طاہرہ مظہر علینہ وہ دنیا نہ وہ لوگ
ٹھوڑی چاند، ماتھے تارا، من موہنی، مرگ نینی، ہم اپنی فارسی کا سہارا لیں تو اسے آہو چشم کہیں گے
KARACHI:
پنڈی کے قریب ایک قصبہ واہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اس قدر دل کش اور دل کشا علاقہ تھا کہ جب ایک مغل شہزادہ وہاں سے گزرا تو اس کے لبوں سے بے ساختہ ''واہ'' نکلا اور پھر یہی اس قصبے کا نام ہوا۔ 5 جنوری 1924ء کو اسی جنت نظیر علاقے میں متحدہ پنجاب کے ایک بڑے زمیندار، سیاست دان کے گھر بیٹی پیدا ہوئی۔
ٹھوڑی چاند، ماتھے تارا، من موہنی، مرگ نینی، ہم اپنی فارسی کا سہارا لیں تو اسے آہو چشم کہیں گے۔ اس کی حسین آنکھوں کی داد مشہور ترک شاعر ناظم حکمت نے ادیبوں کی ایک کانفرنس میں دی تو وہ مرگ نینی (ہرن جیسی آنکھوں والی) شرما گئی اور اس کے چہیتے شوہر کو بھی سرجھکاتے بنی۔
واہ میں پیدا ہونے والی اس لڑکی کو طاہرہ کا نام دیا گیا۔ باپ سکندر حیات خان متحدہ پنجاب کے وزیراعظم رہے۔ ہندوستان کی سیاست میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ ابوالکلام آزاد، پنڈت نہرو، محمد علی جناح اور تمام بڑے سیاستدانوں کا سر سکندر حیات کے گھر اور دفتر آنا جانا تھا۔ وہ یونینسٹ پارٹی کے روح رواں، بیٹی کو کانگریس اور اس کی سیاست پیاری۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی مداح، کوئین میری اسکول لاہور میں پڑھنے والی طاہرہ کا اصرار تھا کہ پنڈت نہرو کو کالج میں بلایا جائے تاکہ ہم انھیں سن سکیں۔
اسکول کی ہیڈ مسٹریس مس کاکس نے انکار کردیا کہ لڑکیوں کا اسکول ہے یہاں مرد نہیں آسکتے۔ طاہرہ نے اس جواز کو ماننے سے انکار کردیا۔ آخر مالی اور جھاڑو لگانے والے بھی تو اسکول میں ادھر سے ادھر پھرتے تھے۔ اسی بنیاد پر وزیراعظم پنجاب کی بیٹی نے اپنی بات پر اصرار کیا، دوسری طرف سے پھر انکار ہوا، یہاں تک کہ وہ اس حکم عدولی کے سبب ایک ٹرم کے لیے گھر بٹھادی گئی۔ یہ تھیں طاہرہ سکندر حیات جو یہ نہیں سمجھ رہی تھیں کہ ان کے باپ برٹش راج کے نمایندہ تھے، اس راج کو کانگریس سے اینٹ کتے کا بیر تھا۔
طاہرہ سکندر حیات اپنے گھر پر پنڈت جی سے کئی مرتبہ مل چکی تھیں۔ انھیں خط بھی لکھتی رہیں۔ ایک خط میں انھوں نے پنڈت جی سے پوچھا مجھے امتحان دینے کی کیا ضرورت ہے۔ جواب آیا کہ تعلیم اور امتحان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس زمانے کے کئی خط تین مورتی ہاؤس، دلی کے نہرو میوزیم میں موجود ہیں لیکن طاہرہ آپا کو اس بات کا ہمیشہ افسوس رہا کہ پنڈت جی کے خط ان کے پاس محفوظ نہ رہ سکے کیوں کہ وہ اپنے والد کے خوف سے انھیں پھاڑ دیتی تھیں۔
بغاوت اور انحراف ان کی سرشت میں تھا۔ جناح صاحب اس وقت ممدوٹ ولا میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ انھیں معلوم ہوا تو یہ سائیکل چلاتی ہوئی ان سے ملنے پہنچ گئیں۔ جاتے ہی اپنا تعارف کرایا تو جناح صاحب نے کہا میں تمہارے بارے میں سن چکا ہوں، تم میرے بجائے نہرو کو پسند کرتی ہو طاہرہ، اس وقت تک کمیونسٹ پارٹی کے سحر میں گرفتار ہوچکی تھیں اور اس کا سبب خاندان کا وہ نوجوان بنا تھا جو شعلہ بیان مقرر تھا اور ایک کمیونسٹ طالب علم رہنما کے طور پر لاہور میں آگ لگاتا پھرتا تھا۔
وہ رشتے کے اپنے چچا سر سکندر حیات کے خلاف تقریریں کرتا۔ ایک جلسہ عام میں اس نے یہ تک کہا کہ سر سکندر حیات انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہونے میں بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ یہ توہین آمیز جملہ طاہرہ کے بھائی نے سنا اور گھر آکر دوسروں کو سنایا۔ سر سکندر حیات جانتے تھے کہ مظہر علی کمیونسٹ ہے اور اس کے زیر اثر ان کی بیٹی بھی کمیونسٹ ہوچکی ہے۔
ایسے میں جب بیٹی اور بھتیجے نے شادی کے رشتے میں بندھنے کی خواہش ظاہر کی تو دوسری طرف سے صاف انکار ہوگیا۔ وہی پرانی دلیلیں، صاحبزادے کمانے کے قابل نہیں ہیں، شادی کے بعد بھلا نئی نویلی دلہن کی ذمے داری کیا اٹھائیں گے۔ یوں بھی کمیونسٹ داماد متحدہ پنجاب کے وزیراعظم کو کیسے گوارا ہوتا۔ اس لڑکے نے تو ان کی بیٹی کو بھی کوڑی کا تین کردیا تھا۔ وہ بھی کسانوں اور مزدوروں کی بات کرتی تھی۔ صرف بات ہی نہیں ان کے ساتھ کام بھی کرتی تھی۔
شادی کا اصرار جب بہت بڑھا تو اپنی طرف سے سرسکندر حیات نے ایک ایسی شرط لگا دی جو بیٹی اور ہونے والے داماد دونوں کے لیے ناقابل قبول تھی۔ یہ وہ دن تھے جب دوسری جنگ عظیم چھڑچکی تھی اور وفاداران سلطنت انگلشیہ ہر طرح راج کی خدمت پر کمربستہ تھے۔ باپ نے شرط رکھی کہ مظہر اگر اتحادی فوج میں کمیشن لے لیں تو انھیں طاہرہ سے ان کی شادی پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
مظہر علی خاں کے والد نواب مظفر علی خاں سرسکندر کی کابینہ میں وزیر تھے، وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ بیٹا کسی طرح کمیونسٹ پارٹی کے چنگل سے نکل جائے لیکن یہ شرط مظہر اور طاہرہ دونوں کے لیے ناقابل قبول تھی۔ ان ہی دنوں ہٹلر کی فوجیں سوویت یونین پر چڑھ دوڑیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اعلان کردیا کہ اس حملے کے بعد پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں پر لازم ہے کہ وہ اتحادیوں کا ساتھ دیں۔ یہ ایک انہونی تھی جس کے بارے میں چند دنوں پہلے کسی کو گمان بھی نہ تھا۔
پارٹی کے اس اعلان کے بعد مظہر علی خاں نے فوج میں کمیشن لیا۔ لیفٹیننٹ ہوئے اور سر سکندر حیات نے اس دلہا کا استقبال کیا جو فوجی وردی میں آیا تھا۔ یوں طاہرہ سکندر حیات، طاہرہ مظہر علی ہوئیں۔ مظہر اٹلی کے محاذ پر بھیج دیے گئے اور نئی نویلی دلہن جی جان سے کسانوں اور مزدوروں میں کام کرنے لگی۔ طاہرہ آپا نے بٹوارے کے بعد ترک وطن کر کے آنے والوں اور بطور خاص عورتوں میں کام کیا۔ انھوں نے 1948ء میں پہلی مرتبہ خواتین کا عالمی دن منایا۔ ڈیموکرٹیک ویمنز ایسوسی ایشن بنائی جس کی وہ جنرل سیکریٹری تھیں۔
مظہر علی خان نے صحافت کو اختیار کیا اور طاہرہ ہر قدم پر ان کے ساتھ رہیں، ان کا شعبہ عورتوں اور مزدوروں میں سیاسی شعور پھیلانا تھا۔ وہ اور ان کی ساتھی خواتین نچلے طبقات کو اپنے حق کے لیے لڑنے پر آمادہ کرتیں، جلوس نکالتیں اور افسر شاہی کے لیے مسئلہ بنی رہتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ذاتی سطح پر چندہ کرتے، ہمیں باہر سے عطیات نہیں ملتے تھے۔
اس وقت این جی اوز کا وجود نہیں تھا۔ یہ 1950ء کے دن تھے جب حکومت نے ریلوے میں کام کرنے والوں کی جھگیاں خالی کروا کر وہاں افسروں کے گھر بنانے کا پروگرام بنایا۔ یہ غریب مزدوروں کے حق پر ڈاکا تھا۔ طاہرہ آپا نے کچھ ہم خیال خواتین اور لڑکیوں کو ساتھ لیا اور ان جھگیوں کے گرد دائرہ بناکر ایک ہفتے تک بیٹھیں رہیں اور علاقہ خالی کرانے کے لیے پولیس والوں کو وہاں گھسنے نہیں دیا۔
آخرکار حکومت کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور ریلوے مزدوروں کی جھگیاں سلامت رہیں۔ وہ بہت جوش سے ان دنوں کو یاد کرتی تھیں جب جنرل ایوب کے دور میں ان لوگوں نے ویتنام کی خواتین کو پاکستان مدعو کیا اور مشہور مزدور رہنما مرزا ابراہیم کی رہنمائی میں سیکڑوں خواتین نے ان ویتنامی خواتین کا استقبال کیا۔
اپنی شادی شدہ زندگی کی ابتدا میں طاہرہ آپا اور مظہر علی خاں نے پہلے برس 300 روپے مہینے میں زندگی گزاری، کسانوں کے ساتھ کام کرتیں تو سرسوں، چولائی اور پالک کا ساگ لے آتیں، دونوں دال اور ساگ کھاتے اور خوش رہتے۔ وہ بتاتی تھیں کہ شادی کے فوراً بعد میں اپنی اماں کے پاس گئی اور انھیں بتایا کہ ہم دونوں سینما دیکھنے جارہے ہیں۔ شادی سے پہلے تو آئسکریم کھانے کے لیے بھی اجازت لینی پڑتی تھی لیکن اب میں آزاد تھی اور جو چاہتی کرسکتی تھی۔
اس آزاد لڑکی نے اپنی تمام زندگی ان لوگوں کے لیے خوشیاں تلاش کرنے میں گزار دی جو افتادگان خاک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صحت کی خرابی کے باوجود وہ آخری سانس تک نیشنل ورکرز پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کی رکن رہیں اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے ایک نشان راہ ہیں۔
مظہر علی خاں نے 14 اگست 1975ء کو ویو پوائنٹ کا پہلا شمارہ نکالا۔ یہ ہفت روزہ پاکستان کے روشن خیال اور انسانیت پرست افراد کی پہچان بن گیا۔ ترقی پسندی اور کمیونسٹ خیالات سے جڑے ہوئے اس جوڑے کے تعلقات ہندوستان کے تمام اہم سیاستدانوں سے رہے۔ پاکستان میں بھی قوم پرست رہنماؤں سے ان دونوں کی گہری وابستگی تھی۔
مظہر علی خاں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھٹو صاحب جب شملہ گئے تو اپنے ساتھ جہاں ارباب سکندر خاں خلیل اس وقت کے گورنر سرحد، بلوچستان کے گورنر غوث بخش بزنجو کے ساتھ ہی مظہر علی خاں کو بھی لے کر گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو بٹوارے سے پہلے کانگریس سے وابستہ رہے تھے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ میں جنوبی ایشیا ڈیسک کے آفتاب احمد خاں (مرحوم) بھی اس وفد کے ساتھ تھے۔
واپس آنے کے بعد انھوں نے قریبی دوستوں کو بتایا تھا کہ وہ شخص جو شملہ معاہدے کو ممکن بنا سکا، وہ مظہر علی خاں تھے۔ یہ وہی تھے کہ جب معاہدہ تقریباً ختم ہو رہا تھا، تو بھٹو صاحب کے اصرار پر مظہر صاحب نے مسز گاندھی سے تنہا ملاقات کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ پاکستان میں فوجی حکومت کے 14برس بعد بھٹو پہلے منتخب وزیراعظم ہیں، ان سے معاہدہ آیندہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔
اب طاہرہ اور مظہر جیسے لوگ کہاں!