حقیقی جمہوریت مگر کیسے

جمہوریت ہی میں ریاست کے ہر شہری کو یہ آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد پر آزادی سے عمل کر سکے۔



یہ ایک حقیقت ہے کہ بہترین نظام حکومت جمہوریت ہی ہے۔ جمہوریت ہی میں ریاست کے ہر شہری کو یہ آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد پر آزادی سے عمل کر سکے۔ اس میں یہ تفریق نہیں ہوتی کہ کسی شہری کا تعلق اس ریاست کی سب سے بڑی اکثریت سے ہے یا سب سے چھوٹی اقلیت سے ہے۔

یہ اکثریت و اقلیت دو قسم کی ہو سکتی ہے اول زبان کی بنیاد پر، دوئم مذہب کی بنیاد پر، مگر جب حقوق و فرائض کی بات کریں تو سب کے حقوق و فرائض برابر ہوں گے۔

اسی طرح ملکی وسائل کی تقسیم کے معاملے میں بھی مساوات کو مدنظر رکھنا ہی جمہوریت ہے۔ اسی طرح امور مملکت چلانے کے لیے ریاست کے کسی بھی شہری کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے نا کہ ریاست کے کسی شہری کی زبان یا مذہب کو، کیونکہ جمہوریت کا اولین اصول ہی یہ ہے کہ بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب تمام شہری برابر ہیں۔ ایک بات اور ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہاں اگر ریاست کسی مذہب کی دعویدار ہو گی تو پھر اکثریت اقلیت کا استحصال کرے گی۔

دوسری بات یہ بھی جمہوریت نہیں کہ کسی ریاست میں کوئی اکثریتی زبان بولنے والے اپنی عددی برتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جمہوریت کے نام پر تمام قانون سازی کرنے والے ایوانوں پر قابض ہو جائیں اور من مانی قانون سازی کریں اور من مانے فیصلے جو کہ ان کے اپنے مفادات کے لیے ہوں کیونکہ جمہوریت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اعلیٰ ایوانوں میں جو بھی فیصلے کیے جائیں وہ فیصلے ریاست کے تمام شہریوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جائیں ایسا اس وقت ہو گا جب حکومتی امور چلانے والے وہ لوگ ہوں گے جو کہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے سبب اعلیٰ ایوانوں تک رسائی حاصل کریں گے۔

مگر عصر حاضر میں یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں ایک خاص طبقہ جو کہ سرمایہ داروں کی نمایندگی کرتا ہے یہ طبقہ عام انتخابات میں دولت کا بے دریغ استعمال کرتا ہے اور ذرایع ابلاغ یعنی پرنٹ میڈیا مطلب یہ کہ اخبارات و جرائد کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا، ٹیلی وژن و ریڈیو وغیرہ پر قابض ہو جاتا ہے اور عام انتخابات کے موقعے پر اپنے حق میں سچا جھوٹا پروپیگنڈا کرواتا ہے اور اپنی جماعت کے ایسے لوگوں کو میڈیا پر بھیجتا ہے جو کہ چرب زبان ہوں یعنی سامنے والے کے سچ کو جھوٹ و اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کر سکیں۔

صد افسوس کہ اس قسم کا خوشامدی ٹولہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں موجود ہے یہ طبقہ عام انتخابات کے موقعے پر ایک کام اور کرتا ہے وہ یہ کہ عام انتخابات جیتنے کے لیے سارے جہاں کا درد سمیٹ کر ایک ایک در پر جاتا ہے اپنی انسان دوستی کا یقین دلاتا ہے جب کہ عام حالات میں اس طبقے کا رویہ اس قسم کا ہوتا ہے جیسا کہ کسی سیاست دان سے کسی ووٹر نے سوال کر ڈالا کہ صاحب سنا ہے آپ مغرور ہیں یہ سنتے ہی وہ سیاستدان ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے بولا غلط کہتے ہیں کہ میں مغرور ہوں۔ اگر میں مغرور ہوتا تو تم جیسے دو کوڑی کے لوگوں کے پاس کیوں آتا؟

اسی قسم کا ایک اور لطیفہ ملاحظہ فرمائیں۔ ہوا یوں کہ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک نامور سیاستدان عام انتخابات کے دنوں میں ووٹوں کی طلب میں اپنے حلقے کے ایک گھر میں تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر ان صاحب کو معلوم ہوا کہ صاحب خانہ وفات پا چکے ہیں۔ ان صاحب نے دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بابا مرحوم کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔

آگے سے جواب ملا جن صاحب کی آپ تعزیت کر رہے ہیں ان کے انتقال کو تو 20 برس بیت چکے ہیں۔ غور فرمائیں اس قسم کے بے خبر سیاستدان جن کو اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کی وفات تک کا علم نہیں وہ لوگوں کے مسائل سے کس قدر آگاہ ہوں گے؟ اتفاق سے گزشتہ برس چند دوستوں کے ساتھ ان صاحب کے حلقہ انتخاب میں جانے کا موقعہ ملا تو وہاں میں نے ایک مقامی آدمی سے پوچھا کہ یہاں کا ممبر قومی اسمبلی کون ہے؟

وہ صاحب بیزاری سے بولے کہ اس حلقہ انتخاب سے کامیاب ممبر اسمبلی ایک نامور شخصیت ہیں، مگر ہم لوگ ان کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے، گویا اس قدر ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ پھر یہ ہر انتخابات میں کامیابی کیسے حاصل کر لیتے ہیں؟ میں نے پھر سوال کر ڈالا۔ جواب ملا: دھونس دھمکی کے ساتھ ساتھ عام انتخابات کے موقعے پر دیگوں کی لمبی لمبی قطاریں سب کروا لیتی ہیں۔ اب اگر اس قسم کے لوگ ایوانوں میں تشریف فرما ہوں گے تو عوام کی حالت زار یہی ہو گی۔

آج 90 فیصد پاکستانی بدترین غریب کا شکار ہو چکے ہیں جب کہ چار چھ برس قبل غربت کا تناسب 80 فیصد بیان کیا جاتا تھا جب کہ نصف پاکستانی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے جن میں اکثریت خواتین و بچوں پر مشتمل ہے جب کہ رواں برس 2015ء کے دو ماہ میں یعنی جنوری و فروری میں تھر میں 190 نومولود بچے غذائی قلت کے باعث وفات پا چکے ہیں جب کہ اوسطاً 10 افراد یومیہ خودسوزی کر رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خود سوزی کے واقعات صوبہ پنجاب میں ہو رہے ہیں۔

حالانکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو سب سے زیادہ متحرک تصور کیا جاتا ہے مگر سرمایہ داری جمہوریت کا کرشمہ ہے کہ چند تاجر نما سیاستدانوں کی مہربانیوں سے ملکی وسائل پر مخصوص لوگ قابض ہو چکے ہیں۔ سرکاری صنعتی یونٹ منظور نظر لوگوں کو عطا کیے جا رہے ہیں۔ ان سرکاری یونٹوں کے عوض جو قیمت وصول کی جا رہی ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیں۔ راہلوالی شوگرمل و پسرور شوگر کو صرف ایک ایک روپے میں نجی تحویل میں دیا گیا۔

یہ ہے وہ سرمایہ داری آمریت جسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے ان سرمایہ داروں کا زرخرید دانش ور طبقہ یہ قول سنا کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سرمایہ داری نظام ہے اور اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس نظام میں ملکی دولت چند ہاتھوں میں سمٹتی چلی جاتی ہے جیسا کہ عصر حاضر میں ہو رہا ہے۔ ان تمام حالات میں لازم ہے کہ عوام خواب غفلت کی نیند سے بیدار ہوں۔

یہ ملک عوام کا ہے اور عوام کا فرض بنتا ہے کہ وطن عزیز کو ان سرمایہ دار سیاستدانوں کی گرفت سے آزاد کروائیں اور نظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ عوام اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ہو گی حقیقی جمہوریت پھر ملے گا۔ ہر ایک کو انصاف روزگار تعلیم، رہائش، صحت کی سہولتیں پوشاک و سماجی امن بصورت IMF عالمی بینک و دیگر مالیاتی اداروں کا بڑھتا ہوا قرضوں کا بوجھ دہشت گردی، نجکاری کے عمل سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری پاکستانی عوام کا مقدر ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں