دہشت گردی کراچی اور
پاکستان بننے کے بعد سے آج تک کراچی پر سازشوں اور دہشت گردی کے ذریعے بے شمار حملے کیے گئے
RAJANPUR:
نو سو سال قبل ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا، اسی وجہ سے ہندوستان پہ بے شمار بیرونی حملہ آوروں نے حملے کیے، اس کو لوٹا گیا اور اس کے دارالحکومت دلی کو اٹھارہ مرتبہ جلایا گیا، بحیثیت مجموعی تاخت و تاراج کیا گیا۔
ہندوستان کو لوٹنے میں برطانیہ نے بھی اپنا کردار ادا کیا لیکن ہندوستان کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے انفرااسٹرکچر اور حکومت چلانے کے اداروں کو بھی قائم کیا، پرائمری، مڈل، ہائی اسکولز، کالجز اور یونیورسٹی کے ادارے قائم کیے جو اس سے قبل ناپید تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی ریلوے لائن اور بہترین نہری سسٹم قائم کیا اور ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتخابات بھی کرائے لیکن اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے جاگیرداروں کی سرپرستی کی اور عوام کو تقسیم کرنے کے لیے سازشیں بھی کیں۔
یہاں پر اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اگر ہندوستان کو تاخت و تاراج نہ کیا جاتا تو آج ہندوستان مغربی دنیا سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہوتا۔ یہی مجسم صورت گری پاکستان بننے کے بعد کراچی کی ہے جو ماضی سے لے کر اب تک 65 فیصد دولت وفاقی حکومت کو جمع کر کے پیش کرتا آیا ہے، گویا کراچی بھی حقیقی سونے کی ایک چڑیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک کراچی پر سازشوں اور دہشت گردی کے ذریعے بے شمار حملے کیے گئے، اسے لوٹا، نوچا اور کھسوٹا گیا۔
پہلی سب سے بڑی سازش کراچی سے دارالحکومت کو اسلام آباد منتقل کرنا تھا، بصورت دیگر آج شہرِ کراچی دبئی سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہوتا، کراچی سے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز، بین الاقومی ہوائی جہازوں کے ہیڈ کوارٹرز، بڑی بڑی نجی صنعتیں اور باصلاحیت افرادی قوت کراچی سے کوچ کر گئیں۔
پاکستان بننے کے بعد کراچی میں قومی و صوبائی اسمبلی کے نمایندگان مختلف جماعتوں کے ملے جلے منتخب ہوتے تھے لیکن 1988ء کے انتخابات میں مہاجر قومی موومنٹ نے تمام جماعتوں کا صفایا کر دیا اور کراچی کی نمایندگی کلی طور پر مہاجر قومی موومنٹ کے ہاتھ میں آ گئی، اس عمل سے تمام جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا حصہ مہاجر قومی موومنٹ اور اس کی قیادت سے جلنے کڑھنے لگا۔
یہیں سے کراچی میں دہشت گردی کو مزید فروغ ملا جو آج تک جاری و ساری ہے، جن میں سانحہ سہراب گوٹھ، قصبہ علی گڑھ کالونی اور لسانی فسادات قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ایک منظم سازش کے تحت مقتدر لوگوں نے کراچی میں زمینوں پر قبضے، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، غیر قانونی اسلحہ، منشیات وغیرہ کا جال پھیلایا تاکہ ایم کیو ایم کو انصاف پر مبنی عوام اور کراچی کی بھلائی کے لیے جم کر کام نہیں کرنے دیا جائے۔ اس عمل میں وفاقی اور سندھ حکومتوں کا بھی پس پردہ ہاتھ رہا ہے جو کہ ذوالفقار مرزا کے بیان کی صورت میں سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ انھوں نے کراچی میں تین لاکھ اسلحہ کے لائسنس جاری کیے۔
چونکہ ایم کیو ایم کے پاس کبھی بھی سندھ حکومت کا اقتدار اعلیٰ نہیں رہا اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سندھ حکومت کراچی میں امن و امان قائم کرتی لیکن اس نے بھی اس سے گریز کیا۔ اس گریز پائی کی وجہ سے کراچی میں بے شمار ٹارگٹ کلنگز اور متعدد مرتبہ مختلف مواقعوں پر ریموٹ کنٹرول اور خودکش بم دھماکے ہوئے۔ کراچی میں دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ افغانی مہاجرین، شمالی وزیرستان اور پاکستان کے دیگر صوبوں سے آنے والے خطرناک مجرم افراد کی آمد ہے۔
جنھیں ایک سازش کے تحت کراچی کے مختلف حصوں میں خفیہ طور پر مقتدر لوگوں نے پناہ دی اور مہاجر، ایم کیو ایم سے تعصب رکھنے والوں اور مذکورہ بالا خفیہ مجرموں نے کراچی میں وہ دہشت گردی کی جس سے کراچی کا حسن ماند پڑگیا۔ کراچی میں دہشت گردی کے پیچھے مشرق وسطیٰ میں ہونے والی شیعہ، سنی نظریات کی جنگ کا عمل دخل بھی ہے، جس کی وجہ سے سانحہ عباس ٹاؤن ہوا۔
اس کے علاوہ بھی کراچی میں مختلف انتہائی قابل، باصلاحیت افراد جن میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، وکلا اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں، کو بھی ہلاک کیا گیا، بینک ڈکیتیاں روزمرہ کا معمول بن گئیں، شادی ہالوں، بسوں، کار سواروں اور راہ چلتے لوگوں کو لوٹنا اور ذرا سی مزاحمت پر جان سے مار دینا بھی روز مرہ کا معمول بن گیا، ان سب ہلاکتوں سے زیادہ ہلاکتیں کراچی کا کلی مینڈیٹ رکھنے والی جماعت ایم کیو ایم کے کارکنان کی ہیں۔
ان تمام دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں نااہل ثابت ہوئیں۔ بالآخر فوج کو بلانا پڑا جس سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا پول کھل گیا، لہٰذا انھیں چاہیے کہ یہ مستعفی ہو جائیں لیکن ہمارے یہاں مستعفی ہونے کا کلچر شروع سے ہی نہیں رہا۔پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے وہ کام جو حکومتوں کو کرنا تھے۔
اس کو ختم کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے پاک فوج کو دعوت دی جس کو آئینی طور پر پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے قبول کیا اور انتہاپسندی، دہشت گردی کو ختم کرنے کا دو ٹوک اور پرعزم انداز میں بیڑا اٹھایا اور انتہاپسندی، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ضربِ عضب کا نام دیا گیا، جس میں اب تک پاک فوج کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
ضربِ عضب شمالی وزیرستان سے شروع ہو کر کراچی پہنچ چکا ہے جس کا آغاز ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر 11 مارچ 2015 کو چھاپے سے ہوا جس میں کافی افراد کو پکڑا گیا جس کے ردعمل میں قائد ایم کیو ایم الطاف حسین نے کئی کرمنلز افراد سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر کوئی مجرم ہے تو اسے سزا ضرور ملنی چاہیے۔
مجھے امید ہے کہ اب رینجرز دوسری جماعتوں کے کرمنلز افراد اور مافیاز کے خلاف پورے کراچی میں کارروائی کرکے امن قائم کرے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہوا نظر نہ آیا تو یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ جائے گی کہ ایم کیو ایم اور اس کی قیادت کے خلاف مذکورہ آپریشن صرف اور صرف ایم کیو ایم کو ختم کرکے سونے کی چڑیا کراچی پر بعض دیگر چہروں کے ذریعے قبضہ کرنے کی کوشش کہلائے گی۔ آج کل پاکستان اور مشرق و سطی کے خطے میں نظریات پر مبنی انتہاپسند دہشت گردی کی جو آگ لگی ہوئی ہے اس کے تناظر میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے تو پھر کراچی کراچی نہیں رہے گا۔