عورت مرتی اجڑتی رہے
12 سالہ شیما جان سے گزر گئی۔ اللہ ودھائی کو اسپتال لے جایا گیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کوما میں چلی گئی۔
لاہور:
ایک کرکٹ میچ کی کامیابی کی خوشی ہو یا کرکٹ میچ ہارنے کے غم کا ردعمل ہو، عوام کے انٹرویوز، منچلے نوجوانوں کے تاثرات میڈیا کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ بریکنگ نیوز کے سارے سلائیڈز سب یہی دکھاتے ہیں کہ اس وقت ہمارے ملک میں اس سے بڑھ کر کوئی بات اہمیت کی حامل ہی نہیں۔ اور اخبار کی بڑی بڑی سرخیوں پر تو حق صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔
یہ خبریں زیادہ اہم ہیں ایک عورت کے قتل سے۔ شاید یہی سوچتے ہیں میڈیا والے کہ عورتیں تو روز ہی قتل ہوتی رہتی ہیں اس میں بریکنگ نیوز والی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ بریکنگ نیوز میں وہ بات چلائی جاتی ہے جس سے ساری قوم کو دلچسپی ہو۔ اب کوئی عورت مرے، جیے یا زیادتی کا شکار ہو اس سے ہمارے عوام کو کیا لینا دینا۔
ہاں شاید اسی لیے مظلوم اللہ ودھائی اور اس کی 12 سالہ بیٹی شیما کے جلنے مرنے والی ''چھوٹی سی خبر '' کو نیشنل میڈیا پر کوئی بڑی جگہ نہ مل سکی۔
27فروری کو ڈھرکی کی محنت کش خاتون اللہ ودھائی جوکہ اپنے خاندان کی واحد کفیل تھی اور رلیاں بنانا اس کا ذریعہ معاش تھا۔ وہ قریبی گاؤں رلیاں بیچنے گئی، چھوٹی بیٹی 12 سال کی شیما اس کے ساتھ تھی۔ گاؤں میو عمر جوکہ تعلقہ اوباڑو میں ہے۔ مقامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماں اور بیٹی کو دھوکے سے نشہ آور چیز دے کر بے ہوش کر کے ویران جگہ پر ان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ بعد ازاں شیما کی چیخ و پکار پر تینوں درندے بھاگے اور ایک نے پٹرول چھڑک کر جھونپڑی کو آگ لگا دی۔
12 سالہ شیما جان سے گزر گئی۔ اللہ ودھائی کو اسپتال لے جایا گیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کوما میں چلی گئی۔ کچھ عرصہ رحیم یارخان کے اسپتال میں زیر علاج رہی۔ پھر اسے ڈھرکی لے جایا گیا۔ اللہ ودھائی جب تک کوما میں رہی یہ اندوہناک واقعہ پردے میں رہا۔ اس کے بیٹے یہی سمجھتے رہے کہ یہ اتفاقی حادثہ ہوا ہے۔
جلی ہوئی بہن کا جسم دفن کرتے ہوئے بھی وہ اس کے جسم پہ گزری قیامت سے بے خبر رہے۔ گھر سے 24 کلومیٹر دور ہونے والی وحشیانہ واردات ایک مہینے تک گھر والوں سے بھی چھپی رہی۔ جیسے ہی اللہ ودھائی ہوش میں آئی تو پتہ چلا کہ اس مظلوم پہ کیا بیتی تھی۔ اللہ ودھائی کا تعلق اس علاقے سے ہے جوکہ پسماندہ بھی ہے، نظرانداز کیا ہوا بھی ہے اور قبائلی نظام کے زیر اثر بھی ہے۔
یہ قبائلی نظام جوکہ ہمارے سرحدی علاقوں میں ایک راکھشس ایک شیطان کی طرح مسلط ہے اور سیکڑوں جانیں ہڑپ کر جاتا ہے۔ اللہ ودھائی بھی اسی کا شکار تھی۔ ایک قبائلی خونیں تکرار نے اسے اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
وہ محنت کر کے اپنے بوڑھے شوہر اور بچوں کو پال رہی تھی۔ اس منحوس شام بھی اسے گاؤں میں دیر ہوگئی، موسم کی خرابی اور برسات کی وجہ سے ایک موچی نے اسے زبردستی روکا۔ انکار کرنے پر اسے نشہ آور چیز دے کر اس کی بیٹی شیما اور اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ شیما کا تو نہ پوسٹ مارٹم ہوسکا نہ کوئی میڈیکل ٹیسٹ ہوا۔
وہ اپنے اوپر کیے گئے ظلم کے ساتھ زمین میں دفن ہوگئی۔وومن ایکشن فورم کے رابطہ کرنے پر یہ سطریں رقم کرتے وقت تک وہ عورت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔
وومن ایکشن فورم نے اپیل کی تھی کہ اس کو کرابلی کے برن وارڈ میں علاج کے لیے بھیجا جائے لیکن کل تک یہ ممکن نہ ہوسکا کیونکہ اس کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔
اللہ ودھائی کے کیس میں دکھ کی بات یہ ہے کہ پولیس اپنا روایتی کردار نبھا رہی ہے۔ جو ایف آئی آر درج ہوئی ہے اس میں زنا بالجبر کا ذکر نہیں ہے۔ اس سانحے کو ایک انتقامی حادثہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اللہ ودھائی کا جسم 50 فیصد جلا ہوا ہے۔ اور دل شاید 100 فیصد جل چکا ہے۔ اس کو بچایا جاسکتا ہے یا نہیں، ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے عورتوں کے معاملات کو اس حساسیت سے نہیں لیتے۔ اگر آج وہاں موجود پولیس فورس میں کوئی عورت آفیسر ہوتی تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ جلی ہوئی عورت بار بار زیادتی کا ذکر کرتی ہے۔ جھونپڑی کو پٹرول ڈال کر جلانے کی بات کرتی ہے۔
لیکن یہاں وہ لکھا جا رہا ہے جوکہ کسی بااثر کی مرضی کا ہے۔ اللہ ودھائی کا جو بیٹا مدعی تھا اس کو بھی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔گاؤں میو عمر میں ایک با اثر زمیندار ہے۔ جن افراد کے نام ایف آئی آر میں درج ہیں وہ اس زمیندار کے ہاری بتائے جاتے ہیں جن کے نام ایف آئی آر میں شامل ہیں۔ ایک بندہ اسپتال میں ہے۔ باقی روپوش ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کی داستان بہت طویل ہوتی ہے۔
ہمارے مسائل عورتوں کے قتل عورتوں سے زیادتیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں کیونکہ ہم ان کی جڑوں کو ختم نہیں کرتے۔ ہمارا نظام ان برائیوں کی آبیاری کرتا ہے۔ وہ لوگ وہ سیاستدان جو سندھ اماں سندھ اماں کہتے نہیں تھکتے۔ کبھی سندھ کی ماں بہنوں پر کیے گئے ستم اور ظلم پر ریلیاں نہیں نکالتے، کبھی پہیہ جام نہیں ہوتا۔ دنیا کا کاروبار چلتا رہے۔ اور دنیا کو تخلیق کرنے والیاں مرتی اجڑتی رہتی ہیں۔ فرعونیت کی سوچ نے سارے ذہنوں کو مفلوج کر رکھا ہے۔
ہم لوگ سندھ دھرتی پر قصیدے لکھ سکتے ہیں۔ لیکن سندھ کی روایتی امن پسندی اور صوفیت کو تباہ کرنے والوں پر انگلی بھی نہیں اٹھا سکتے۔ ہماری سرحدیں جرائم کا گڑھ بنی ہوئی ہیں۔ سندھ پنجاب کی سرحد، سندھ اور بلوچستان کی سرحدیں مجرموں کو پناہ دیتی ہیں۔ کیونکہ وہاں ریاست کا قانون نہیں چلتا۔ وہاں جمہوریت نہیں ہے۔
وہاں صرف گولی اور لاٹھی کی سرکار چل رہی ہے جو چند ٹکوں کے عوض بیٹیوں کو بکوا بھی دیتی ہے اور ہوس کے مارے کتوں کے آگے بھی ڈال دیتی ہے۔ بے لگام نظام وڈیرہ شاہی اور جاگیرداروں کے ہاتھوں بکی ہوئی مری ہوئی قوم کی نجات کے خواب دیکھنے والے بھی اب تھک رہے ہیں۔
چند لوگ جوکہ آمروں کا سا ذہن رکھتے ہیں ان کی نظر میں عورت ایک کھلونے سے زیادہ اہم نہیں۔ کھیلا اور توڑدیا۔ کھیلا اور پھینک دیا۔ جب جی چاہا بیچ دیا جب جی چاہا کسی کو تحفے میں دے دیا جب جی چاہا اپنی جان بچانے کے لیے جرگے کی بھینٹ چڑھا دیا۔ مائی اللہ ودھائی کے بیان کا مرحلہ جیسے ہی طے ہوگا اس کا علاج شروع ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی ایماندار پولیس آفیسر کی انسانیت جاگے اور وہ حقائق کو سامنے لانے میں کامیاب ہوسکے۔
ایک کرکٹ میچ کی کامیابی کی خوشی ہو یا کرکٹ میچ ہارنے کے غم کا ردعمل ہو، عوام کے انٹرویوز، منچلے نوجوانوں کے تاثرات میڈیا کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ بریکنگ نیوز کے سارے سلائیڈز سب یہی دکھاتے ہیں کہ اس وقت ہمارے ملک میں اس سے بڑھ کر کوئی بات اہمیت کی حامل ہی نہیں۔ اور اخبار کی بڑی بڑی سرخیوں پر تو حق صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔
یہ خبریں زیادہ اہم ہیں ایک عورت کے قتل سے۔ شاید یہی سوچتے ہیں میڈیا والے کہ عورتیں تو روز ہی قتل ہوتی رہتی ہیں اس میں بریکنگ نیوز والی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ بریکنگ نیوز میں وہ بات چلائی جاتی ہے جس سے ساری قوم کو دلچسپی ہو۔ اب کوئی عورت مرے، جیے یا زیادتی کا شکار ہو اس سے ہمارے عوام کو کیا لینا دینا۔
ہاں شاید اسی لیے مظلوم اللہ ودھائی اور اس کی 12 سالہ بیٹی شیما کے جلنے مرنے والی ''چھوٹی سی خبر '' کو نیشنل میڈیا پر کوئی بڑی جگہ نہ مل سکی۔
27فروری کو ڈھرکی کی محنت کش خاتون اللہ ودھائی جوکہ اپنے خاندان کی واحد کفیل تھی اور رلیاں بنانا اس کا ذریعہ معاش تھا۔ وہ قریبی گاؤں رلیاں بیچنے گئی، چھوٹی بیٹی 12 سال کی شیما اس کے ساتھ تھی۔ گاؤں میو عمر جوکہ تعلقہ اوباڑو میں ہے۔ مقامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماں اور بیٹی کو دھوکے سے نشہ آور چیز دے کر بے ہوش کر کے ویران جگہ پر ان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ بعد ازاں شیما کی چیخ و پکار پر تینوں درندے بھاگے اور ایک نے پٹرول چھڑک کر جھونپڑی کو آگ لگا دی۔
12 سالہ شیما جان سے گزر گئی۔ اللہ ودھائی کو اسپتال لے جایا گیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کوما میں چلی گئی۔ کچھ عرصہ رحیم یارخان کے اسپتال میں زیر علاج رہی۔ پھر اسے ڈھرکی لے جایا گیا۔ اللہ ودھائی جب تک کوما میں رہی یہ اندوہناک واقعہ پردے میں رہا۔ اس کے بیٹے یہی سمجھتے رہے کہ یہ اتفاقی حادثہ ہوا ہے۔
جلی ہوئی بہن کا جسم دفن کرتے ہوئے بھی وہ اس کے جسم پہ گزری قیامت سے بے خبر رہے۔ گھر سے 24 کلومیٹر دور ہونے والی وحشیانہ واردات ایک مہینے تک گھر والوں سے بھی چھپی رہی۔ جیسے ہی اللہ ودھائی ہوش میں آئی تو پتہ چلا کہ اس مظلوم پہ کیا بیتی تھی۔ اللہ ودھائی کا تعلق اس علاقے سے ہے جوکہ پسماندہ بھی ہے، نظرانداز کیا ہوا بھی ہے اور قبائلی نظام کے زیر اثر بھی ہے۔
یہ قبائلی نظام جوکہ ہمارے سرحدی علاقوں میں ایک راکھشس ایک شیطان کی طرح مسلط ہے اور سیکڑوں جانیں ہڑپ کر جاتا ہے۔ اللہ ودھائی بھی اسی کا شکار تھی۔ ایک قبائلی خونیں تکرار نے اسے اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
وہ محنت کر کے اپنے بوڑھے شوہر اور بچوں کو پال رہی تھی۔ اس منحوس شام بھی اسے گاؤں میں دیر ہوگئی، موسم کی خرابی اور برسات کی وجہ سے ایک موچی نے اسے زبردستی روکا۔ انکار کرنے پر اسے نشہ آور چیز دے کر اس کی بیٹی شیما اور اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ شیما کا تو نہ پوسٹ مارٹم ہوسکا نہ کوئی میڈیکل ٹیسٹ ہوا۔
وہ اپنے اوپر کیے گئے ظلم کے ساتھ زمین میں دفن ہوگئی۔وومن ایکشن فورم کے رابطہ کرنے پر یہ سطریں رقم کرتے وقت تک وہ عورت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔
وومن ایکشن فورم نے اپیل کی تھی کہ اس کو کرابلی کے برن وارڈ میں علاج کے لیے بھیجا جائے لیکن کل تک یہ ممکن نہ ہوسکا کیونکہ اس کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔
اللہ ودھائی کے کیس میں دکھ کی بات یہ ہے کہ پولیس اپنا روایتی کردار نبھا رہی ہے۔ جو ایف آئی آر درج ہوئی ہے اس میں زنا بالجبر کا ذکر نہیں ہے۔ اس سانحے کو ایک انتقامی حادثہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اللہ ودھائی کا جسم 50 فیصد جلا ہوا ہے۔ اور دل شاید 100 فیصد جل چکا ہے۔ اس کو بچایا جاسکتا ہے یا نہیں، ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے عورتوں کے معاملات کو اس حساسیت سے نہیں لیتے۔ اگر آج وہاں موجود پولیس فورس میں کوئی عورت آفیسر ہوتی تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ جلی ہوئی عورت بار بار زیادتی کا ذکر کرتی ہے۔ جھونپڑی کو پٹرول ڈال کر جلانے کی بات کرتی ہے۔
لیکن یہاں وہ لکھا جا رہا ہے جوکہ کسی بااثر کی مرضی کا ہے۔ اللہ ودھائی کا جو بیٹا مدعی تھا اس کو بھی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔گاؤں میو عمر میں ایک با اثر زمیندار ہے۔ جن افراد کے نام ایف آئی آر میں درج ہیں وہ اس زمیندار کے ہاری بتائے جاتے ہیں جن کے نام ایف آئی آر میں شامل ہیں۔ ایک بندہ اسپتال میں ہے۔ باقی روپوش ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کی داستان بہت طویل ہوتی ہے۔
ہمارے مسائل عورتوں کے قتل عورتوں سے زیادتیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں کیونکہ ہم ان کی جڑوں کو ختم نہیں کرتے۔ ہمارا نظام ان برائیوں کی آبیاری کرتا ہے۔ وہ لوگ وہ سیاستدان جو سندھ اماں سندھ اماں کہتے نہیں تھکتے۔ کبھی سندھ کی ماں بہنوں پر کیے گئے ستم اور ظلم پر ریلیاں نہیں نکالتے، کبھی پہیہ جام نہیں ہوتا۔ دنیا کا کاروبار چلتا رہے۔ اور دنیا کو تخلیق کرنے والیاں مرتی اجڑتی رہتی ہیں۔ فرعونیت کی سوچ نے سارے ذہنوں کو مفلوج کر رکھا ہے۔
ہم لوگ سندھ دھرتی پر قصیدے لکھ سکتے ہیں۔ لیکن سندھ کی روایتی امن پسندی اور صوفیت کو تباہ کرنے والوں پر انگلی بھی نہیں اٹھا سکتے۔ ہماری سرحدیں جرائم کا گڑھ بنی ہوئی ہیں۔ سندھ پنجاب کی سرحد، سندھ اور بلوچستان کی سرحدیں مجرموں کو پناہ دیتی ہیں۔ کیونکہ وہاں ریاست کا قانون نہیں چلتا۔ وہاں جمہوریت نہیں ہے۔
وہاں صرف گولی اور لاٹھی کی سرکار چل رہی ہے جو چند ٹکوں کے عوض بیٹیوں کو بکوا بھی دیتی ہے اور ہوس کے مارے کتوں کے آگے بھی ڈال دیتی ہے۔ بے لگام نظام وڈیرہ شاہی اور جاگیرداروں کے ہاتھوں بکی ہوئی مری ہوئی قوم کی نجات کے خواب دیکھنے والے بھی اب تھک رہے ہیں۔
چند لوگ جوکہ آمروں کا سا ذہن رکھتے ہیں ان کی نظر میں عورت ایک کھلونے سے زیادہ اہم نہیں۔ کھیلا اور توڑدیا۔ کھیلا اور پھینک دیا۔ جب جی چاہا بیچ دیا جب جی چاہا کسی کو تحفے میں دے دیا جب جی چاہا اپنی جان بچانے کے لیے جرگے کی بھینٹ چڑھا دیا۔ مائی اللہ ودھائی کے بیان کا مرحلہ جیسے ہی طے ہوگا اس کا علاج شروع ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی ایماندار پولیس آفیسر کی انسانیت جاگے اور وہ حقائق کو سامنے لانے میں کامیاب ہوسکے۔