گروہوں میں منقسم ہونے کا عذاب
ہر کوئی ایک ہی دلیل لے کر سامنے آتا ہے کہ علاقائی سرحدوں اور ریاست کی خود مختاری کا تحفظ سب سے اہم ہے۔
MULTAN:
شام، عراق اور اب یمن۔ ہر کوئی ایک ہی دلیل لے کر سامنے آتا ہے کہ علاقائی سرحدوں اور ریاست کی خود مختاری کا تحفظ سب سے اہم ہے۔ ہم اپنی یا اپنے دوستوں کی سرحدوں کا آخر دم تک دفاع کریں گے۔ یہ سرحدیں کب بنیں، یہ حکومتیں کب قائم ہوئیں اور ان کے دفاع اور سلامتی کو کب سے تقدس کا درجہ دیا گیا؟۔ کیا یہ سب تقسیم خود بخود ہو گئی تھی۔
کیا پہلی جنگِ عظیم کے بعد اچانک مصر، اردن، شام، عراق، لبنان، ایران، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے، انھیں اپنے علاقوں کی حدود کا بھی پتہ تھا اور ان کے ذہنوں میں وطن کا تصور بھی بہت مضبوط تھا، پھر انھوں نے خود ہی اپنے گرد لکیریں کھینچ لیں اور کہنے لگے، کہ لو اب ہمیں ہمارا وطن مل گیا ہے، اب ہم اس کے دفاع پر اپنی جان تک قربان کر دیں گے۔ تاریخ کا ایک معمولی سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی تقسیم قطعاً رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے بنیاد پر بھی نہیں کی گئی بلکہ اس کا مقصد سیاسی اور معاشی کنٹرول تھا۔
وہ لوگ جنھیں اللہ کی بتائی ہوئی دو قومی تقسیم حزب اللہ اور حزب الشیاطین بالکل پسند نہیں، انھیں بھی اس بات کا ادراک ہے کہ تیونس سے لے کر عراق تک یہ سارے کا سارا خطہ عربی زبان، عربی تہذیب و ثقافت اور عرب روایات کا کئی صدیوں سے امین رہا ہے۔ یہ پورا خطہ سوائے لبنان اور اردن کو چھوڑ کر سب کا سب قبائلی روایات کا بھی امین ہے۔
اگر قبائل پر ہی تقسیم شروع کر دی جائے تو بھی اس خطے میں ہزاروں ملک بنانے پڑیں گے۔ یہ پورے کا پورا خطہ مدتوں ایک خلافت کی مرکزیت پر قائم رہا۔ مصر کی فاطمی حکومت ضرور قائم رہی، بغداد میں آل بویہ بھی برسراقتدار رہے، ہلا کو بھی آتا رہا اور چنگیزخان بھی۔ لیکن کچھ عرصے کے ان طوفانوں کے بعد مسلمان پھر کسی نہ کسی طور مرکزیت پر جمع ہو جاتے تھے جسے وہ خلافت کہتے تھے۔ اجتماعیت اور مرکزیت ہی دین کا مدعا ہے۔
آخری مرکزیت خلافتِ عثمانیہ تھی جسے پہلی جنگِ عظیم کے بعد پارہ پارہ کر دیا گیا۔ لیکن وہ اتحادی ممالک جنہوں نے اس اتحاد کو پارہ پارہ کیا تھا، یہ نہیں چاہتے تھے کہ اب مسلمان دوبارہ کسی مرکزیتِ کی طرف لوٹیں۔ کیونکہ ایک کمزور سی مرکزیت بھی مسلمانوں کو جسد واحد ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ اسی لیے جدید قومی سیکولر ریاستوں کے تصور کے ساتھ قابض اتحادی افواج نے پورے خطے کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔
یہ تقسیم کا عمل بھی کئی سالوں میں جا کر مکمل ہوا۔ پہلے دو تین ممالک کو خود مختاری دے کر ان پر اپنی مرضی کا حکمران مسلط کیا جاتا۔ انھیں بتایا جاتا کہ ان ملکوں کا جغرافیہ اور سرحدیں اب تمہاری غیرت و حمیت ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں اس وطن کا شعور جھنڈوں، قومی ترانوں اور مرتب کردہ آئینوں کے ذریعے راسخ کروایا جاتا اور پھر کسی دوسرے ملک کو آزاد کر کے وہی تجربہ دہرایا جاتا۔ لبنان کی مثال کمال کی ہے۔ پہلے آئین تحریر کیا گیا۔ جس میں لازمی قرار دیا گیا کہ عیسائی صدر ہو گا۔
سنی وزیر اعظم اور شیعہ اسمبلی کا اسپیکر، پھر سرحدیں کھینچی گئیں، ترانہ اور جھنڈا وجود میں لایا گیا۔ شریف مکہ کے تین بیٹوں میں تین ملکوں کو تقسیم کر دیا گیا، عراق، شام اور اردن۔ ایک اور چیز ان قومی ریاستوں کو بنانے اور مستحکم کرنے کے لیے اختیار کی گئی اور وہ تھی کرنسی، یعنی کاغذ کے نوٹ۔ ہر ملک میں اک سینٹرل بینک قائم ہوا۔ اس سے پہلے سونے اور چاندی کے سکے چلتے تھے، جن پر حکمران اپنی مہر اس لیے ثبت کرتے تھے تا کہ ان کے اصل ہونے کا یقین ہو جائے۔
ورنہ ایک ملک کا سکہ دوسرے ملک میں قابل قبول ہوتا تھا کیونکہ سونے اور چاندی کا وزن برابر ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں بھی عرب دنیا کا اپنا کوئی سکہ وجود نہیں رکھتا تھا بلکہ رومی اور ایرانی سکے ہی بازار میں مستعمل تھے۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد پورا عرب علاقہ تقسیم کر دیا گیا، اور دو درجن سے زیادہ عرب ممالک وجود میں آ گئے۔ اب اگر کوئی شخص اس تقسیم کے بعد یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ یہ سب تو نسل، رنگ اور علاقے کے ساتھ وابستہ جذبات تھے جنہوں نے ملک تقسیم کر دیے اور ان کی حرمت کو مقدم کر د یا تو اس شخص کے استدلال پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
عرب و عجم کی تقسیم البتہ صدیوں پرانی تھی اور مدتوں انسان اسی لسانی اور نسلی تقسیم پر ایک دوسرے کا خون بہاتا رہا۔ اسلام کا بنیادی مقصد اور منشاء ہی اس تقسیم پر ضرب لگانا تھا۔ اسی لیے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں واضح اعلان فرمایا ''کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل نہیں۔'' پھر کسی قدر اطمینان سے کہا کہ ''تمہاری جاہلیت کے تعصبات کے بت میرے پاؤں تلے کرچی ہو گئے''۔
اس کے باوجود بھی اگر کسی ذہن میں یہ تصور جاگتا ہے کہ اسلام دنیا کو دو دھڑوں حزب اللہ اور حزبِ الشیاطین میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ اس کا مقصد موجود دور کی سعودی، عراقی، شامی، یمنی اور لبنانی ریاستیں ہیں ریاست کے لیے کیونکہ مذہب نہیں بلکہ دیگر تعصبات کا تڑکا ضروری ہے، تو ایسے افراد کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ وہ عرب اور عجم کی جنگ جو اسلام سے پہلے بھی خونریزی اور قتل و غارت کا باعث تھی، آج ایک بار پھر اپنے خونی پنجے گاڑ رہی ہے۔
لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں عجم یعنی ایران کی سرزمین پر آگ نہیں لگی ہوئی۔ بلکہ کمال ہوشیاری سے اس جنگ کو مسلک کا تڑکا لگا کر عرب دنیا تک محدود کر دیا گیا ہے۔ عراق، شام، بحرین، یمن، سب جگہ عرب مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے اور اس گروہی اختلاف کو دو قوتیں آگ دکھا رہی ہیں۔ ایک وہ عرب حکمران جو قومی اور علاقائی ریاستوں پر مسلط ہیں اور اپنے اقتدار کا دفاع کر رہے ہیں اور دوسرا ایران جو سعودی عرب کے ساتھ ایک سرد جنگ کا شکار ہے جس کی بنیاد عرب و عجم جھگڑا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ عرب جو ایرانی بالادستی اور ایرانی افکار و خیالات تسلیم کر لیتے وہ ان کے دوست ہوتے باقی دشمن۔ یہی رویہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتح اِیران سے پہلے تک تھا اور یہی آج دوبارہ ایران میں لوٹ آیا ہے۔
یہ دونوں قوتیں جس جنگ کو ہوا دے رہی ہیں، اس کا نتیجہ صرف اور صرف یہ نکل رہا ہے کہ ایسے تمام گروہ شدت سے قوت پکڑ رہے ہیں جو ایران اور سعودی عرب دونوں سے نفرت کرتے ہیں۔ عراق اور شام میں جنم لینے والی صورت حال نے وہاں آئی ایس کو جنم دیا جس نے سو سال پرانی قومی ریاستوں کی سرحدوں کو بھی ختم کر کے رکھ دیا۔ ایسے تمام گروہ جو القاعدہ کے نام پر وہاں کام کر رہے تھے، آئی ایس کے پرچم تلے جمع ہو گئے۔ یمن کی صورتِ حال اس سے مختلف نہیں۔
شمال میں حوثی قبائل ہیں جو زیدیہ عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب کہ جنوب میں القاعدہ کا سب سے منظم مرکز موجود ہے جسے تباہ کرنے کے لیے امریکا ڈورن حملوں کو جار ی رکھے ہوئے تھا۔ موجود صورت حال میں حوثی قبائلی کو ایران نے مدد کی تو وہ اسلحہ اور سرمائے سے مسلح ہو کر صنعاء پر قابض ہو گئے۔ فوج چونکہ قبائل میں تقسیم تھی اس لیے درمیان کے علاقے میں اپنا کنٹرول واپس لینے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس جنگ نے القاعدہ کو جنوب سے مغرب اور شمالی کی جانب اپنے کنٹرول کو وسعت دینے کا راستہ دے دیا، ایسے حالات میں سعودی بمباری ایک اور انسانی المیے کو جنم دے گی۔
یہ بمباری سعودی عرب میں موجودہ شیعہ آبادی کو اپنے ساتھ ملانے اور سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے سے تو شاید روک پائے لیکن اس کے نتیجے میں القاعدہ کا عروج ایک لازمی نتیجہ ہے، اور پھر القاعدہ آخر کار اسلامی ریاست یا داعش میں ڈھل جاتی ہے جو پھر بھی سعودی عرب کے لیے خطرہ بنے گی۔ یہ سب یمن کا سیاسی، عسکری اور علاقائی تجزیہ ہے۔ لیکن وہ لوگ جو قرآن حکیم کی حکمت اور رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی ہدایت کی روشنی میں حالات کو پرکھتے ہیں انھیں اس بات پر ذرا برابر بھی شک نہیں کہ یہ دورِ فتن ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دور کے بارے میں فرمایا ''ایک ایسا فتنہ عرب کو گھیر لے گا جو بہرا، گونگا، اندھا ہو گا۔ جو کوئی اسے جھانک کر دیکھے گا وہ اسے اچک لے گا، اس فتنے میں زبان کو بے مہار چھوڑ دینا تلوار کے وار کی طرح ہو گا۔ (سنن ابن داؤد)۔ بہرا، گونگا اور اندھا فتنہ وہ ہوتا ہے جس میں حق واضح نہ ہو۔ آج کے دور کی اس لڑائی میں یوں ہی لگتا ہے کہ حق واضح نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ گروہوں کی لڑائی کو اللہ نے اپنا عذاب بتایا ہے۔
سورہ الانعام کی 65 ویں آیت میں جہاں اللہ فرماتا ہے کہ میں قادر ہوں کہ تم پر آسمانوں سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب نازل کروں، وہیں تیسری جگہ فرماتا ہے ''یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا'' ''یعنی تمہیں گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑا کر طاقت کا مزا چکھائیں''۔ یہ خانہ جنگی فتنہ بھی ہے اور عذاب بھی۔
لیکن یمن میں خیر کا ایک پہلو ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یمن میں دو خزانے رکھے ہیں، ایک کو یرمو ک کے دن ظاہر کر دیا تھا جب قبیلہ ''ازد'' والے لوگوں کا تہائی تھے اور دوسرا خزانہ بڑی جنگِ عظیم (جو آخری زمانے میں ہو گی) میں ظاہر فرمائیں گے، ستر ہزار فوجیوں کی تلواروں سے جن کا پٹہ سونے کا ہو گا (کتاب الفتن نعیم بن حماد) اس فتنے سے خیر نے بر آمد ہونا ہے اور حق نے بالاخر غالب آنا ہے۔