’’میں مسلمان ہوں کیا آپ مجھ پر بھروسہ کریں گے‘‘
اصل مسئلہ ملکوں کی حکومتوں کا ہوتا ہے جو اپنے مفادات کی خاطرعوام کو استعمال کرتے ہیں۔
پیر مہر علی شاہ صاحب ایک دن اپنے کچھ مریدوں کے ہمراہ تشریف فرما تھے کہ ایک بوڑھی ہندو عورت کمرے میں داخل ہوئی جس کے ہاتھ میں گرما گرم پکوڑوں سے بھری ہوئی ایک پلیٹ تھی اور اس نے وہ پلیٹ آپ کی خدمت میں پیش کی اور کہا کہ آپ پکوڑے تناول فرمائیں، پیر صاحب نے بِلا جھجھک پکوڑے کھانے شروع کردیئے اور سب پکوڑے کھا کر اس کا شکریہ ادا کیا اور وہ عورت خوشی خوشی واپس چلی گئی۔
مریدین نے پریشانی کے عالم میں پیر صاحب سے پوچھا کہ حضور! آپ کا اور ہم سب لوگوں کا روزہ تھا تو آپ نے پکوڑے کیوں کھالیے؟ پیر صاحب نے کہا کہ وہ بوڑھی عورت بڑے مان سے وہ پکوڑے لائی تھی اور اگر میں اسے منع کردیتا تو اس کا دل ٹوٹ جاتا، روزہ توڑ دینے کی تو قضاء اور کفارہ ہے لیکن ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنے کا کوئی طریقہ نہیں۔
کوئی مذہب انسان کو نفرت کی ترغیب نہیں دلاتا البتہ بعض ''ترغیب دہندے'' ضرور ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو اس کی اصل یعنی انسانیت بھُلا کر اُسے مذہب، رنگ، نسل اور لسانیت کی بنیاد پر آپس میں لڑوا دیتے ہیں۔ جمہوریت کی باری آتی ہے تو فوراً لوگوں کو''الہام'' ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ جمہوریت بذاتِ خود بُری نہیں ہے، ہاں البتہ اس کے ماننے والے گڑ بڑ ضرور کرتے ہیں اسلئے جمہوریت بہت اچھی ہے، قصور تو اس پر عمل درآمد کروانے والوں کا ہے۔
تو جناب! یہی فارمولا مذہب پربھی لاگو ہوتا ہے کہ مذہب بذاتِ خود کوئی غلط تعلیمات نہیں دیتا، ہاں البتہ مذہب کو ماننے والے کچھ غلط ضرور کرسکتے ہیں اور اس کا مطلب بھی بالکل جمہوریت کی طرح یہی نکلتا ہے کہ مذہب خود کوئی بُری چیز نہیں۔
چند دنوں پہلے بھارتی فلم اسٹار نصیر الدین شاہ نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں لوگوں کی ''برین واشنگ'' کی جاتی ہے کہ پاکستان ان کا دشمن ہے۔ اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی یا ہندو بذاتِ خود مسلمانوں یا پاکستانیوں کو دہشت گرد یا دشمن تصور نہیں کرتے بلکہ ان کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ہاں ہاں! پاکستان تمہارا دشمن ہے۔
بالکل اسی طرح اگر امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ کہیں بُرا سلوک ہوتا ہے تویہ بھی امریکیوں کو کسی نہ کسی کی طرف سے ''باور'' کرائے جانے کی وجہ سے ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمان کسی عیسائی کو جلا دیں یا عیسائی کسی مسلمان کو تو اس کے پیچھے بھی کسی نہ کسی کی جانب سے ''باور'' کرائے جانے کے شواہد ضرور سامنے آتے ہیں۔
لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جس میں تمام مکاتبِ فکر کے لوگ شامل ہیں، کبھی بھی کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرتے بلکہ بلا تفریق اس کی مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قابلِ مذمت اقدام کسی ایک ذات یا چند لوگوں کی طرف سے سامنے آیا ہے نہ کہ پورے معاشرے یا اس خاص طبقے کی جانب سے۔
میری رائے کے مطابق اصل مسئلہ ملکوں کی بر سرِ اقتدار حکومتوں کا ہوتا ہے جو اپنے مفادات اور لڑائیوں کی خاطر عوام کو نفرت کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں، ورنہ ہر ملک کے عوام پُرامن، صلح جو اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔
اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ سویڈن کے دارلحکومت سٹاک ہوم میں ایک مسلمان جس کی باقاعدہ داڑھی بھی تھی وہ ایک مصروف شاہراہ پر آنکھوں پر پٹی باندھے گلے ملنے کے انداز میں دونوں ہاتھ کھول کر کھڑا ہوگیا اور اس نے ایک سائن بورڈ اپنے ساتھ رکھ لیا جس پر لکھا تھا ''میں مسلمان ہوں، اُس طرح کا نہیں جیسے دہشت گرد ہوتے ہیں، کیا آپ مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں؟ مجھے آپ پر بھروسہ ہے''۔
پورے دن میں 142 افراد نے آکر اُسے کہا کہ ہاں ہم بھی آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس سے گلے بھی ملے، جس میں ہرجنس، رنگ، مذہب، قومیت اور لسانیت کے لوگ شامل تھے۔ وہاں کسی نے اسے دہشت گرد قرار نہیں دیا بلکہ گلے لگایا، یہ ہوتی ہے انسانیت جو کہ ہر چیز سے بالاتر ہوتی ہے۔
یہ دلائل میری رائے کے وزن میں اضافہ کرتے ہیں کہ اصل مسئلہ ملکوں کی حکومتوں کا ہوتا ہے جو اپنے مفادات کی خاطرعوام کو استعمال کرتے ہیں۔ بقول اقبالؔ ؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو!
[poll id="322"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مریدین نے پریشانی کے عالم میں پیر صاحب سے پوچھا کہ حضور! آپ کا اور ہم سب لوگوں کا روزہ تھا تو آپ نے پکوڑے کیوں کھالیے؟ پیر صاحب نے کہا کہ وہ بوڑھی عورت بڑے مان سے وہ پکوڑے لائی تھی اور اگر میں اسے منع کردیتا تو اس کا دل ٹوٹ جاتا، روزہ توڑ دینے کی تو قضاء اور کفارہ ہے لیکن ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنے کا کوئی طریقہ نہیں۔
کوئی مذہب انسان کو نفرت کی ترغیب نہیں دلاتا البتہ بعض ''ترغیب دہندے'' ضرور ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو اس کی اصل یعنی انسانیت بھُلا کر اُسے مذہب، رنگ، نسل اور لسانیت کی بنیاد پر آپس میں لڑوا دیتے ہیں۔ جمہوریت کی باری آتی ہے تو فوراً لوگوں کو''الہام'' ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ جمہوریت بذاتِ خود بُری نہیں ہے، ہاں البتہ اس کے ماننے والے گڑ بڑ ضرور کرتے ہیں اسلئے جمہوریت بہت اچھی ہے، قصور تو اس پر عمل درآمد کروانے والوں کا ہے۔
تو جناب! یہی فارمولا مذہب پربھی لاگو ہوتا ہے کہ مذہب بذاتِ خود کوئی غلط تعلیمات نہیں دیتا، ہاں البتہ مذہب کو ماننے والے کچھ غلط ضرور کرسکتے ہیں اور اس کا مطلب بھی بالکل جمہوریت کی طرح یہی نکلتا ہے کہ مذہب خود کوئی بُری چیز نہیں۔
چند دنوں پہلے بھارتی فلم اسٹار نصیر الدین شاہ نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں لوگوں کی ''برین واشنگ'' کی جاتی ہے کہ پاکستان ان کا دشمن ہے۔ اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی یا ہندو بذاتِ خود مسلمانوں یا پاکستانیوں کو دہشت گرد یا دشمن تصور نہیں کرتے بلکہ ان کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ہاں ہاں! پاکستان تمہارا دشمن ہے۔
بالکل اسی طرح اگر امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ کہیں بُرا سلوک ہوتا ہے تویہ بھی امریکیوں کو کسی نہ کسی کی طرف سے ''باور'' کرائے جانے کی وجہ سے ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمان کسی عیسائی کو جلا دیں یا عیسائی کسی مسلمان کو تو اس کے پیچھے بھی کسی نہ کسی کی جانب سے ''باور'' کرائے جانے کے شواہد ضرور سامنے آتے ہیں۔
لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جس میں تمام مکاتبِ فکر کے لوگ شامل ہیں، کبھی بھی کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرتے بلکہ بلا تفریق اس کی مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قابلِ مذمت اقدام کسی ایک ذات یا چند لوگوں کی طرف سے سامنے آیا ہے نہ کہ پورے معاشرے یا اس خاص طبقے کی جانب سے۔
میری رائے کے مطابق اصل مسئلہ ملکوں کی بر سرِ اقتدار حکومتوں کا ہوتا ہے جو اپنے مفادات اور لڑائیوں کی خاطر عوام کو نفرت کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں، ورنہ ہر ملک کے عوام پُرامن، صلح جو اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔
اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ سویڈن کے دارلحکومت سٹاک ہوم میں ایک مسلمان جس کی باقاعدہ داڑھی بھی تھی وہ ایک مصروف شاہراہ پر آنکھوں پر پٹی باندھے گلے ملنے کے انداز میں دونوں ہاتھ کھول کر کھڑا ہوگیا اور اس نے ایک سائن بورڈ اپنے ساتھ رکھ لیا جس پر لکھا تھا ''میں مسلمان ہوں، اُس طرح کا نہیں جیسے دہشت گرد ہوتے ہیں، کیا آپ مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں؟ مجھے آپ پر بھروسہ ہے''۔
پورے دن میں 142 افراد نے آکر اُسے کہا کہ ہاں ہم بھی آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس سے گلے بھی ملے، جس میں ہرجنس، رنگ، مذہب، قومیت اور لسانیت کے لوگ شامل تھے۔ وہاں کسی نے اسے دہشت گرد قرار نہیں دیا بلکہ گلے لگایا، یہ ہوتی ہے انسانیت جو کہ ہر چیز سے بالاتر ہوتی ہے۔
یہ دلائل میری رائے کے وزن میں اضافہ کرتے ہیں کہ اصل مسئلہ ملکوں کی حکومتوں کا ہوتا ہے جو اپنے مفادات کی خاطرعوام کو استعمال کرتے ہیں۔ بقول اقبالؔ ؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو!
[poll id="322"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔