انسانیت ہتھیار ڈالے بیٹھی ہے
لیکن اس پیاری بچی کی شکل روہانسی کیوں ہے؟ اس کے چہرے کی معصومیت وحشت کے پیچھے چُھپ سی کیوں گئی ہے؟ اس کی آنکھوں میں خوف کیوں نظر آرہا ہے؟ پریشانی کے آثار کیوں نظر آرہے ہیں؟ اور اس پھول سی بچی نے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں کیوں بلند کئے ہوئے ہیں؟ اور ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ بچی نے زور زور سے رونے کی خواہش کو خوف کے مارے دبا رکھا ہے؟ اس کی ہوا میں اُٹھی ہوئی ننھی مُٹھیاں بھینچی ہوئی کیوں ہیں؟ پس منظر میں نیلے رنگ کے خیموں کی طنابیں اور بنجر سی زمین ہے۔ یہ بچی اس ویرانے میں کر کیا رہی ہے؟ ہزاروں سوالات ایک ساتھ دماغ سے گزرے۔ تصویر تھی ہی اتنی غیر معمولی۔
انٹرنیٹ پر مزید مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ تصویر شورش اور فساد زدہ ملکِ شام سے کھینچی گئی ہے۔ تصویر نکالنے والاشخص عثمان سگرلی ایک فوٹو جرنلسٹ ہے، یعنی ایسا صحافی جو تصویروں اور مختصر لفظوں کے ذریعے کہانیاں بیان کرتا ہے۔ یہ تصویر گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں مہاجرین کے لئے قائم ایک خیمہ بستی میں کھینچی گئی تھی۔
تصویر کھیچنے والے ترک فوٹو جرنلسٹ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ معصوم اور پیاری بچی نے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں اس لئے اُٹھائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ فوٹوگرافر کے ہاتھوں میں موجود کیمرے پر چڑھے ہوئے ٹیلی فوٹو عدسے (لینس) کو بندوق سمجھ بیٹھی تھی۔ شورش زدہ ملک میں پیدا ہونے والی بچی کو معلوم تھا کہ بندوق نما اوزاروں کے سامنے ہاتھ اُٹھا کر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اسے معلوم تھا کہ ہاتھ نہ اُٹھانے اور ہتھیار نہ ڈالنے کا مطلب اپنی موت کو خود ہی دعوت دینا۔ مزید پڑھا تو معلوم ہوا کہ خوفناک آگہی اور دلیرانہ سنجیدگی کے اس مقام پرپہنچی ہوئی بچی کی عمر محض چار سال ہے۔
محض چند ماہ بڑی اس بچی کو دیکھنے کے بعد غیر ارادی موازنے کے ساتھ ہی میرے بیٹے کی تصویر میری آنکھوں کے سامنے آگئی، میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، مجھے اس بچی کی تصویر میں اپنا بیٹا نظر آیا، اور میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔
کون ہے آخر یہ بچی اور یہ کیمرے اور عدسے کو ہتھیار کیوں سمجھ بیٹھی تھی؟ اور اس سے بھی بڑھ کر، اس چار سالہ بچی کو یہ کیسے معلوم تھا کہ ہھتیار دیکھنے کے بعد ہاتھ اُوپر اُٹھانے پڑتے ہیں؟
تصویر میں موجود بچی کا نام عدی ہُودیا ہے۔ اس کے والد چند سال قبل بمباری کے دوران موت کا شکار ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سے وہ پیاری اور معصوم بچی جس کی تصویر آج کل دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو اشکبار کرتے ہوئے گردش کررہی ہے، اپنے گھر سے بے دخل ایک خیمہ بستی میں اپنی ماں اور دوبہن بھائیوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ زندگی کے چار سالوں میں ہی ہودیا نے اپنے ملک میں جنگ و جدل، ہتھیار، خونریزی، بمباری، قتل و غارت ، ہتھیار ڈالنے، ہاتھ اُٹھانے، مرنے، مارے جانے اور خوف، وحشت اور بربریت کی مثالیں دیکھی تھی یا پھر ان کے متعلق سُنا تھا۔ تلخ تجربات اور وقت نے ہودیا کو اس کے عمر سے کہیں گُنا بڑا بنادیا تھا۔
خوف، وحشت اور پریشانی کی یہ داستان صرف شام کی ہودیا ہی کی نہیں بلکہ افغانستان، عراق، پاکستان، فلسطین ، لیبیا، یوکرین ، سوڈان اور دنیا کے دیگر جنگ زدہ ممالک میں رہنے والی کروڑوں بچیوں اور بچوں کی بھی ہے۔ کچھ ایسی ہی داستان پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے والے بچوں کی بھی تھی، جن کے ساتھیوں کو انتقام کے نام پر گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا۔ یہی داستان ان بچوں کی بھی ہے جو ڈرونز، ہیلی کاپٹرز، جنگی طیاروں اور توپوں کی گھن گرج سے ذہنی امراض کا شکار ہوگئے ہیں، یا اپنے پاؤں، ہاتھ اور جسم کے دیگر اعضا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہوچکے ہیں۔ یہ داستان ان کی بھی ہے جن کے اسکولوں کو بموں سے اُڑایا دیا گیا ہے ، یا جن پر گولیاں برسائی گئی ہیں ۔
چار سالہ ہودیا کی خوبصورت آنکھوں میں معصوم شرارتی مسکراہٹ کے بجائے خوف کے سائے اس لئے لہرا رہے ہیں کیونکہ اس کے ملک میں مختلف گروہ اپنی قوت، اپنے نظریات اور اپنی نفرت کی شدت کے مظاہرے میں مصروف ہیں۔ ہر گروہ کا دعوی ہے کہ ان کی حکومت میں شام جنت نما ملک بن جائیگا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی حکومت میں شام کیا بنے گا، لیکن اقتدار سنبھالنے کی خواہش میں لڑی جانے والی ان کی جنگوں نے ہودیا اور اس کی طرح کے کروڑوں بچوں، بچیوں، عورتوں، مردوں کے لئے شام کوجہنم بنا کر رکھ دیا ہے ۔
ان کی جنگوں نے بچیوں اور بچوں میں اتنا خوف بھر دیا ہے کہ اب انہیں کیمرے اور ان پر لگے عدسے بندوق لگ رہے ہیں اور وہ تصویر اتروانے کے بجائے ہاتھ اُٹھا کر شکست تسلیم کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ نہ جانے مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ہودیا کے ہوا میں اُٹھے ہاتھ اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں کہ انسانیت ہتھیار ڈالے بیٹھی ہے اور بربریت کا عفریت چہار سوں رقصاں ہے۔
[poll id="325"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں