش کیا گیا،سمجھوتہ درست اورکسی دباؤکے بغیر ہے، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت 3 نے مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی اورنواب سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ سجاد تالپور اورغلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی ،مجرموں نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تاہم اگرخصوصی عدالت کی رپورٹ کی روشنی میں سزائے موت کے فیصلے میں کوئی تبدیلی عمل میں آتی ہے تو یہ ملک بھر میں دہشت گردی کے مقدمات میں پھانسی کے منتظر مجرموں کے ساتھی ایک بار پھر اپنے ساتھیوں کی جانیں بچانے کے لیے ورثا پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں کرسکتے ہیں۔

ملزمان کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں دائر اپیل میں رشید اے رضوی اور دیگر وکلا نے موقف اختیار کیاتھا کہ ملزمان کے خلاف انسداددہشت گردی ایکٹ اورتعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا،وکلا نے موقف اختیار کیا کہ مقتول شاہ زیب کے ورثا نے ملزمان کو معاف کردیا اوراس حوالے سے متعلقہ دستاویزات عدالت میں پیش کی جاچکی ہیں،انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اسی طرح کے مقدمہ میں صلح نامہ منظور کرچکی ہے اور جس کے نتیجے میں سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا تھا،عدالت نے صلح و معافی نامہ کی تصدیق کیلیے معاملہ ماتحت عدالت کو بھیجتے ہوئے قراردیا کہ ماتحت عدالت کی رپورٹ آنے کے بعد فاضل عدالت متاثرہ فریق کی جانب سے داخل کیا گیا صلح و معافی نامہ کا بھی جائزہ لے گی۔


سندھ ہائی کورٹ کی اس ہدایت کی روشنی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے سربراہ سلیم رضا بلوچ نے سمجھوتے کی تصدیق کے لیے مقتول شاہ زیب کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب خان ،والدہ امبرین اور 2بہنوں ماہا اور پریشے وقار کے حلفیہ بیانات قلمبند کیے، دونوں بہنوں کے بیانات برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کی عمارت میں قلم بند کیے گئے، چاروں افراد نے موقف اختیار کیا کہ وہ مقتول شاہ زیب کے قانونی وارث ہیں ،انکے علاوہ کوئی اور قانونی وارث نہیں ہے، انھوں نے اپنے بیانات میں مزید کہا کہ انھوں نے اللہ کی رضا کے لیے مجرموں کو معاف کردیا ہے اس لیے عدالت بھی انھیں معاف کردے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ اس کے علاوہ قانونی ورثا کی تلاش کے لیے اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کرائے گئے تھے لیکن مذکورہ افراد کے علاوہ کوئی شخص شاہ زیب کے وارث کے طور پر سامنے نہیں آیا۔

واضح رہے کہ ڈیفنس کے علاقے میں بااثر بزنس مین سکندر جتوئی کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے معمولی تنازعہ پر شاہزیب کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا، اس صورتحال پر سول سوسائٹی نے شدید احتجاج کیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس مقدمے کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں سماعت کی ہدایت کی تھی۔

مقدمے کے دوران 4 بار سرکاری وکلا تبدیل ہوئے

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی اورسراج تالپور کو سزائے موت جبکہ دیگر دو شریک ملزمان سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی،عدالت نے چاروں مجرموں کو مجموعی طور پر 25لاکھ روپے جرمانے کی ادائیگی کا بھی حکم دیاتھا جس میں سے نصف رقم مقتول کے ورثا کو ادا کرنے کی ہدایت کی گئی تھی ،عدالت نے شاہ رخ جتوئی کو اسلحہ ایکٹ کے تحت بھی 3سال قیدجبکہ مجرم غلام مرتضیٰ لاشاری کو مقتول کی بہن کو چھیڑنے کے جرم میں مزید ایک سال قید کی سزا کا حکم سنایا،مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ کے23 جبکہ مجرموں کے دفاع میں 7گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے،اس دوران 4 بار سرکاری وکلابھی تبدیل ہوئے۔
Load Next Story