کرہ ارض پر نیلے سونے کی حکمرانی
پاکستان جو کبھی پانی کے معاملے میں خود کفیل تھا اس کے بھی زیر زمین پانی کے ذخائر میں بہت زیادہ کمی...
پانی ایک ایسی نعمت ہے جس کے بغیر چرند، پرند، حیوانات، نباتات حتیٰ کہ اشرف المخلوقات بنی آدم بھی اپنی زندگی کی ڈور کو ٹوٹنے سے بچا نہیں سکتا۔ جس خطے میں خدانخواستہ قحط آب کی صورتحال جنم لیتی ہے تو وہاں کی زمین بنجر، لہلاتے کھیت و باغیچے بیابان ہو جاتے ہیں، چرند و پرند نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں، پانی کی بوند بوند کو ترستی خلق انسانی بھی بڑے مان و بڑے چاؤ سے بسائی جانے' والی بستیوں کو خیرباد کہہ دیتی ہے۔
زمینی ماحولیات کو درپیش مسائل میں پانی کی قلت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پانی کو ماہرین ماحولیات کی بڑی تعداد نیلا سونا قرار دیتی ہے۔ تقریباً ایک صدی تک دنیا پر تیل جو بلیک گولڈ کہلاتا ہے اس کی حکمرانی رہی مگر اب اس پر نیلا سونا حکمرانی کرے گا۔ مستقبل میں معاشروں کی ٹوٹ پھوٹ اور قوموں کے بیچ تصادم کی وجہ پانی ہو سکتا ہے۔ دنیا کی تہذیبوں کا ارتقا دریاؤں کے کنارے آبادیوں کے پڑاؤ سے شروع ہوا۔
مصر کو دریائے نیل کا تحفہ کہا جاتا ہے۔ عراق کے دریاؤں کے کناروں سے بہت سی تہذیبیں جنم لیتی رہی ہیں۔ ہندوستان میں دریائے سندھ، گنگا اور برہم پترا نے یہاں کی تہذیبوں کو جنم دیا۔ اٹلی میں دریائے ٹائبر، آسٹریا میں دریائے ڈینیوب، جرمنی میں دریائے ایلب اور رہائن، فرانس میں دریائے سین اور رہون کے کنارے پھلتے پھولتے رہے۔
یونانیوں نے بحیرہ روم، بحیرہ اسود اور بحیرہ بوسین کے ساحلوں پر اپنی نو آبادیات قائم کر لیں۔ پانچ ہزار سال قبل تہذیب یافتہ قوموں نے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مصنوعی جھیلیں، تالاب اور نہری نظام تعمیر کرنے کے طریقے ایجاد کر لیے تھے۔
پاکستان کے آبی وسائل کو ہم صحیح طور پر بروئے کار نہیں لا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے پانی کی کثیر مقدار ضایع ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل عالمی ماہرین نے نشاندہی کی تھی، ایک طرف پاکستان دوسرے ممالک سے اربوں ڈالر کا قرض انتہائی سخت شرائط پر حاصل کر رہا ہے مگر دوسری طرف وہ اربوں ڈالر ضایع کر رہا ہے۔
پاکستان جو کبھی پانی کے معاملے میں خود کفیل تھا اس کے بھی زیر زمین پانی کے ذخائر میں بہت زیادہ کمی واقع ہو چکی ہے اور پانی کی کمیابی کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ پاکستان میں پانی کا استعمال اتنا زیادہ نہیں ہوتا جتنا کہ پانی ضایع کر دیا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف بھی کہہ چکے ہیں کہ چند سال میں پاکستان میں پانی کا قحط ہو گا، پانی و بجلی کا بحران ماضی کی بدانتظامی کا نتیجہ ہے، بجلی کی قلت پر اگلے 3 سال میں قابو پا لیں گے لیکن پانی کا بحران 3 سال میں ختم نہیں ہو سکتا۔
یہ حقیقت ہے کہ بجلی و گیس کے بعد ملک میں آیندہ بحران پانی کا ہوگا لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا، اس بحران سے بچنے کی کوئی تیاری نہیں کی گئی، ملک میں ہر برس سیلاب آتے ہیں لیکن پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات نہیں، دہشتگردی اور پانی بحران سمیت تمام مسائل پر قومی اتفاق رائے ہونا چاہیے لیکن آبی ذخائر کا معاملہ سیاست کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے۔
ضرورت صرف معاملات کو پوری طرح سمجھنے اور قومی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے حب الوطنی کے ساتھ ٹھوس اور جرأت مندانہ فیصلے کرنے کی ہے۔
دنیا بھر میں موسم جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، اس صورتحال میں مستقل قریب میں کسی تبدیلی یا بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دنیا میں تعمیرات کی صنعت تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ مکانات بن رہے ہیں، زمین کو مصنوعی طریقے سے سیراب کیا جا رہا ہے، مزید کنکریٹ تیار کیے جا رہے ہیں اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی استعمال ہو رہا ہے۔
قدرت کی طرف سے ملنے والی اس نعمت کو اپنی دسترس میں رکھنے کے لیے انسان ازل سے کوشش کر رہا ہے۔ ماضی کی طرح مستقبل میں ممکنہ تنازعات کا باعث بننے والی زندگی کی اس بنیادی ضرورت سے پیدا ہونے والی کشیدگی کی ایک بڑی وجہ بھی پانی کا غیر منصفانہ استعمال ہے۔ پانی کے غیر منصفانہ استعمال کے علاوہ بعض ممالک کے درمیان دریاؤں کے راستے بھی کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق دنیا میں 263 ایسے دریا ہیں جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ ان میں سے 59 دریا افریقا، 58 ایشیا، 73 یورپ اور 7 شمالی امریکا میں بہتے ہیں۔ دنیا میں 145 ممالک ایسے ہیں جن کی سرحد سے دریا نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت بھی ان ہی ممالک میں شامل ہیں جب کہ ان 263 دریاؤں کا ایک تہائی حصہ دو سے زائد ممالک کے درمیان رہتا ہے۔
ان ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم پر آئے دن تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں جن کا کوئی مستقل حل نہیں۔ پانی کا بے دریغ اور ضرورت سے زیادہ استعمال انسان کو پانی کے زیر زمین ذخائر پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ایسے وقت جب تیل اور تیل کے ذخائر پر اجارہ داری قائم کرنے کی جنگ جاری ہے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت پڑوسی ملک بھارت ہے۔ جو دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہونے کے باوجود اس کی پاسداری کرنے کے بجائے خلاف ورزی کرتے ہوئے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کے حصے کا پانی روک کر اس کے سرسبز کھیتوں کھلیانوں کو صحرا میں بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بھارت دریائے سندھ پر بھی مزید تین ڈیم بنانے جا رہا ہے، اگر ان منصوبوں پر عملدرآمد ہو گیا تو یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا، ان ڈیمز کے نام نموبازگو، دمکھڑ اور چوٹک ہیں۔
نموبازگو ڈیم بھارت کے علاقے میں لیہ کے قریب بنایا جائے گا، بلکہ اس منصوبے پر کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے، چوٹک ڈیم دریائے سورد پر بنے گا۔ اگر ان ڈیمز میں قصداً زیادہ مقدار میں پانی چھوڑا گیا تو یہ نہ صرف ہمارے مجوزہ بھاشا ڈیم کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ اسکردو شہر، اسکردو ایئرپورٹ اور قراقرم ہائی وے کو بھی بہا لے جائے گا۔
اس حوالے سے پاکستان بھارت سے احتجاج کے بعد عالمی عدالت انصاف سے انصاف کے لیے رجوع کرچکا ہے جہاں تاحال اس پر کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو پائی اور نہ ہی پاکستان کے تحفظات دور ہو سکے ہیں۔
اقوام متحدہ نے پینے کے صاف پانی کی اہمیت کو اجاگر اور اس کے وسائل کے پائیدار انتظام کی حمایت کے مقصد کے لیے 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو عالمی یوم آب منانے کا آغاز کیا تھا لیکن بڑے اور ترقی یافتہ ممالک اقوام متحدہ کے کنٹرول میں نہیں، لہذا یوم آب منانے کا ان پر کیا اثر ہو گا؟ رہ گئے غریب اور ترقی پذیر ممالک تو ان کی سمجھ میں ''یوم آب'' کا صرف ایک مطلب آتا ہے کہ آیندہ جنگیں اب پانی کی اجارہ داری پر ہوا کریں گی۔ ترقی پذیر ممالک کو اب ان جنگوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی پالیسی ساز موسمیاتی تغیرات کا سائنسی مشاہدہ کریں، پاکستان میں پانی کی قلت کا سائنٹیفک اندازہ لگایا جائے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ پانی کے تنازعات حل کیے جائیں۔
اس ضمن میں عالمی برادری کو اپنے موقف سے آگاہ کیا جائے تاہم عالمی برادری پانی کی قلت سے متعلق پاکستان کا موقف تب ہی سنے گی جب پاکستان پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز کی طرف توجہ دے اور پانی کے زیاں کو روکنے کے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ پانی کا مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے، اگر ہمیں آیندہ چند برسوں میں بوند بوند ترسنے سے بچنا ہے تو چاروں صوبوں کو اعتماد میں لے کر بڑے ڈیمز بنانے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینی ہو گی۔
زمینی ماحولیات کو درپیش مسائل میں پانی کی قلت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پانی کو ماہرین ماحولیات کی بڑی تعداد نیلا سونا قرار دیتی ہے۔ تقریباً ایک صدی تک دنیا پر تیل جو بلیک گولڈ کہلاتا ہے اس کی حکمرانی رہی مگر اب اس پر نیلا سونا حکمرانی کرے گا۔ مستقبل میں معاشروں کی ٹوٹ پھوٹ اور قوموں کے بیچ تصادم کی وجہ پانی ہو سکتا ہے۔ دنیا کی تہذیبوں کا ارتقا دریاؤں کے کنارے آبادیوں کے پڑاؤ سے شروع ہوا۔
مصر کو دریائے نیل کا تحفہ کہا جاتا ہے۔ عراق کے دریاؤں کے کناروں سے بہت سی تہذیبیں جنم لیتی رہی ہیں۔ ہندوستان میں دریائے سندھ، گنگا اور برہم پترا نے یہاں کی تہذیبوں کو جنم دیا۔ اٹلی میں دریائے ٹائبر، آسٹریا میں دریائے ڈینیوب، جرمنی میں دریائے ایلب اور رہائن، فرانس میں دریائے سین اور رہون کے کنارے پھلتے پھولتے رہے۔
یونانیوں نے بحیرہ روم، بحیرہ اسود اور بحیرہ بوسین کے ساحلوں پر اپنی نو آبادیات قائم کر لیں۔ پانچ ہزار سال قبل تہذیب یافتہ قوموں نے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مصنوعی جھیلیں، تالاب اور نہری نظام تعمیر کرنے کے طریقے ایجاد کر لیے تھے۔
پاکستان کے آبی وسائل کو ہم صحیح طور پر بروئے کار نہیں لا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے پانی کی کثیر مقدار ضایع ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل عالمی ماہرین نے نشاندہی کی تھی، ایک طرف پاکستان دوسرے ممالک سے اربوں ڈالر کا قرض انتہائی سخت شرائط پر حاصل کر رہا ہے مگر دوسری طرف وہ اربوں ڈالر ضایع کر رہا ہے۔
پاکستان جو کبھی پانی کے معاملے میں خود کفیل تھا اس کے بھی زیر زمین پانی کے ذخائر میں بہت زیادہ کمی واقع ہو چکی ہے اور پانی کی کمیابی کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ پاکستان میں پانی کا استعمال اتنا زیادہ نہیں ہوتا جتنا کہ پانی ضایع کر دیا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف بھی کہہ چکے ہیں کہ چند سال میں پاکستان میں پانی کا قحط ہو گا، پانی و بجلی کا بحران ماضی کی بدانتظامی کا نتیجہ ہے، بجلی کی قلت پر اگلے 3 سال میں قابو پا لیں گے لیکن پانی کا بحران 3 سال میں ختم نہیں ہو سکتا۔
یہ حقیقت ہے کہ بجلی و گیس کے بعد ملک میں آیندہ بحران پانی کا ہوگا لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا، اس بحران سے بچنے کی کوئی تیاری نہیں کی گئی، ملک میں ہر برس سیلاب آتے ہیں لیکن پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات نہیں، دہشتگردی اور پانی بحران سمیت تمام مسائل پر قومی اتفاق رائے ہونا چاہیے لیکن آبی ذخائر کا معاملہ سیاست کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے۔
ضرورت صرف معاملات کو پوری طرح سمجھنے اور قومی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے حب الوطنی کے ساتھ ٹھوس اور جرأت مندانہ فیصلے کرنے کی ہے۔
دنیا بھر میں موسم جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، اس صورتحال میں مستقل قریب میں کسی تبدیلی یا بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دنیا میں تعمیرات کی صنعت تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ مکانات بن رہے ہیں، زمین کو مصنوعی طریقے سے سیراب کیا جا رہا ہے، مزید کنکریٹ تیار کیے جا رہے ہیں اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی استعمال ہو رہا ہے۔
قدرت کی طرف سے ملنے والی اس نعمت کو اپنی دسترس میں رکھنے کے لیے انسان ازل سے کوشش کر رہا ہے۔ ماضی کی طرح مستقبل میں ممکنہ تنازعات کا باعث بننے والی زندگی کی اس بنیادی ضرورت سے پیدا ہونے والی کشیدگی کی ایک بڑی وجہ بھی پانی کا غیر منصفانہ استعمال ہے۔ پانی کے غیر منصفانہ استعمال کے علاوہ بعض ممالک کے درمیان دریاؤں کے راستے بھی کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق دنیا میں 263 ایسے دریا ہیں جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ ان میں سے 59 دریا افریقا، 58 ایشیا، 73 یورپ اور 7 شمالی امریکا میں بہتے ہیں۔ دنیا میں 145 ممالک ایسے ہیں جن کی سرحد سے دریا نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت بھی ان ہی ممالک میں شامل ہیں جب کہ ان 263 دریاؤں کا ایک تہائی حصہ دو سے زائد ممالک کے درمیان رہتا ہے۔
ان ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم پر آئے دن تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں جن کا کوئی مستقل حل نہیں۔ پانی کا بے دریغ اور ضرورت سے زیادہ استعمال انسان کو پانی کے زیر زمین ذخائر پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ایسے وقت جب تیل اور تیل کے ذخائر پر اجارہ داری قائم کرنے کی جنگ جاری ہے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت پڑوسی ملک بھارت ہے۔ جو دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہونے کے باوجود اس کی پاسداری کرنے کے بجائے خلاف ورزی کرتے ہوئے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کے حصے کا پانی روک کر اس کے سرسبز کھیتوں کھلیانوں کو صحرا میں بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بھارت دریائے سندھ پر بھی مزید تین ڈیم بنانے جا رہا ہے، اگر ان منصوبوں پر عملدرآمد ہو گیا تو یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا، ان ڈیمز کے نام نموبازگو، دمکھڑ اور چوٹک ہیں۔
نموبازگو ڈیم بھارت کے علاقے میں لیہ کے قریب بنایا جائے گا، بلکہ اس منصوبے پر کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے، چوٹک ڈیم دریائے سورد پر بنے گا۔ اگر ان ڈیمز میں قصداً زیادہ مقدار میں پانی چھوڑا گیا تو یہ نہ صرف ہمارے مجوزہ بھاشا ڈیم کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ اسکردو شہر، اسکردو ایئرپورٹ اور قراقرم ہائی وے کو بھی بہا لے جائے گا۔
اس حوالے سے پاکستان بھارت سے احتجاج کے بعد عالمی عدالت انصاف سے انصاف کے لیے رجوع کرچکا ہے جہاں تاحال اس پر کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو پائی اور نہ ہی پاکستان کے تحفظات دور ہو سکے ہیں۔
اقوام متحدہ نے پینے کے صاف پانی کی اہمیت کو اجاگر اور اس کے وسائل کے پائیدار انتظام کی حمایت کے مقصد کے لیے 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو عالمی یوم آب منانے کا آغاز کیا تھا لیکن بڑے اور ترقی یافتہ ممالک اقوام متحدہ کے کنٹرول میں نہیں، لہذا یوم آب منانے کا ان پر کیا اثر ہو گا؟ رہ گئے غریب اور ترقی پذیر ممالک تو ان کی سمجھ میں ''یوم آب'' کا صرف ایک مطلب آتا ہے کہ آیندہ جنگیں اب پانی کی اجارہ داری پر ہوا کریں گی۔ ترقی پذیر ممالک کو اب ان جنگوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی پالیسی ساز موسمیاتی تغیرات کا سائنسی مشاہدہ کریں، پاکستان میں پانی کی قلت کا سائنٹیفک اندازہ لگایا جائے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ پانی کے تنازعات حل کیے جائیں۔
اس ضمن میں عالمی برادری کو اپنے موقف سے آگاہ کیا جائے تاہم عالمی برادری پانی کی قلت سے متعلق پاکستان کا موقف تب ہی سنے گی جب پاکستان پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز کی طرف توجہ دے اور پانی کے زیاں کو روکنے کے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ پانی کا مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے، اگر ہمیں آیندہ چند برسوں میں بوند بوند ترسنے سے بچنا ہے تو چاروں صوبوں کو اعتماد میں لے کر بڑے ڈیمز بنانے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینی ہو گی۔