اچھے حکمران کی تلاش…
وہ ہے سیاسی نظام چلانے والا فرد واحد جسے حکمران، بادشاہ، صدر یا وزیر اعظم یا کسی
ریاست اور مملکت کا نظام چلانے کے لیے ریاستی اور مملکتی نظم و نسق میں حکومتی مشینری کا وجود کبھی جمہوریت، کہیں ملوکیت و بادشاہت اور مطلق العنایت کی صورت میں ہمیں نظر آتا ہے، انھی اساس پر قومیں اپنے اپنے طرز سے کارخانہ حکومت چلاتی ہیں، ان مروج حکومتی نظاموں میں کوئی مماثلت ہو نہ ہو مگر جو چیز سب زیادہ مشترک ہے۔
وہ ہے سیاسی نظام چلانے والا فرد واحد جسے حکمران، بادشاہ، صدر یا وزیر اعظم یا کسی اور نام سے پکارا جاتا ہے یہ فرد واحد آج کی ہی ضرورت نہیں بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ حاکم و قائد یا منتظم اعلی ہر زمان و مکان کے لیے لازم و ملزوم رہا ہے۔ فی الحقیقت تہذیب و تمدن کی بنیادی ضروریات میں معاشرتی شیرازہ بندی، انتظامی نظم و نسق اور معاشی سرگرمیاں کسی نہ کسی صورت میں ابتدائے آفرینش سے انسانی زندگی کے اجزائے ترکیبی رہے ہیں۔
تہذیبوں کے قافلوں اور تاریخ کے پڑاؤ میں عروج و زوال کی داستانیں لکھی جاتی ہیں، قوموں کی شناخت کے پیمانے طے کیے جاتے ہیں، ان کے سانچے اپنے نظریات کے مطابق ڈھالے جاتے ہیں، اسی مناسبت سے متمدن و مہذب مملکتیں، سلطنتیں اور حکومتیں رعیت کی گلہ بانی کر کے ان کا کل سنوارتی ہیں اور انھیں عزت و منزلت کے منصب پر بٹھاتی ہیں۔
اس کارگہہ حیات میں جو بھی افراد یا اقوام مختلف زمانوں میں سریر آرائے مسند قیادت و امارات ہوئے ان میں کچھ شمس و قمر کی مانند حسن و عمل سے اقوام کی پیشانی پر جھومر بن کر ہنوز چمک دھمک رہے ہیں۔ اور بہت سارے ایسے ہیں جو طاق نسیاں کی زینت بن گئے کہ ان کا ذکر بھی انسان کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔
حق تو یہ ہے کہ قوموں میں جہاں بانی، قیادت یا حکمرانی کے اس بھاری بھرکم بار امانت کو جن باشعور اور صاحب ایمان امانت داروں نے اپنے تقدیر ساز منصب کے تقاضوں اور مطالبات کو سنبھالا، انھوں نے جان بوجھ کر گویا کانٹوں کی سیج پر قدم رکھا وہ ہمہ وقت قومی درد، ملی احساس اور خوف خدا سے لرزہ بر اندام رہے۔
کسی تفریق و تمیز کے بغیر مخلوق خدا کی خدمت ان کا مقصد زندگی بنا رہا اپنے زیرنگیں عوام یا رعیت کو راحت و سکون فراہم کرنے کے لیے خود اپنا سکھ چین تک دیا اور من و تُو کی تقسیم کے بغیر ہر کسی سے عدل و انصاف کا معاملہ کیا، یہ وجہ ہے کہ صبح قیامت تک آنے والے حکمرانوں کے لیے ان کی طرز حکمرانی، جاں سپاری اور خدمت گزاری مشعل راہ بنی رہے گی۔
لیکن جنھوں نے قوم کی خدمت کے بجائے اپنی ذات کے تحفظ اور مفادات کے تحت ایک ایسی راہ اختیار کی تو واضح طور پر نظر آ جاتا ہے کہ ایسی شخصیت کسی ایسی بیماری کا شکار ہے جو اس کے لیے بالکل نئی ہے لیکن اس کے افعال کی وجہ سے اقوام پر نزاع کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔
یہ تمام کیفیات دراصل اپنے معمول سے منحرف ہونے کی بیماری کہلائی جاتی ہے جو اپنے قابل شناخت فعل سے منحرف ہو جاتا ہے۔ اسے عقلی بیماری بھی کہا جاتا ہے جس میں تاریخی حوالے سے ایسے نفسیاتی امراض کی کیفیات نمودار ہوتی ہیں جس میں اس شخص کے نفس کے مرض کو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ طب نفسی جیسے انگریزی میںpsychiatry کہا جاتا ہے شعبہ طب سے تعلق رکھنے والا ایک اختصاص speciality ہے، اس کے لیے علاج و نو سازی rehabilitation کی ضرورت ہے۔
کیونکہ متاثرہ شخص خود کو کسی وجہ کے بغیر نقص کے قابل نہیں سمجھتا اس لیے آج کے جدید آلات اور tests کی بہترین سہولیات کی مدد سے اس قسم کی بیماری کا شکار شخص کے قابل شناخت فعل کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔
یہ ضروری نہیں ہے کوئی پرانے رجحان یا تصور کے مطابق عقلی بیماری کو نفسیاتی اور دیگر بیماریوں کو طب سے تعلق رکھنے والی جسمانی بیماریاں کہا جائے جو علمی اور سائنسی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ جسم بشمول دماغ میں کوئی فعلیات کی انحراف یا کوئی بیماری کی وجہ نہ ہو اور کوئی شخص مرض کا حامل بھی رہ چکا ہو۔
ہمارے معاشرے میں کسی لیڈر یا حکمراں کی ذاتی زندگی اور اس کے افعال پر گہری نظر نہیں رکھی جاتی بلکہ اس کی خامیوں کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، دوسرا سب سے بڑی کمزوری کا رجحان، کسی لیڈر کی غلطی کو غلطی تسلیم کرنا نہیں ہے، کسی بھی لیڈر کی ہر بات کو حتمی صداقت پر مبنی سمجھ لیا جاتا ہے اور اس میں تنقید یا اصلاح کی راہ نکالنے کے بجائے اس کی تصدیق کے لیے وجہ جواز شد و مد سے کیا جاتا ہے تاویلات تلاش کی جاتی ہے اور اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سچ پر ہی جھوٹ کا گمان ہوتا ہے۔
خود نفسی کی اس کیفیت میں ایسی خاصیت نمودار ہو جاتی ہے اور اپنے غلط نظریے کے پرچار اور اس کو درست ثابت کرنے ہر قسم کا فکری یا جسمانی تشدد تک کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔ قومیتوں کے درمیان نفرت اور اپنی قوم کو ارفع تسلیم کرنے کا عمل بذات خود ایک مہلک بیماری کی شکل میں سامنے آ جاتی ہے اور یہی نظریہ بعد میں جا کر فسطائیت کہلاتا ہے۔
اس میں عوام کا بھی بہت قصور واقع ہوا ہے کہ سوچ و فکر سے عاری ہو کر جذبات کے اندھے کنوئیں میں چھلانگ لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور کسی ذی حیات سے بھی بدتر زندگی گزارنے کے لیے غلط نظریے پر کمربستہ و بضد رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ اور انجام کار بالآخر حادثے کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔
بے ہنگم نظریات کی حامل گاڑی کچھ عرصہ ضرور چلتی ہے لیکن تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ ایسے سرپھروں کی عبرت پر آسمان بھی چار آنسو گرانے پر تیار نہیں ہوتا۔ لق و دق صحرا میں تن و تنہا رہ جانے والی اقوام از خود آئیسولیٹ ہو جاتی ہیں، ان کے لیڈر مقام عبرت بن جاتے ہیں۔
ان کی عقل کا دائرہ ان کی فرسودہ خیالات و عوامل کے گرد ہی گھومتا رہتا ہے اور اپنی اس بیماری کو اپنی آنکھوں کے سامنے اقوام و ملک کی گردنوں پر بہت ہی حسین ناموں اور خوشنما دعوؤں کے ساتھ سوار ہوتے ہیں، بظاہر وہ ایک حلقے و طبقے پر اقتدار و اختیار کے ساتھ بھی موجود رہتے ہیں لیکن فلک بوس محلات میں لونڈیوں کی طرح رہنے والی نام نہاد شخصیات کسی خواب کی تعبیر کے شیشے کی طرح جب ٹوٹ کے بکھر جاتی ہیں تو انھیں دوبارہ جوڑا بھی نہیں جا سکتا۔
شاہ ایران رضا شاہ پہلوی، زین العابدین بن علی تیونس، حسنی مبارک مصر، معمر قذافی لیبیا، صدام حسین عراق اور پاکستان کے بھی کتنے ایسے لیڈر رہے ہیں کہ آج کی نوجوان نسل ان کے بارے میں کچھ جانتی بھی نہیں۔
سیاست کے ان ملوکیت کے تراشیدہ خود غرض لیٹرے اور بے رحم حکمرانوں اور سیاسی قائدین کے عوام کے درمیان روز بہ روز فاصلے بڑھتے ہیں، عوام کی طرح حکمران اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیڈر جو مکافات عمل کے قانون کو بھول چکے ہیں، یہ اپنے شاہانہ کروفر اور جاہ و جلال کو متاع زندگی سمجھنے لگ جاتے ہیں اسے ہی عزت و توقیر خیال کرنے لگتے ہیں لیکن انھیں کیوں وہ حکمران بھول جاتے ہیں جو تاریخ میںصرف کتابوں میں رہ گئے ہیں۔ ہمارے سامنے رول ماڈل کیا ہے ہم کسے رول ماڈل بنائیں اس کا فیصلہ ہمیں خود کرنا پڑتا ہے۔ کسی اچھے حکمران کا انتخاب کرنے کے لیے ہمیں پہلے خود اچھا بننا ہو گا۔