حقیقی قیادت کا معیار اور اہلیت

قرآن حکیم نے اسوۂ حسنہ ﷺ کی شکل میں ہمارے سامنے قیادت کا بے مثل اور اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے

قرآن حکیم نے اسوۂ حسنہ ﷺ کی شکل میں ہمارے سامنے قیادت کا وہ بے مثل اور اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے جس کے نقش قدم پر چلنے کی ادنیٰ سی سعی بھی ہمیں صراط مستقیم اور منزل مقصود کا لازوال شعور عطا کرتی ہے۔ فوٹو: فائل

کس قدر ابتری و درماندگی کا عالم ہے کہ راہ بر اور راہ زن میں کوئی فرق باقی نہیں رہا، جسے راہ نما بنائیے وہی دغا دے بیٹھتا ہے اور جسے اپنا مسیحا سمجھیے وہی فرشتہ اجل بن جاتا ہے۔ جس کے ساتھ بھی دو گام چلیے، وہ اپنے ہم سفروں کو منزل سے روشناس کرانے کے بجائے گرد راہ میں اکیلا چھوڑ کر خود بھی انہی تاریکیوں میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ سلسلہ پچھلی چند صدیوں سے چلا آرہا ہے اور ابھی تک اس کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آتے۔

ایسے میں وہ کیا معیار اور پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر کھوٹی اور کھری قیادت میں امتیاز برتا جاسکے۔ قرآن، اسوۂ حسنہ ﷺ اور زوال سے نکل کر عروج پانے والی بہت ساری اقوام کی تاریخ اس حوالے سے ہماری کیا راہ نمائی کرتی ہے؟

قرآن حکیم نے اسوۂ حسنہ ﷺ کی شکل میں ہمارے سامنے قیادت کا وہ بے مثل اور اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے جس کے نقش قدم پر چلنے کی ادنیٰ سی سعی بھی ہمیں صراط مستقیم اور منزل مقصود کا لازوال شعور عطا کرتی ہے۔اس تناظر میں سیاسی قیادت ہو یا مذہبی و روحانی پیشوائی دونوں میں قیادت کی صلاحیت اور اخلاص کا پایا جانا بنیادی اہلیت ہے۔

قدرت نے انسانوں کو راہ نمائی دینے اور راہ نمائی لینے دونوں طرح کی فطری صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ جن میں تعلیم و تربیت سے مزید نکھار پیدا ہوتا ہے ورنہ ان پر زنگ چڑھ جاتا ہے۔ ہمارا المیہ اور رونا یہ ہے کہ ہماری ہر طرح کی قیادت موروثی اور غیرتربیت یافتہ ہونے کے باعث مصنوعی اور غیر حقیقی ہوتی ہے اور جب کبھی اختیار و اقتدار کی مہار اس کے ہاتھ آتی ہے تو کبھی ذاتی مفاد کے لالچ اور کبھی نااہلی و نالائقی کے باعث قوم کی لٹیا ڈبو ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی۔ اسی طرح صرف اہلیت ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اخلاص اہلیت سے بھی زیادہ اہم ہے۔

ورنہ یہی اہلیت و قابلیت انسانیت کے مفاد میں استعمال ہونے کے بجائے ظلم کے پھیلاؤ میں کام آنے لگتی ہے اور یہی کچھ آج کل ہمارے تجربے میں ہے۔ اعلان نبوت و رسالتؐ سے قبل ہی آپؐ کے اخلاص، اہلیت اور صداقت و امانت سے متعلق قوم کا اکثریتی طبقہ متعارف ہوچکا تھا۔ اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے جب قوم کے سامنے اپنے ماضی کو پیش کیا تو تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ عوام کے جم غفیر میں سے کسی فرد واحد کو بھی آپؐ کی طرف انگلی اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی اور سب نے بیک زبان آپؐ کو صادق و امین قرار دیا۔

کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ بکریاں پالنا کس قدر کٹھن کام ہے اور اکثر انبیا کی سنت ہے؟ دراصل عوام الناس کی مثال بھی بھیڑ بکریوں جیسی ہوتی ہے اور پھر ان عام اور کم فہم انسانوں کو ان کے درجۂ حیوانی سے اوپر لاکر انسانی درجے پر فائز کرنا انبیا ؑ اور ان کے مشن سے وابستہ قیادت کا مقصد حیات ہوتا ہے۔

کیا آج کل کی سیاسی و مذہبی قیادت عملی میدان میں اترنے سے قبل عوام کے درمیان اپنے کردار، اخلاص اور انسانوں سے لازوال محبت کا نمونہ پیش کرکے ان کا اعتماد حاصل کرتی ہے یا پھر اچانک کہیں سے خودرو جھاڑیوں اور گھاس پھوس کی مانند اُگ آتی ہے۔


''بے شک تمہارے لیے آپؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے'' (القرآن)

اور یہی نمونہ ہمیں اندھی تقلید، شخصیت پرستی اور جنونی عقیدت کی راہ پر چلنے کے بجائے عقل و شعور کی آنکھیں کھلی رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔

''کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے قلوب پر قفل پڑے ہیں'' (القرآن)

قوم کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے راہ نماؤں کا محاسبہ اور تجزیہ کرے اور ان کے اخلاص، ایثار، کردار اور اہلیت کو پرکھنے کے بعد ان کی تقلید کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالے۔ تاکہ دوسروں کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے والے خود کو اپنے کردار کے آئینے میں پیش کریں۔

''کیا تم دوسروں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔'' (القرآن)

جنگ کے موقع پر خندق کی کھدائی کے دوران بھوک سے نڈھال فریادی نے اپنے پیٹ پر بندھا ایک پتھر دکھایا تو اس مشقت میں برابر شریک قیادت کے بطن مبارک پر موجود دو پتھروں کا مشاہدہ کرکے خاموشی اختیار کرلی۔ سیدنا عمر فاروقؓ کے لباس زیب تن کرنے پر ایک بدو معترض ہوا تو بیٹے نے کھڑے ہوکر صفائی پیش کی کہ ایک چادر خلیفہ کی اپنی تھی اور دوسری میں نے ہدیہ میں دی تاکہ لباس مکمل ہوسکے۔ اور یوں بدو مطمین ہوکر خاموش بیٹھ جاتا ہے۔

کثرت رائے کا احترام آج کی خاصیت نہیں بلکہ آج سے چودہ سو سال قبل نبی اکرم ﷺ مدینہ شہر کے اندر رہ کر دفاعی جنگ کرنے پر رضامند اور مطمین تھے لیکن صحابہؓ کی اکثریت شہر سے باہر نکل کر لڑنا چاہتی تھی لہٰذا آپؐ نے اپنی رائے کی قربانی دے کر اکثریت کی رائے پر حتمی فیصلہ فرمایا۔ نبی اکرمؐ نے کبھی بھی مال اور رزق میں سے دوسروں سے زیادہ حصہ لینا پسند نہیں فرمایا۔ بلکہ ہمیشہ مساوات، عدل اور ایثار کو لازم پکڑا۔ البتہ بھوک، پیاس، مشکل اور عزیمت میں دوسروں پر سبقت برقرار رکھی، اس سلسلے میں شعب ابی طالب میں تین سالہ سماجی مقاطے اور محصوری کا صبر آزما دور اپنی مثال آپ ہے۔

آج ہمیں اسی نہج پر اپنے بڑوں اور ان کے دعوؤں کا تجزیہ اور محاسبہ کرنا ہوگا کہ کون کردار کا مجاہد اور کون محض گفتار کا غازی ہے؟ صد افسوس کہ ہم ان حقیقی معیارات اور پیمانوں کو اپنے عقل و شعور میں جگہ دینے سے گریزاں ہیں اور سرمایہ پرستی اور شخصیت پرستی کے سحر میں کچھ ایسے گرفتار ہیں کہ پھر ان گفتار کے غازیوں سے آزادی محض ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔
Load Next Story