نواب شاہ زلزلوں کی زد میں
نواب شاہ شہر میں صوبائی حکومت اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے سیمینار منعقد ہونے چاہئیں۔
جانے اب کے بہار اتنی مختصر کیوں تھی؟ یہ نہیں کہ صحن چمن میں کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوا اور گل و بلبل کی داستان پارینہ دہرائی نہیں گئی۔ یا نسیم سحر کے جھونکوں نے ادھ کھلی، شرمائی ہوئی کلیوں کے گھونٹ نہیں الٹے۔ یہ سب کچھ تو ہوا، لیکن پھر بھی بہار اب کے برس کچھ معمول سے مختصر ہی تھی۔
وہ ایک نوخیز حسینہ کی طرح آمادہ رقص تو ہوئی لیکن ابھی اس کے احمریں ہونٹوں سے گیت کا پورا بول بھی نہیں نکلا تھا اور اس کے پائل کے جھنکار نے ابھی پجاریوں کو بیدار بھی نہیں کیا تھا کہ دفعتاً وقت کے بوڑھے دیوتا نے برہم ہو کر پردہ گرا دیا۔ اور یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہو گیا کہ کسی ذی روح کو یہ تک معلوم نہ ہو سکا کہ کب سرما کی ٹھٹھرتی ہوئی دیوی رخصت ہوئی اور کب گرمی اپنے نیم عریاں انداز سے بڑھ کر چھا گئی۔
ویسے مجھے گرمی بہت راس ہے۔ اگرچہ مزاج بلغمی نہیں۔ بات یہ ہے کہ میں زندگی کے کسی پہلو سے آشنا ہونے کے لیے اس بات کا متمنی ہوتا ہوں کہ یہ پہلو کم ازکم اتنا عرصہ ضرور قائم رہے کہ میں اس کی تمام تر کیفیات کا مطالعہ کرسکوں۔
مثلاً پچھلے 10 ماہ سے میرا شہر نواب شاہ زلزلوں کی زد میں ہے۔ اب تک قریب کوئی 9 جھٹکے شہر برداشت کر چکا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پہلا جھٹکا پچھلے سال مئی میں آیا جس کا دورانیہ 15 سیکنڈ اور مرکز نواب شاہ سے ملحقہ تعلقہ دوڑ کا ایک قصبہ ''منہڑہ'' تھا۔ جو نواب شاہ سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 5.3 ریکارڈ کی گئی۔
کیونکہ رات کے 3 بجے تھے تو لہٰذا لوگ تو کیا عمارتیں بھی اونگھ رہی تھیں۔ لیکن چشم زدن میں شہر بیدار ہو گیا۔ سب کو ہوش آ گیا۔ جھٹکا شدید تھا۔ ہر چیز متحرک ہو گئی۔ زلزلہ تھم گیا لیکن نماز فجر تک اس کے 3 مزید آفٹر شاکس آئے۔ لوگوں نے مساجد کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس قدر تعداد کہ کمروں سے لے کر صحن تک میں مزید کے لیے گنجائش نہ رہی۔ خوش قسمتی سے میں جگہ حاصل کرنے والوں میں شامل تھا۔
امام مسجد نے بعد از سنت نماز جماعت کی ابتدا کی۔ اور بہت خشوع و خضوع کے ساتھ پہلی رکعت ختم کی ہی تھی کہ تیسرا آفٹر شاک نمودار ہوا۔ زمین پھر لرزنے لگی۔ اور میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ جو زلزلے کی مصیبت سے پناہ لینے کی غرض سے اللہ کے گھر آئے تھے۔ ان میں سے کئی نیت توڑ کر مسجد سے بھاگ لیے۔ شاید انھیں بھروسہ نہیں تھا۔
بہرحال وقت گزر گیا۔ اور ابھی 4 روز قبل جب میں ایک آرٹیکل لکھنے کی ابتدا کر رہا تھا۔ زلزلہ پھر نمودار ہوا۔ اور صرف3 سیکنڈ دورانیئیکا۔ Rector Scale پر اگرچہ یہ 3.4 ریکارڈ ہوا، لیکن گنتی میں یہ مئی 2014ء سے لے کر اب تک 10 واں تھا۔ یہ قابل فکر اور قابل تشویش ہے۔ اس کی جانچ پڑتال حکومتی سطح پر ہونی چاہیے۔
نواب شاہ شہر میں صوبائی حکومت اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے سیمینار منعقد ہونے چاہئیں۔ جو پہلے تو اس کے اسباب کی کھوج کریں کہ زلزلے کے جھٹکے صرف شہری حدود میں ہی کیوں آ رہے ہیں۔ اس کے قرب و جوار میں نہیں۔ جو حیران کن ہے۔ ملک بھر سے معروف جیولوجسٹ کو مدعو کیا جائے جو شہر کے باسیوں کو اچانک زلزلہ آ جانے کے بعد فوری حفاظتی تدابیر اختیار کرنے سے متعلق آگاہی فراہم کریں۔ ظاہر ہے کہ Earth Quack کی پیشگی اطلاع دینا ممکن نہیں۔ لیکن جب وہ آ چکا ہو تو کیا کرنا چاہیے؟ اس بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہوں گے! آئیے! میں کچھ لوگوں سے اپنی ملاقات کی تفصیل سے آپ کو آگاہ کروں۔
مثلاً ایک دوست جو بینک منیجر ہیں کا خیال تھا کہ یہ سب زرداری کا کیا دھرا ہے۔ جس نے نواب شاہ ضلع کا نام بدل کر ''ضلع شہید بے نظیر آباد'' رکھ دیا۔ لہٰذا ایک شہادت اب مزید شہادتوں کی متقاضی ہے۔
منیجر صاحب نے اس ضمن میں مجھے دولت پور بچوں کی وین حادثے میں ہلاکتوں سمیت مختلف واقعات ضلع کا نام تبدیل ہونے کے بعد سے سنائے اور اپنی دانست میں انھوں نے مجھ پر اپنے گمان کو یقین سے بدل دیا۔ ایک صاحب کی رائے کے مطابق نواب شاہ میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر کا انکشاف ہونے کے بعد Drilling کی جا رہی ہے۔
جس سے زمین لرزہ براندام ہے۔ کوئی فکر کی بات نہیں۔ ایک دوست جو Teacher ہیں کہتے ہیں کہ کوئی زلزلہ نہیں سب امریکا اور ایجنسیز کا کیا دھرا ہے۔ ایک ملنے والے جو Local ہیں کا خیال ہے کہ آرمی نے بڑی مقدار میں اسلحہ زیر زمین دبایا ہوا ہے۔ جس کے کارن اٹھنے والی گیس ہے زلزلہ نہیں۔ کچھ نے کہا جب بھی جیٹ طیارے شہر کی فضا میں پرواز کرتے ہیں زلزلے کا جھٹکا لگتا ہے۔ ایک تعداد کا کہنا ہے کہ نواب شاہ میں خفیہ طور پر ایٹمی تجربات کیے جا رہے ہیں جن کے باعث جنبش زمین ہے۔لیکن زلزلہ نہیں۔
یہ اور اسی سے مشابہہ بہت سے تبصرے جو ان دنوں شہر کی گلیوں، محلوں میں کہیں سرگوشی یعنی ایک کا منہ دوسرے کا کان اور کہیں اعلانیہ اپنی قابل فخر معلومات پر اتراتے، کندھے اچکاتے جاری و ساری ہیں۔ ہاں ایک دینی بزرگ کی رائے میں بھول گیا تھا۔ جن کے واشگاف الفاظ ہیں ''نواب شاہ'' کی زمین پر بدترین ظلم ہو رہے ہیں۔
زکوٰۃ ادا نہیں کی جا رہی، مدارس میں کھل کر چندہ نہیں دیا جا رہا۔ لوگ بخیلی پر اتر آئے ہیں۔ اور آخری فتوے کے طور پر وہ فرماتے ہیں کہ زرداری گورنمنٹ کی کرپشن کی وجہ سے شہر پر بھیانک مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں۔
تو قارئین کرام! یہ ہیں اہل نواب شاہ کی آراء و تبصرے۔ جن سے بہت صاف ظاہر ہے کہ کوئی کچھ نہیں جانتا۔ کسی کو یا زیادہ تر کو زلزلے سے متعلق معلومات نہیں۔ لیکن معاملہ حساس ہے۔ اور خدا نخواستہ اگر حکومت سندھ و ضلع انتظامیہ نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو تین لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل یہ شہر کسی دن بدترین تباہی، شاید ''موہن جو دڑو'' جیسی تباہی سے دوچار ہوسکتا ہے۔
مجھے تسلیم ہے کہ زلزلے کسی کو بتائے بغیر آ جاتے ہیں اور ان کی پیشگی اطلاع دینا ممکن نہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلسل جھٹکوں نے یہاں آباد لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ آپ ان کی کم ازکم مدد یہ کر سکتے ہیں کہ ماہرین زلزلہ کو یہاں بلوائیے اور ایک بڑی Gathering میں لوگوں تک درست صورتحال پہنچائیں۔
انھیں Educate کریں کہ کسی بھی قدرتی، زمینی آفت کے نزول کے بعد انھیں کرنا کیا ہے۔ کیا کیا حفاظتی تدابیر ممکن ہیں؟ اور انھیں صاف صاف بتائیے کہ یہ زلزلہ ہے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ اس طرح ایک جگہ رکھا ہوا خوف تقسیم ہو جائے گا تو انھیں میرا جواب ہے کہ تعلیم بہرحال برے وقت کا سہارا ہوتی ہے۔ اور ہمیشہ سے ہے۔ صرف 10 ماہ کی مدت کے دوران زلزلے کے 10 جھٹکے لمحہ فکریہ ہیں۔
ایک ناقابل تلافی نقصان کا عکاس ہیں۔ مجھے تو حیرت ہے اور افسوس ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ بالخصوص زرداری جو یہاں کے رہائش کنندہ ہیں اور حاکم ہیں۔ ایک آخری بات یہ ہے کہ رعایا ہو گی تو آپ بادشاہ ہوں گے۔ ورنہ کیا صحرا کی ریت پر حکومت کا ارادہ ہے؟