خلیجتاریخ کے آئینے میں
یمن جزیرہ نماء عرب کا دوسرا بڑا ملک ہے۔اس کی آبادی مختلف قبائل کا مجموعہ ہے۔
اس وقت یمن میں جو کچھ ہورہاہے، وہ کوئی سادہ نہیں، بلکہ ایک انتہائی پیچیدہ کھیل ہے۔جس کی جڑیں ماضی کی تاریخ میں پیوست ہیں۔اگربغور دیکھا جائے تومعاملہ صرف یمن تک محدود نہیں ہے، بلکہ پورا مشرق وسطیٰ اس دھماکا خیز صورتحال کی لپیٹ میں ہے۔
اس میں عوامی مسائل کے حل کے لیے اٹھنے والی احتجاجی تحریک کارنگ بھی موجود ہے اور مذہبی شدت پسندانہ رجحانات کی آمیزش بھی۔عرب بہار کا ردعمل بھی ہے اور عالمی ریشہ دوانیوں کی جھلک بھی۔اس لیے ان واقعات کو سرسری طورپر نہیں دیکھا جاسکتا، بلکہ ماضی قریب کی تاریخ پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اس خطے کی حالیہ تاریخ کے ڈانڈے پہلی جنگ عظیم سے جڑے ہوئے ہیں۔اس دوران تین اہم واقعات قابل توجہ ہیں۔اول،سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت اور خاتمہ۔ویسے تو سلطنت عثمانیہ 19صدی کی آخری دہائیوں سے نظم حکمرانی میں ابتری اور انتشار کے باعث تیزی کے ساتھ روبہ زوال تھی۔
لیکن جرمنی کا ساتھ سلطنت عثمانیہ کو مہنگا پڑا،کیونکہ اس جنگ نے اس کے خاتمے پر مہر ثبت کردی۔دوئم،19صدی کی آخری دہائیوں کے دوران سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ زیر زمین ایسا سیال مادہ موجود ہے، جو کوئلے سے زیادہ پراثر اورسستا ہے۔ان کے خیال میں یہ ذخائر خلیج سے شمال مغربی افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔
لہٰذا برطانیہ نے اس خطے کی تشکیل نو کا فیصلہ کرلیا۔سوئم، مشرق وسطیٰ پر اپنے تسلط کو برقرار کھنے کے لیے برطانوی حکومت نے انتہاپسند یہودیوں(جو صیہونی کہلاتے ہیں) کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ کرلیا۔ 2نومبر 1917 کوحکومت برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھرجیمس بالفورنے یہودی رہنماء بیرن رولتھ چائلد کوایک خط کے ذریعے یقین دلایا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے میں بھر پور مدد کرے گا،بشرطیکہ یہودی اگلے 20برسوں کے دوران مطلوبہ علاقے میں اپنی آبادی کوخاطر خواہ حد تک بڑھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔بعد میںاس معاہدے کو بالفور معاہدے کا نام دیا گیا۔
جب سلطنت عثمانیہ شکست و ریخت سے دوچار ہوئی تو اس کے زیر تسلط ہر علاقے میں سرکشی اور بغاوتیں شروع ہوگئیں۔ شریف حسین بن علی نے جو حجاز میں عثمانیہ سلطنت کے گورنر تھے، برطانیہ کی شہ پاتے ہی 1917 میں بغاوت کردی اور اپنی خلافت کا اعلان کردیا۔وہ 1917 سے1924 تک حجاز مقدس کے بلاشرکت غیرے حکمران رہے۔
اسی اثناء میں یمن کی سرحد کے قریب نجد کے علاقے سے آل سعود ایک قوت بن کر ابھرے اور تیزی کے ساتھ علاقے فتح کرتے ہوئے حجاز مقدس تک جاپہنچے۔ شریف حسین نے برطانیہ سے مدد چاہی تو اس نے ایک نیاڈرامہ رچایا۔ برطانیہ نے جوتیل کی متوقع دریافت کے تناظر میں خلیجی علاقے پر اپنی مضبوط گرفت قائم رکھنے کا خواہش مند تھا، ایک طرف آل سعودکے ساتھ مکمل تعاون کیا،تو دوسری طرف حسین بن علی(شریف مکہ) کے دونوں بیٹوں کے لیے نئی مملکتیں تخلیق کرکے دیدیں۔
سب سے پہلے سلطنت عثمانیہ کی تین امارتوں(صوبوں)بغداد، بصرہ اور موصل کو یکجا کرکے عراق کا نام دیا اورشریف کے بڑے بیٹے عبداللہ کو اس کا بادشاہ بنادیا۔اسی طرح فلسطین اور شام کے کچھ علاقوں کو جو دریائے اردن کے کنارے واقع تھے، ایک نئی مملکت کی شکل دے کر امیر عبداللہ الحسین الثانی کو اس کا بادشاہ بنادیا،جو شریف مکہ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ لیکن 1946 تک انتظامی اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے۔
دوسری طرف فلسطین جس پر برطانیہ1917 میں براہ راست قابض ہوگیاتھا،اسے تقسیم کرکے1948 میں بالفور معاہدے کے تحت آزاد اسرائیلی ریاست قائم کردی۔ اس کے علاوہ خلیج کے ساحل پر آباد مختلف قبائل کوآزادی دیدی تاکہ پورے خلیج کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوجائیں،جو ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا رہیں اور برطانوی ڈیزائینز میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔اس میں سے بعض ریاستوں کی آبادی پاکستان کے کئی قصبوں سے بھی کم ہے۔ لیکن یہ اپنی تیل کی دولت کے بل بوتے پر قائم ہیں۔ سعودی عرب کے جنوب مشرق میں یمن نام کا ایک قدیم ملک بھی موجود ہے۔جس کے تہذیب و تمدن کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔
یمن جزیرہ نماء عرب کا دوسرا بڑا ملک ہے۔اس کی آبادی مختلف قبائل کا مجموعہ ہے۔ حالیہ لڑائی کا تعلق کسی طور مذہب کی بنیاد پر نہیں ہے۔ بلکہ عوامی مسائل اس کی بنیاد ہیں۔اس صورتحال میں شدت1992 میں آئی۔لیکن حکمرانوں کی نااہلی اور غلط حکمت عملیوں کے باعث حقوق کے لیے شروع ہونے والی جدوجہد پر تشدد شکل اختیار کرتی چلی گئی۔
یہ تحریک چار برس قبل مشرق وسطیٰ میں شروع ہونے والی عرب بہارسے بھی متاثر ہوئی۔دراصل سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے اس خطے میں اپنے تسلط کو ایک نئی شکل دینے کے لیے نیوورلڈ آرڈر(New World Order)کاتصور پیش کیا۔اس تصور کا مقصد ایک طرف ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے علاوہ اسرائیل کی حیثیت کو مستحکم کرنا تھا۔پہلے عراق کو ایران پر حملے کے لیے اکساکر8سالہ جنگ کرائی گئی، جو ستمبر 1980 میں شروع ہوکر اگست1988 میں اختتام پذیر ہوئی۔جس نے اس خطے کی سالمیت کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس دوران عراق نے امریکی امداد سے اپنی عسکری صلاحیت میں بے پناہ اضافہ کرلیا تھا۔
پھر عراق کے کویت پر حملہ کو بہانہ بناکر1990 میں پہلی عراق جنگ ہوئی۔ اس کے بعد 2003 میں انسان کش ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بناکر امریکا کی اتحادی افواج نے عراق پر حملہ کردیا۔ جن کی موجودگی بعد میں ثابت تو نہ ہوسکی ، مگر عراق تباہ اور پورا خطہ (مشرق وسطیٰ) بدترین عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔
جس کے اثرات یمن پر بھی مرتب ہوئے۔یمن میں امریکا مخالف رائے عامہ ہموار ہونے لگی۔ لیکن خطے میں بدنصیبی کی ایک نئی داستان بھی رقم ہونے لگی۔خطے میں ملوکیت کی بقاء اورعوامی حق حکمرانی کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوگیا۔ لیکن اس میں جمہوری قوتوں کے بجائے ایک طرف پشتینی بادشاہت ہے اور دوسری طرف مذہبی اکابرین کا گروہ۔جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ نے مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیا۔اس کشمکش کے نتیجے میں مسلم دنیا کئی پرتوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔ جس کے مظاہر آج زیادہ واضح طورپر نظر آرہے ہیں۔
امریکی منصوبہ ساز،جو ہمیشہ تزویراتی معاملات میں غلطیوں پرغلطیاں کرتے ہیں، انھوں نے اس خطے میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں کے بارے میں بھی غلط اندازے لگائے۔سب سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ انھوں نے اس خطے کی سماجی ساخت، اجتماعی نفسیات اور سول سوسائٹی کے حجم اور اس کی فعالیت کامطالعہ کیے بغیر عوامی تحاریک کی حمایت شروع کردی۔
جس کے نتیجے میں بعض ممالک میں مذہبی شدت پسند عناصر کو ابھرنے کا موقع ملا۔مثال کے طورپر مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے بعد اخوان المسلمون اقتدار میں آگئے۔ جن سے جان چھڑانے کے لیے فوجی انقلاب کا سہارا لینا پڑا۔ اسی طرح سیکیولربشارالاسد کی حکومت کاتختہ الٹنے میں مذہبی شدت پسند عناصر کو مجتمع ہونے کا موقع ملا۔خاص طورپر داعش(دولت اسلامی عراق وشام) نامی شدت پسندتنظیم وجود میں آگئی۔ جس کے بعض علاقوں پر قبضے نے امریکاسمیت پوری مغربی دنیا کو پریشان کردیا۔ روسی صدر پوٹین کی تنبیہ کے بعد امریکا بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی خواہش سے خاصی حد تک دست کش ہوگیا ۔
ادھر جوہری پروگرام پر امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے لگے۔ساتھ ہی ایران کے خلیجی ممالک کی عوامی تحاریک سے روابط بھی سعودی عرب کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ یوں خطے پر بالادستی کی جنگ نے حالات کو کشیدہ کردیا۔ اس وقت امریکا سمیت مغربی دنیا کے سامنے کئی سوالات ہیں۔
اول، آیا ان ممالک میں جمہوری جدوجہد کسی بھی قیمت پر جاری رہنا چاہیے،خواہ اس کے نتائج کچھ ہی برآمد کیوںنہ ہوں۔دوئم،آ یا قدرے سیکیولر بادشاہت یا آمریت کا ساتھ دیا جائے یا جمہوریت کی بحالی کے نام پر مذہبی شدت پسند عناصر کی بالادستی قبول کرلی جائے۔لہٰذا امریکا اب یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہے کہ داعش جیسی تنظیموں کے مقابلے میں بادشاہت کے انسٹیٹیوشن کی حمایت زیادہ بہتر ہے۔
لیکن معاملات کوریا اور ویت نام کی طرح اب اس کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں اور موجودہ حالات میں مشرق وسطیٰ ایک نئے عدم استحکام کا شکار ہوتا نظر آرہاہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس کھیل میں امریکی رویے کی سرد مہری کا سبب یہ بھی ہے کہ اب اسے مشرق وسطیٰ کے تیل کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔