نواز شریف کا درست فیصلہ
دلیل کی بنیادپرآپ کسی بھی نکتے کودرست یا غلط ثابت کرتے ہیںاور جذباتیت سے کام نہیں لیتے۔
سنجیدہ تجزیے کی بنیادغیرجانبدارانہ تحقیق ہوتی ہے۔ دلیل کی بنیادپرآپ کسی بھی نکتے کودرست یا غلط ثابت کرتے ہیںاور جذباتیت سے کام نہیں لیتے ۔
پے درپے حادثوں اور فریب کاری نے ہمیں فکری اعتبارسے بانجھ کردیاہے۔ غیریقینی صورتحال اسی کامنطقی نتیجہ ہے۔لیکن اس وقت درپیش مسئلہ انتہائی حساس ہے۔یعنی سعودی عرب اوریمن کے داخلی معاملات۔جنگ اوراس میں پاکستان کاکردار۔ہمارے اکثردانشور،اینکرپرسنزاورقلم کار اس معاملے میں وہ علمی ادراک نہیں رکھتے جوتجزیہ کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
نتیجہ میں عام لوگ الجھاؤ کا شکارہورہے ہیں۔ایک اورچیزجسکی جانب اشارہ کرناچاہتا ہوں۔وہ ہے بے موقع سیاست۔سعودی جنگ اوریمن کی خانہ جنگی ایک حساس معاملہ ہے۔اس پرسیاست کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں۔مگرمجھے انتہائی افسوس سے کہناپڑتاہے کہ ہمارے کئی سیاسی لیڈرمعاملے کی گہرائی کوسمجھے بغیرہروہ بات کہنے کی کوشش کررہے ہیں،جس سے انھیں اجتناب کرنا چاہیے۔
تاریخی پسِ منظرمیں سعودی عرب اوریمن کی لڑائیاں اورکشمکش معمول کاعمل ہے۔ 1803 میں سعودی عرب نے یمن کی زیدی حکومت سے جنگ کرنے کے بعداس ملک کے کئی حصوں پرقبضہ کرلیا۔ 1818 میںمحمد علی پاشا نے سعودی تسلط کوختم کرڈالا۔وقت گزرنے کے ساتھ، یمن کے بیشترحصے میں ''امام یحییٰ''نے سلطنت بناڈالی۔ابن سعود اور امام یحیٰ کے درمیان پھرجنگ ہوئی۔نجران اورساحلی علاقے کے100کلومیٹرپرسعودی قبضہ ہوگیا۔1948 میں یمن میں ایک عوامی بغاوت ہوئی۔
اس میں آل سعودنے امام یحییٰ کی بھرپورمددکی۔یعنی کبھی مکمل جنگ اورکبھی مکمل دوستی۔ ان دونوں ممالک یاپرانی بادشاہوں کا باہمی تعلق، محبت اور نفرت کی ایک حیرت انگیزداستان ہے۔ زیدی سلطنت کامضبوط گڑھ''صعد'' تھا۔ 1962میں شمالی یمن میں ایک انقلاب کی بدولت زیدی سلطنت کاایک ہزارسالہ اقتدارختم ہوگیا۔
مگراس انقلاب کے ثمرات صعدکے علاقے میں صحیح طریقے سے پہنچ نہ پائے۔یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس علاقے پر توجہ نہ دینے سے ایک اندرونی خلفشارکی بنیادڈل گئی۔ 1994 کی خانہ جنگی میں اس احساس محرومی کواورتقویت ملی۔ سعودی عرب نے شمالی اورجنوبی یمن کی خانہ جنگی میںاپنے ہم مسلکوں کی بھرپور مدد کی۔آپکے ذہن میں ہونا چاہیے کہ یمن میں شیعہ اقلیت میں ہیںمگرکچھ علاقوں میں ان کی اکثریت ہے۔
سعودی عرب کے سرحدی علاقے میں بھی اہل تشیع بھرپورآبادی آج بھی موجود ہے۔ 2004 میں معاملات مزیدمشکل ہونے لگے۔حوثی قبیلہ کے ایک رہنما بدرالدین اَل حوثی نے مرکزی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ اس رہنما کے سرکی قیمت 55000 ڈالررکھ دی گئی۔حوثی قبیلہ پرالزام لگایاگیاکہ وہ''علی عبداللہ صالح'' کی حکومت کو ختم کرناچاہتا ہے۔ "صالح" کی حکومت 33برس تک رہی اورکچھ عرصہ پہلے ایک معائدہ کے تحت ختم کی گئی۔
2004میں یمن کی حکومت نے معاملہ فہمی سے کام نہیں لیا۔ انھوں نے ان نکات پربھی غورکرنے سے انکار کردیا جوحوثی قبیلے کے سردارنے بارہابیان کیے تھے۔ صالح کی حکومت نے حوثی قبائل پر الزام لگایاکہ وہ ایران سے ہتھیار اور مالی ا مدادحاصل کر رہے ہیں۔
2004 میں"حسین اَل حوثی" ایک فوجی حملے میں مارا گیا۔ اس کی جگہ اس کے بھائی"عبدالمالک حوثی" نے مرکزی قیادت اور والد"بدرالدین اَل حوثی"نے قبیلہ کی مذہبی قیادت سنبھال لی۔2004سے شروع ہوئی جنگ آج تک جاری ہے۔ 2005 میں علی عبداللہ صالح نے کچھ شرائط کے عوض عام معافی کااعلان کردیا۔ مگر حوثی قبیلہ نے ان شرائط کوہتک آمیزقراردیکرصلح کرنے سے انکارکردیا۔
2009میں یمن کی حکومت نے حوثی قبیلہ کے خلاف ایک بڑاآپریشن کیا۔ اس کا نام "Operation Scorched Earth"رکھاگیا۔اس آپریشن کوبھرپورسعودی معاونت حاصل تھی۔
2009 میں اس قبیلہ نے سعودی عرب پرحملہ کردیااور سرحدی علاقے"جبل اَل دخان"کے قصبوں پرقبضہ کرلیا۔ سعودی اورامریکی فضائیہ نے اس حملہ کے نتیجہ میں شمالی یمن پرکئی حملے کیے۔اس میں حوثی قبیلہ کے کئی فوجی ٹھکانے توتباہ ہوئے ہی۔یہ لڑائی پوری ہلاکت کے ساتھ جاری رہی۔کئی معاہدے ہوئے مگروہ تمام حباب برآب ثابت ہوئے۔
2011 میں یمنی صدرنے عوامی دباؤمیں آکراعلان کیاکہ وہ آیندہ الیکشن میں حصہ نہیں لیگا۔اب یہ جنگ جمہوریت اورڈکٹیٹرشپ کے مابین مختلف رنگ اختیارکررہی تھی۔2011 ہی میں حوثی جنگجوؤں نے صعدکے علاقے پر قبضہ کرلیا۔وہاں کے یمنی گورنرشیخ عثمان مجالی کے گھر کو روند ڈالا گیا۔اب اس جنگ میں ایک اورفریق بھی شامل ہوگیا۔وہ تھا "القاعدہ "۔معاملات مزید پیچیدہ ہوگئے۔
اسی برس یہ قبیلہ سمندرسے متصل علاقوں پربھی قابض ہوگیا۔ القائدہ،عبداللہ صالح کی حکومت اورحوثی قبیلہ کی جنگ خالصتاً مسلکی جنگ میں تبدیل ہوگئی۔یہ جنگ اس قدرخوفناک تھی کہ صالح نے حکومت چھوڑنے کافیصلہ کرلیا۔اس کی صرف ایک شرط تھی کہ اس کی کرپشن اورقتل عام کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے۔وہ ایک طرح کا N.R.O مانگ رہاتھا۔
حوثی قبیلہ نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ مگر G.C.Cنے عبداللہ صالح کی درخواست کوتسلیم کرلیا۔ 2012 میں منصوراَل ہادی نے صدرکاالیکشن لڑااور جیتے مگریہ الیکشن مکمل طور پر فراڈپرمبنی تھا۔ حوثی سردار نے اسکوتسلیم کرنے سے انکارکر ڈالا۔ جلسے، جلوس، مظاہرے، ہڑتالیںاور دوطرفہ قتل عام جاری رہا۔ آہستہ آہستہ حوثی قبیلہ، دارالحکومت تک پہنچ گیا۔ کامیابی کی بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ نئی حکومت نے عوام کاکوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔
لوڈشیڈنگ 16سے20گھنٹے تک جاری رہتی تھی۔حکومتی کرپشن پربھی کوئی اثرنہیں پڑاتھا۔پٹرول کی قیمت میں بین الاقوامی تناظرمیں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی گئی۔ اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت بھی بہترنہ ہوپائی۔منصوراَل ہادی اوراس کے خاندان کے متعلق اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔قبائلیوں نے صدارتی محل پرقبضہ کرلیا۔ اَل ہادی ملک چھوڑنے پرمجبورہوگیا۔پارلیمنٹ کوتحلیل کردیا گیا۔ایک انقلابی کمیٹی نے یمن کی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔محمدعلی اَل حوثی اس کونسل کاانچارج بنادیاگیا۔یہ حکومت آج تک قائم ہے۔اب سعودی عرب ایک ناگزیرصورتحال کاشکار ہوگیا۔
چنانچہ سعودی عرب نے عرب لیگ اورG.C.Cکے دوفورم استعمال کیے۔اس میں اپنے اتحادی بلالیے جنہوں نے یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کااعلان کردیا۔اس میں مصر، اُردن،مراکش اور دیگرممالک شامل ہیں۔اجتماعی طورپر چند دن پہلے "Operation Decisive Storm" کا آغاز کردیا گیا۔ آپریشن میں امریکی فضائیہ اورفوج کی مکمل معاونت حاصل ہے۔ آپ ان دنوں میںBrookings Instituteکے مقالات پرنظردوڑائیے۔
اب میں پاکستان کی جانب آتاہوں۔ہمارے سعودی عرب سے اس قدرتہہ درتہہ تعلقات ہیں کہ خوش قسمتی یابدقسمتی سے دونوں ممالک کاایک دوسرے پرمکمل انحصار ہے۔ فوجی،اقتصادی، افرادی، سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات،یعنی ہر اعتبارسے دونوں ملک ایک دوسرے کے ازحدقریب ہیں۔ Brookings Instituteاورکئی غیرملکی تھنک ٹینکزکی دانست میں ان باہمی تعلقات کی مضبوطی اورگہرائی کااندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔
Keneth Pollockلکھتاہے کہ امریکا کے بعدسعودی عرب کی کوئی مددکرسکتاہے توصرف اورصرف پاکستان ہے۔تصویرکادوسرارخ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں شیعہ سنی پرامن طریقے سے زندگی گزاررہے ہیںاور مکمل طور پر پاکستان سے محبت کرتے ہیں اوروطن دوست ہیں۔ اختلافات کے باوجوداب ہمیں بحیثیت پاکستانی، مسلک سے بلند ہو کرملکی مفادمیں سوچناپڑیگا۔مشکلات کی بدولت ہم ایک ایسے دوراہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں جس میں ہمیں ایک حتمی پوزیشن ہر صورت میں لینی ہے۔
قریبی تعلقات کی بدولت ہم غیرجانبدارانہ پوزیشن نہیں لے سکتے۔چنانچہ اسکاحل کیا ہے، یہی کہ اگرسعودی عرب کی علاقائی سالمیت کوکوئی خطرہ ہوا،توہم اس کے ساتھ ہونگے۔آج تک کے معروضی حالات اور غیرجذباتی تجزیے کے مطابق جنگ طاقتورفریق ہی جیتے گا!ان حالات میں محترم وزیراعظم نے درست فیصلہ کیاہے۔یہ ایک مشکل اورناگزیرفیصلہ ہے۔ آپکوحق ہے کہ آپ اس سے اختلاف کریں مگرحالات کی سنگینی اورمعاملہ فہمی کے مطابق یہ درست فیصلہ معلوم ہوتاہے۔
پے درپے حادثوں اور فریب کاری نے ہمیں فکری اعتبارسے بانجھ کردیاہے۔ غیریقینی صورتحال اسی کامنطقی نتیجہ ہے۔لیکن اس وقت درپیش مسئلہ انتہائی حساس ہے۔یعنی سعودی عرب اوریمن کے داخلی معاملات۔جنگ اوراس میں پاکستان کاکردار۔ہمارے اکثردانشور،اینکرپرسنزاورقلم کار اس معاملے میں وہ علمی ادراک نہیں رکھتے جوتجزیہ کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
نتیجہ میں عام لوگ الجھاؤ کا شکارہورہے ہیں۔ایک اورچیزجسکی جانب اشارہ کرناچاہتا ہوں۔وہ ہے بے موقع سیاست۔سعودی جنگ اوریمن کی خانہ جنگی ایک حساس معاملہ ہے۔اس پرسیاست کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں۔مگرمجھے انتہائی افسوس سے کہناپڑتاہے کہ ہمارے کئی سیاسی لیڈرمعاملے کی گہرائی کوسمجھے بغیرہروہ بات کہنے کی کوشش کررہے ہیں،جس سے انھیں اجتناب کرنا چاہیے۔
تاریخی پسِ منظرمیں سعودی عرب اوریمن کی لڑائیاں اورکشمکش معمول کاعمل ہے۔ 1803 میں سعودی عرب نے یمن کی زیدی حکومت سے جنگ کرنے کے بعداس ملک کے کئی حصوں پرقبضہ کرلیا۔ 1818 میںمحمد علی پاشا نے سعودی تسلط کوختم کرڈالا۔وقت گزرنے کے ساتھ، یمن کے بیشترحصے میں ''امام یحییٰ''نے سلطنت بناڈالی۔ابن سعود اور امام یحیٰ کے درمیان پھرجنگ ہوئی۔نجران اورساحلی علاقے کے100کلومیٹرپرسعودی قبضہ ہوگیا۔1948 میں یمن میں ایک عوامی بغاوت ہوئی۔
اس میں آل سعودنے امام یحییٰ کی بھرپورمددکی۔یعنی کبھی مکمل جنگ اورکبھی مکمل دوستی۔ ان دونوں ممالک یاپرانی بادشاہوں کا باہمی تعلق، محبت اور نفرت کی ایک حیرت انگیزداستان ہے۔ زیدی سلطنت کامضبوط گڑھ''صعد'' تھا۔ 1962میں شمالی یمن میں ایک انقلاب کی بدولت زیدی سلطنت کاایک ہزارسالہ اقتدارختم ہوگیا۔
مگراس انقلاب کے ثمرات صعدکے علاقے میں صحیح طریقے سے پہنچ نہ پائے۔یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس علاقے پر توجہ نہ دینے سے ایک اندرونی خلفشارکی بنیادڈل گئی۔ 1994 کی خانہ جنگی میں اس احساس محرومی کواورتقویت ملی۔ سعودی عرب نے شمالی اورجنوبی یمن کی خانہ جنگی میںاپنے ہم مسلکوں کی بھرپور مدد کی۔آپکے ذہن میں ہونا چاہیے کہ یمن میں شیعہ اقلیت میں ہیںمگرکچھ علاقوں میں ان کی اکثریت ہے۔
سعودی عرب کے سرحدی علاقے میں بھی اہل تشیع بھرپورآبادی آج بھی موجود ہے۔ 2004 میں معاملات مزیدمشکل ہونے لگے۔حوثی قبیلہ کے ایک رہنما بدرالدین اَل حوثی نے مرکزی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ اس رہنما کے سرکی قیمت 55000 ڈالررکھ دی گئی۔حوثی قبیلہ پرالزام لگایاگیاکہ وہ''علی عبداللہ صالح'' کی حکومت کو ختم کرناچاہتا ہے۔ "صالح" کی حکومت 33برس تک رہی اورکچھ عرصہ پہلے ایک معائدہ کے تحت ختم کی گئی۔
2004میں یمن کی حکومت نے معاملہ فہمی سے کام نہیں لیا۔ انھوں نے ان نکات پربھی غورکرنے سے انکار کردیا جوحوثی قبیلے کے سردارنے بارہابیان کیے تھے۔ صالح کی حکومت نے حوثی قبائل پر الزام لگایاکہ وہ ایران سے ہتھیار اور مالی ا مدادحاصل کر رہے ہیں۔
2004 میں"حسین اَل حوثی" ایک فوجی حملے میں مارا گیا۔ اس کی جگہ اس کے بھائی"عبدالمالک حوثی" نے مرکزی قیادت اور والد"بدرالدین اَل حوثی"نے قبیلہ کی مذہبی قیادت سنبھال لی۔2004سے شروع ہوئی جنگ آج تک جاری ہے۔ 2005 میں علی عبداللہ صالح نے کچھ شرائط کے عوض عام معافی کااعلان کردیا۔ مگر حوثی قبیلہ نے ان شرائط کوہتک آمیزقراردیکرصلح کرنے سے انکارکردیا۔
2009میں یمن کی حکومت نے حوثی قبیلہ کے خلاف ایک بڑاآپریشن کیا۔ اس کا نام "Operation Scorched Earth"رکھاگیا۔اس آپریشن کوبھرپورسعودی معاونت حاصل تھی۔
2009 میں اس قبیلہ نے سعودی عرب پرحملہ کردیااور سرحدی علاقے"جبل اَل دخان"کے قصبوں پرقبضہ کرلیا۔ سعودی اورامریکی فضائیہ نے اس حملہ کے نتیجہ میں شمالی یمن پرکئی حملے کیے۔اس میں حوثی قبیلہ کے کئی فوجی ٹھکانے توتباہ ہوئے ہی۔یہ لڑائی پوری ہلاکت کے ساتھ جاری رہی۔کئی معاہدے ہوئے مگروہ تمام حباب برآب ثابت ہوئے۔
2011 میں یمنی صدرنے عوامی دباؤمیں آکراعلان کیاکہ وہ آیندہ الیکشن میں حصہ نہیں لیگا۔اب یہ جنگ جمہوریت اورڈکٹیٹرشپ کے مابین مختلف رنگ اختیارکررہی تھی۔2011 ہی میں حوثی جنگجوؤں نے صعدکے علاقے پر قبضہ کرلیا۔وہاں کے یمنی گورنرشیخ عثمان مجالی کے گھر کو روند ڈالا گیا۔اب اس جنگ میں ایک اورفریق بھی شامل ہوگیا۔وہ تھا "القاعدہ "۔معاملات مزید پیچیدہ ہوگئے۔
اسی برس یہ قبیلہ سمندرسے متصل علاقوں پربھی قابض ہوگیا۔ القائدہ،عبداللہ صالح کی حکومت اورحوثی قبیلہ کی جنگ خالصتاً مسلکی جنگ میں تبدیل ہوگئی۔یہ جنگ اس قدرخوفناک تھی کہ صالح نے حکومت چھوڑنے کافیصلہ کرلیا۔اس کی صرف ایک شرط تھی کہ اس کی کرپشن اورقتل عام کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے۔وہ ایک طرح کا N.R.O مانگ رہاتھا۔
حوثی قبیلہ نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ مگر G.C.Cنے عبداللہ صالح کی درخواست کوتسلیم کرلیا۔ 2012 میں منصوراَل ہادی نے صدرکاالیکشن لڑااور جیتے مگریہ الیکشن مکمل طور پر فراڈپرمبنی تھا۔ حوثی سردار نے اسکوتسلیم کرنے سے انکارکر ڈالا۔ جلسے، جلوس، مظاہرے، ہڑتالیںاور دوطرفہ قتل عام جاری رہا۔ آہستہ آہستہ حوثی قبیلہ، دارالحکومت تک پہنچ گیا۔ کامیابی کی بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ نئی حکومت نے عوام کاکوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔
لوڈشیڈنگ 16سے20گھنٹے تک جاری رہتی تھی۔حکومتی کرپشن پربھی کوئی اثرنہیں پڑاتھا۔پٹرول کی قیمت میں بین الاقوامی تناظرمیں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی گئی۔ اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت بھی بہترنہ ہوپائی۔منصوراَل ہادی اوراس کے خاندان کے متعلق اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔قبائلیوں نے صدارتی محل پرقبضہ کرلیا۔ اَل ہادی ملک چھوڑنے پرمجبورہوگیا۔پارلیمنٹ کوتحلیل کردیا گیا۔ایک انقلابی کمیٹی نے یمن کی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔محمدعلی اَل حوثی اس کونسل کاانچارج بنادیاگیا۔یہ حکومت آج تک قائم ہے۔اب سعودی عرب ایک ناگزیرصورتحال کاشکار ہوگیا۔
چنانچہ سعودی عرب نے عرب لیگ اورG.C.Cکے دوفورم استعمال کیے۔اس میں اپنے اتحادی بلالیے جنہوں نے یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کااعلان کردیا۔اس میں مصر، اُردن،مراکش اور دیگرممالک شامل ہیں۔اجتماعی طورپر چند دن پہلے "Operation Decisive Storm" کا آغاز کردیا گیا۔ آپریشن میں امریکی فضائیہ اورفوج کی مکمل معاونت حاصل ہے۔ آپ ان دنوں میںBrookings Instituteکے مقالات پرنظردوڑائیے۔
اب میں پاکستان کی جانب آتاہوں۔ہمارے سعودی عرب سے اس قدرتہہ درتہہ تعلقات ہیں کہ خوش قسمتی یابدقسمتی سے دونوں ممالک کاایک دوسرے پرمکمل انحصار ہے۔ فوجی،اقتصادی، افرادی، سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات،یعنی ہر اعتبارسے دونوں ملک ایک دوسرے کے ازحدقریب ہیں۔ Brookings Instituteاورکئی غیرملکی تھنک ٹینکزکی دانست میں ان باہمی تعلقات کی مضبوطی اورگہرائی کااندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔
Keneth Pollockلکھتاہے کہ امریکا کے بعدسعودی عرب کی کوئی مددکرسکتاہے توصرف اورصرف پاکستان ہے۔تصویرکادوسرارخ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں شیعہ سنی پرامن طریقے سے زندگی گزاررہے ہیںاور مکمل طور پر پاکستان سے محبت کرتے ہیں اوروطن دوست ہیں۔ اختلافات کے باوجوداب ہمیں بحیثیت پاکستانی، مسلک سے بلند ہو کرملکی مفادمیں سوچناپڑیگا۔مشکلات کی بدولت ہم ایک ایسے دوراہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں جس میں ہمیں ایک حتمی پوزیشن ہر صورت میں لینی ہے۔
قریبی تعلقات کی بدولت ہم غیرجانبدارانہ پوزیشن نہیں لے سکتے۔چنانچہ اسکاحل کیا ہے، یہی کہ اگرسعودی عرب کی علاقائی سالمیت کوکوئی خطرہ ہوا،توہم اس کے ساتھ ہونگے۔آج تک کے معروضی حالات اور غیرجذباتی تجزیے کے مطابق جنگ طاقتورفریق ہی جیتے گا!ان حالات میں محترم وزیراعظم نے درست فیصلہ کیاہے۔یہ ایک مشکل اورناگزیرفیصلہ ہے۔ آپکوحق ہے کہ آپ اس سے اختلاف کریں مگرحالات کی سنگینی اورمعاملہ فہمی کے مطابق یہ درست فیصلہ معلوم ہوتاہے۔