معالج بنے ہیں موت کے ہرکارے میڈیکل اسٹورز پر جعلی ادویات کی کھلے عام فروخت
ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کی پراسرار خاموشی
لاڑکانہ میں زندگی بچانے والی ادویات کے نام پر شہر کے ڈھائی سو سے زائد میڈیکل اسٹورز میں سے بیشتر پر زائدالمیعاد، ناقص اور جعلی ادویات کا کاروبار کھلے عام جاری ہے۔ جس کے باعث بیشتر شہری موت کا شکار ہوچکے ہیں اور باقی کی زندگی بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
اس اہم مسئلے پر ایکسپریس نے جامع سروے کیا تو انتہائی شرم ناک حقائق کا انکشاف ہوا۔ شہر کے بیشتر میڈیکل اسٹورز ادویات کو مطلوبہ معیار کے تحت محفوظ نہ رکھ کر جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور حکومت پاکستان کے محکمہ صحت کے مطابق ہر میڈیکل اسٹور پر لازم ہے کہ وہ مستند افراد کو ملازم رکھیں، ادویات کو دھوپ سے بچائیں، ڈیپ فریزر کا استعمال کریں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنے کے علاوہ ہر دوا کو تیس سینٹی گریڈ تک محفوظ بنائیں تاہم اس معیار کا خیال نہیں رکھا جارہا جس سے ادویات بے اثر ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس سے بیماریاں خطرناک حد تک بڑھنے کا تناسب تیس فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔
لاڑکانہ میں ڈھائی سو کیمسٹ ڈیلر، بیس ڈسٹری بیوٹر اور چالیس ہول سیلرز ہیں جو صرف لاڑکانہ میں ماہانہ تیس کروڑ روپے کی ادویات فروخت کرتے ہیں۔ ان کی کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن بھی قائم ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق مذکورہ یونین کی جانب سے ہر چھے ماہ بعد ڈیلر سے ایک ہزار، ہول سیلر سے تین ہزار اور ڈسٹری بیوٹرز سے پانچ ہزار فی کس وصول کیا جاتا ہے جس سے ڈویژنل اور ضلعی ڈرگ انسپکٹر کو ہر چھے ماہ میں دو، دو لاکھ روپے رشوت دی جاتی ہے جس کے عوض وہ کسی بھی میڈیکل اسٹور، ڈیلرز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کے خلاف شکایت ملنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ گذشہ تیس برسوں میں اس سے جڑی شکایات کے متعلق حکومت پاکستان کی قائم کوالٹی کنٹرول کورٹ میں لاڑکانہ سے صرف چار مقدمات چلے ہیں جن میں سے دو کو جعلی اور زایدالمیعاد ادویات کے حوالے سے معمولی جرمانے کی سزا دی گئی۔ اس سنگین صورت حال میں گذشتہ آٹھ ماہ سے ڈویژنل ڈرگ انسپکٹر کی نشست خالی ہونا حکومت اور محکمہ صحت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے جب کہ ضلعی ڈرگ انسپکٹر کی کارکردگی بھی صفر ہے۔ دواؤں کی فروخت میں دواساز اداروں کے نمایندوں اور ڈاکٹرز کا بھی اہم کردار ہے۔ تاہم یہاں بھی شرم ناک صورت حال سامنے آئی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دواؤں کے فروخت کار نمایندے نے بتایا کہ پاکستان میں بننے والی ادویات پر تیس فی صد لاگت جب کہ ستر فی صد منافع ہوتا ہے، جس میں پچیس سے تیس فی صد ڈاکٹرز، پانچ فی صد سیمپل، دس فی صد ڈسٹری بیوٹر، ٹریڈ پرائس سے ریٹیل پرائس تک پندرہ فی صد میڈیکل اسٹورز کو دیا جاتا ہے۔ جب کہ ملٹی نیشنل کمپنیز نہ صرف فروخت کار نمایندوں کو پرکشش تنخواہیں بلکہ ڈاکٹرز کو دوا کا نسخہ لکھ کر دینے کی مد میں ڈسکاؤنٹ کے ساتھ منہگے طبی آلات، بیرون ممالک کے دورے، گاڑیاں، ائرکنڈیشنز اور یوٹیلٹی بلز اور پیشگی نقد بھی مہیا کرتی ہیں۔ اس وقت پاکستان بھر میں ایسی کوئی کمپنی موجود نہیں جو کہ بنا فوائد دیے مارکیٹ میں اپنا کاروبار جاری رکھ سکے۔
تمام کمپنیوں کی یہ روش مریضوں کے لیے تکالیف کا باعث ہے کیوںکہ ڈاکٹرز ایک دوا کے اثر نہ کرنے پر مریض کو دوسری دوا لکھ دیتے ہیں، یوں مریضوں پر تجربہ جاری ہے، یہاں تک کہ بیشتر ڈاکٹرز نے خود ہی مختلف کمپنیز سے70فی صد منافع پر فرینچائز حاصل کرکے کاروبار شروع کر دیا ہے۔ طب سے وابستہ ایک فرد نے انکشاف کیا کہ ٹارگیٹ پورا کرنے کے لیے ڈاکٹرز نے کئی مرتبہ فوت ہوئے مریضوں کو بھی ہزاروں روپے کے منہگے انجیکشن لگائے۔ دوسری جانب اتائی ڈاکٹرز شہر کے نظر محلہ ، لوہر کالونی، میروخان چوک، گجن پور، کوثر مل محلہ اور گردونواح میں کلینک قائم کرکے نہ صرف علاج کرتے ہیں بلکہ کئی تو آپریشن بھی کر رہے ہیں۔
ماضی میں کئی مریض آپریشن کے دوران اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ تاہم ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر، ڈرگ انسپکٹر اور ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ چانڈکا میڈیکل اسپتال کے مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ کے تمام سرکاری اسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مریضوں کو دوا دی جانے کی بوگس پرچیاں بنائی جارہی ہیں اور وہ ادویات شہر کے نجی میڈیکل اسٹورز پر فروخت کرکے لاکھوں روپے ماہانہ کی لوٹ مار کرکے حکومت کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر نجی میڈیکل اسٹورز پر سرکاری ادویات کی فروخت معمول کی بات ہے۔
ذرائع کے مطابق گذشتہ پندرہ دنوں میں چانڈکا میڈیکل اسپتال سے پچیس لاکھ روپے کی ادویات چوری کی گئیں اور انہیں مختلف نجی میڈیکل اسٹورز پر فروخت کیا جا رہا ہے جب کہ اسپتال میں آنے والے مریضوں کو بجٹ نہ ہونے اور ادویات کی قلت کا جواز بنا کر معمولی دوائیں اور انجیکشن بھی اسپتال سے باہر قائم میڈیکل اسٹورز سے خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسپتال انتظامیہ نے ضلعی انتظامیہ اور شہریوں کو بے وقوف بنانے کے لیے مختلف ادویات کے دو طرح کے سیمپل رکھے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ انجیکشن فلیجل جس کی اصل قیمت60 روپے ہے، یہی انجیکشن جو چائنا سے آٹھ روپے میں درآمد کیا جاتا ہے دونوں رکھے جاتے ہیں، جب بھی کوئی بالا افسر وزٹ پر آتا ہے تو اسے اصل دوا دکھائی جاتی ہے جب کہ مریضوں کو عام دوا دے کر لاکھوں روپے کے بوگس بل بنائے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اسپتالوں میں استعمال شدہ سرنجز اور بلڈ بیگس بھی قوانین کے مطابق جلانے کی بجائے فروخت کیے جاتے ہیں جسے دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر بیماریاں بیچی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال کے متعلق میڈیکل سپرنٹینڈنٹ چانڈکا اسپتال ڈاکٹر شفیع اﷲ عباسی نے سرکاری ادویات نجی میڈیکل اسٹورز پر فروخت کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ایسے واقعات ضرور ہوئے ہیں تاہم ان کے دور میں ایسی کوئی ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی، انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اسپتال کے فضلے کو جلانا چاہیے جس کے لیے وہ آئندہ سختی سے احکامات جاری کررہے ہیں تاکہ ہر قسم کی خرید و فروخت روکی جاسکے۔
کمشنر لاڑکانہ ڈاکٹر سعید احمد نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہیں نہ صرف میڈیکل اسٹورز پر سرکاری ادویات کے فروخت کیے جانے بلکہ سرکاری اسپتالوں میں بھی غیر معیاری ادویات کے استعمال کی شکایات موصول ہوئی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری درخواست پر سندھ حکومت نے تمام سرکاری اسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کو ادویات کی خود خریداری سے روکتے ہوئے اچھی شہرت رکھنے والی کمپنیز سے ٹینڈر طلب کیے ہیں اور اب سندھ حکومت بیشتر دوائیں خود خرید کر ہر ضلع کے اسپتالوں کو فراہم کرے گی، انہوں نے کہا کہ غیر معیاری ادویات کی خرید و فروخت کی روک تھام کے لیے محکمہ صحت سے رپورٹ طلب کر رہے ہیں جب کہ ڈرگ انسپکٹر کو بھی ایک ہفتے میں کارکردگی رپورٹ مرتب کرکے دینے کے احکامات دیتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر مسعود احمد بھٹو کو انکوائری آفیسر بنایا ہے جو محکمہ صحت اور میری مانیٹرنگ ٹیم کے ساتھ وزٹ کر کے رپورٹ دیں گے۔
ڈاکٹر سعید احمد کا مزید کہنا تھا کہ اسی نوعیت کی شکایت پر چند دن قبل انہوں نے غیر رجسٹرڈ بلڈ بینکس اور لیبارٹریز پر چھاپے مارے اور دو کو سیل بھی کیا تھا، اسی طرح ان تمام میڈیکل اسٹورز مالکان کے خلاف کارروائی کے احکامات دے رہے ہیں جو قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جب کہ ڈرگسٹ اینڈ کیمسٹ ایسوسی ایشن سے بھی میٹنگ کر کے بات چیت کی جائے گی۔
اس اہم مسئلے پر ایکسپریس نے جامع سروے کیا تو انتہائی شرم ناک حقائق کا انکشاف ہوا۔ شہر کے بیشتر میڈیکل اسٹورز ادویات کو مطلوبہ معیار کے تحت محفوظ نہ رکھ کر جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور حکومت پاکستان کے محکمہ صحت کے مطابق ہر میڈیکل اسٹور پر لازم ہے کہ وہ مستند افراد کو ملازم رکھیں، ادویات کو دھوپ سے بچائیں، ڈیپ فریزر کا استعمال کریں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنے کے علاوہ ہر دوا کو تیس سینٹی گریڈ تک محفوظ بنائیں تاہم اس معیار کا خیال نہیں رکھا جارہا جس سے ادویات بے اثر ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس سے بیماریاں خطرناک حد تک بڑھنے کا تناسب تیس فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔
لاڑکانہ میں ڈھائی سو کیمسٹ ڈیلر، بیس ڈسٹری بیوٹر اور چالیس ہول سیلرز ہیں جو صرف لاڑکانہ میں ماہانہ تیس کروڑ روپے کی ادویات فروخت کرتے ہیں۔ ان کی کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن بھی قائم ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق مذکورہ یونین کی جانب سے ہر چھے ماہ بعد ڈیلر سے ایک ہزار، ہول سیلر سے تین ہزار اور ڈسٹری بیوٹرز سے پانچ ہزار فی کس وصول کیا جاتا ہے جس سے ڈویژنل اور ضلعی ڈرگ انسپکٹر کو ہر چھے ماہ میں دو، دو لاکھ روپے رشوت دی جاتی ہے جس کے عوض وہ کسی بھی میڈیکل اسٹور، ڈیلرز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کے خلاف شکایت ملنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ گذشہ تیس برسوں میں اس سے جڑی شکایات کے متعلق حکومت پاکستان کی قائم کوالٹی کنٹرول کورٹ میں لاڑکانہ سے صرف چار مقدمات چلے ہیں جن میں سے دو کو جعلی اور زایدالمیعاد ادویات کے حوالے سے معمولی جرمانے کی سزا دی گئی۔ اس سنگین صورت حال میں گذشتہ آٹھ ماہ سے ڈویژنل ڈرگ انسپکٹر کی نشست خالی ہونا حکومت اور محکمہ صحت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے جب کہ ضلعی ڈرگ انسپکٹر کی کارکردگی بھی صفر ہے۔ دواؤں کی فروخت میں دواساز اداروں کے نمایندوں اور ڈاکٹرز کا بھی اہم کردار ہے۔ تاہم یہاں بھی شرم ناک صورت حال سامنے آئی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دواؤں کے فروخت کار نمایندے نے بتایا کہ پاکستان میں بننے والی ادویات پر تیس فی صد لاگت جب کہ ستر فی صد منافع ہوتا ہے، جس میں پچیس سے تیس فی صد ڈاکٹرز، پانچ فی صد سیمپل، دس فی صد ڈسٹری بیوٹر، ٹریڈ پرائس سے ریٹیل پرائس تک پندرہ فی صد میڈیکل اسٹورز کو دیا جاتا ہے۔ جب کہ ملٹی نیشنل کمپنیز نہ صرف فروخت کار نمایندوں کو پرکشش تنخواہیں بلکہ ڈاکٹرز کو دوا کا نسخہ لکھ کر دینے کی مد میں ڈسکاؤنٹ کے ساتھ منہگے طبی آلات، بیرون ممالک کے دورے، گاڑیاں، ائرکنڈیشنز اور یوٹیلٹی بلز اور پیشگی نقد بھی مہیا کرتی ہیں۔ اس وقت پاکستان بھر میں ایسی کوئی کمپنی موجود نہیں جو کہ بنا فوائد دیے مارکیٹ میں اپنا کاروبار جاری رکھ سکے۔
تمام کمپنیوں کی یہ روش مریضوں کے لیے تکالیف کا باعث ہے کیوںکہ ڈاکٹرز ایک دوا کے اثر نہ کرنے پر مریض کو دوسری دوا لکھ دیتے ہیں، یوں مریضوں پر تجربہ جاری ہے، یہاں تک کہ بیشتر ڈاکٹرز نے خود ہی مختلف کمپنیز سے70فی صد منافع پر فرینچائز حاصل کرکے کاروبار شروع کر دیا ہے۔ طب سے وابستہ ایک فرد نے انکشاف کیا کہ ٹارگیٹ پورا کرنے کے لیے ڈاکٹرز نے کئی مرتبہ فوت ہوئے مریضوں کو بھی ہزاروں روپے کے منہگے انجیکشن لگائے۔ دوسری جانب اتائی ڈاکٹرز شہر کے نظر محلہ ، لوہر کالونی، میروخان چوک، گجن پور، کوثر مل محلہ اور گردونواح میں کلینک قائم کرکے نہ صرف علاج کرتے ہیں بلکہ کئی تو آپریشن بھی کر رہے ہیں۔
ماضی میں کئی مریض آپریشن کے دوران اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ تاہم ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر، ڈرگ انسپکٹر اور ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ چانڈکا میڈیکل اسپتال کے مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ کے تمام سرکاری اسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مریضوں کو دوا دی جانے کی بوگس پرچیاں بنائی جارہی ہیں اور وہ ادویات شہر کے نجی میڈیکل اسٹورز پر فروخت کرکے لاکھوں روپے ماہانہ کی لوٹ مار کرکے حکومت کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر نجی میڈیکل اسٹورز پر سرکاری ادویات کی فروخت معمول کی بات ہے۔
ذرائع کے مطابق گذشتہ پندرہ دنوں میں چانڈکا میڈیکل اسپتال سے پچیس لاکھ روپے کی ادویات چوری کی گئیں اور انہیں مختلف نجی میڈیکل اسٹورز پر فروخت کیا جا رہا ہے جب کہ اسپتال میں آنے والے مریضوں کو بجٹ نہ ہونے اور ادویات کی قلت کا جواز بنا کر معمولی دوائیں اور انجیکشن بھی اسپتال سے باہر قائم میڈیکل اسٹورز سے خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسپتال انتظامیہ نے ضلعی انتظامیہ اور شہریوں کو بے وقوف بنانے کے لیے مختلف ادویات کے دو طرح کے سیمپل رکھے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ انجیکشن فلیجل جس کی اصل قیمت60 روپے ہے، یہی انجیکشن جو چائنا سے آٹھ روپے میں درآمد کیا جاتا ہے دونوں رکھے جاتے ہیں، جب بھی کوئی بالا افسر وزٹ پر آتا ہے تو اسے اصل دوا دکھائی جاتی ہے جب کہ مریضوں کو عام دوا دے کر لاکھوں روپے کے بوگس بل بنائے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اسپتالوں میں استعمال شدہ سرنجز اور بلڈ بیگس بھی قوانین کے مطابق جلانے کی بجائے فروخت کیے جاتے ہیں جسے دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر بیماریاں بیچی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال کے متعلق میڈیکل سپرنٹینڈنٹ چانڈکا اسپتال ڈاکٹر شفیع اﷲ عباسی نے سرکاری ادویات نجی میڈیکل اسٹورز پر فروخت کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ایسے واقعات ضرور ہوئے ہیں تاہم ان کے دور میں ایسی کوئی ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی، انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اسپتال کے فضلے کو جلانا چاہیے جس کے لیے وہ آئندہ سختی سے احکامات جاری کررہے ہیں تاکہ ہر قسم کی خرید و فروخت روکی جاسکے۔
کمشنر لاڑکانہ ڈاکٹر سعید احمد نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہیں نہ صرف میڈیکل اسٹورز پر سرکاری ادویات کے فروخت کیے جانے بلکہ سرکاری اسپتالوں میں بھی غیر معیاری ادویات کے استعمال کی شکایات موصول ہوئی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری درخواست پر سندھ حکومت نے تمام سرکاری اسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کو ادویات کی خود خریداری سے روکتے ہوئے اچھی شہرت رکھنے والی کمپنیز سے ٹینڈر طلب کیے ہیں اور اب سندھ حکومت بیشتر دوائیں خود خرید کر ہر ضلع کے اسپتالوں کو فراہم کرے گی، انہوں نے کہا کہ غیر معیاری ادویات کی خرید و فروخت کی روک تھام کے لیے محکمہ صحت سے رپورٹ طلب کر رہے ہیں جب کہ ڈرگ انسپکٹر کو بھی ایک ہفتے میں کارکردگی رپورٹ مرتب کرکے دینے کے احکامات دیتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر مسعود احمد بھٹو کو انکوائری آفیسر بنایا ہے جو محکمہ صحت اور میری مانیٹرنگ ٹیم کے ساتھ وزٹ کر کے رپورٹ دیں گے۔
ڈاکٹر سعید احمد کا مزید کہنا تھا کہ اسی نوعیت کی شکایت پر چند دن قبل انہوں نے غیر رجسٹرڈ بلڈ بینکس اور لیبارٹریز پر چھاپے مارے اور دو کو سیل بھی کیا تھا، اسی طرح ان تمام میڈیکل اسٹورز مالکان کے خلاف کارروائی کے احکامات دے رہے ہیں جو قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جب کہ ڈرگسٹ اینڈ کیمسٹ ایسوسی ایشن سے بھی میٹنگ کر کے بات چیت کی جائے گی۔