سنگاپور۔۔۔ ماضی‘ حال اور مستقبل
سنگاپور کے بانی رہنما اور اولین وزیر اعظم لی کوآن یُو کو گزشتہ ہفتے سپرد خاک کردیا گیا۔
لاہور:
سنگاپور کے بانی رہنما اور اولین وزیر اعظم لی کوآن یُو کو گزشتہ ہفتے سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کا انتقال 23 مارچ کو 91 برس کی عمر میں ہوا تھا۔ ان کے آخری دیدار کرنے والوں کی تعداد چار لاکھ پندرہ ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے جوکہ سنگاپور کی کل آبادی کے 12 فیصد سے بھی متجاوز ہے۔ ایشیا پیسیفک کے بڑے بڑے لیڈروں کے علاوہ عالمی سطح کی ممتاز شخصیات نے ان کی آخری رسومات میں شرکت کی جن میں امریکا کے نامی گرامی سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر بھی شامل تھے۔
بلاشبہ لی کوآن یُو کا شمار دنیا کے ان عظیم رہنماؤں میں کیا جائے گا جنھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ اس حوالے سے ہمیں ایک انگریزی شاعر کی ایک خوبصورت نظم کے یہ دو مصرعے یاد آرہے ہیں:
Not gold but only men can make
a people great and strong
آئیے تھوڑی دیر کے لیے ماضی کا رخ کرتے ہیں جب سنگاپور ملائیشیا فیڈریشن کا سلسلہ اچانک ٹوٹ گیا تھا، جس کے بعد ایک غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ آنے والا وقت کیسا ہوگا کسی کو بھی اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔ سنگاپور اور اس کے عوام صرف حالات کے رحم و کرم پر تھے۔ معاشی حالات اتنے ناسازگار تھے کہ پانی بھی امپورٹ کرنا پڑتا تھا۔
اس وقت اس شہر نما ملک کے اطراف خطرات کے بادل منڈلا رہے تھے اور دور دور تک کوئی حامی و مددگار اورکوئی مونس و غم خوار نظر نہیں آرہا تھا۔ ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں لی کو آن یُو اپنے ملک و قوم کے لیے امید کی واحد روشن کرن بن کر ابھرے۔
ان کی منزل بہت دور اور راہ پرخار تھی۔ مگر ان کا عزم پختہ اور غیر متزلزل تھا۔ سب سے بڑا کام اپنی ٹیم کا چناؤ تھا جس کے لیے مردم شناسی شرط اول کا درجہ رکھتی تھی۔ مرد آہن لی کو آن یُو نے اپنی ٹیم کے ممبران کا انتخاب قطعی غیر جانبداری کے ساتھ صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر کیا۔ سفارش اور اقربا پروری کو انھوں نے اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ بے لوث خدمت اور مکمل ایمان داری بنیادی شرائط قرار پائیں اور ہر شخص کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پرکیا گیا۔
لی اور ان کی حکومت کو ابتدا میں انتہائی مشکل فیصلے کرنے پڑے جن میں آزاد مزدور یونینوں کا صفایا بھی شامل تھا تاکہ جزیرے سنگاپورکو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ سے زیادہ پرکشش بنایا جائے۔ اس فیصلے کی وجہ سے ان پر شروع شروع میں کڑی تنقید بھی کی گئی لیکن بہت جلد مخالفت کا یہ طوفان دودھ کے ابال کی طرح بیٹھ گیا۔ لی کی حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سنگاپور بیرونی سرمایہ کاروں کی جنت بن گیا۔
لی کو آن یُو ایک عظیم Visionary تھے۔ عنان حکومت سنبھالتے وقت انھوں نے اپنی آنکھوں میں جو سنہری خواب سجایا تھا اسے انھوں نے اپنی زندگی میں ہی سچ ثابت کر دکھایا۔ انھوں نے اس حقیقت کو پوری دنیا پر روشن کردیا کہ جیو پالیٹکس میں کسی کا سائز بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اصل اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ ملک کی قیادت کتنی اہل اور کتنی زیادہ مخلص ہے۔
لی کو آن یُو کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ انھوں نے اکیسویں صدی میں محض اتھارٹی کے بل بوتے پر اس وقت سنگاپور کو رول ماڈل بناکر پیش کردیا جب دنیا بھر میں جمہوریت کا راگ الاپا جا رہا تھا اور جمہوریت کو ترقی کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا جا رہا تھا۔ انھوں نے برسوں تک اپنے عوام کے سروں پر نہیں بلکہ عملاً دلوں پر راج کیا اور سنگاپور کے بے تاج بادشاہ کہلائے۔
1959میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بے وسیلہ سنگاپور نے لی کی آہنی قیادت میں معاشی ترقی کے سفر کا آغاز کردیا جس کے لیے شروع شروع میں بڑے ناپسندیدہ اقدامات بھی کرنے پڑے جن میں اختلاف رائے کے اظہار پر پابندی اور سیاسی مخالفین کی نظربندی جیسے انتہائی سخت فیصلے بھی شامل تھے۔ لی کے خیال میں ڈسپلن کے تحت ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے یہ تمام اقدامات مریض کو رو بہ صحت کرنے کے لیے دوائی کے کڑوے گھونٹ پلا دینے کے مترادف تھے۔
لی کو آن یُو نے ایک مرتبہ جب حکمرانی کی ذمے داری اپنے کندھوں پر اٹھائی تو اس کے بعد پھر پیچھے کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا اور ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ثابت قدمی کے ساتھ اپنی پیش رفت جاری و ساری رکھی۔ وہ اس بات کے تہہ دل سے قائل تھے اور تادم آخر اس پر قائم بھی رہے کہ:
مشکلے نیست کہ آساں نہ شَود
مرد باید کہ ہراساں نہ شَود
انھوں نے سنگاپور کی نوجوان نسل میں وہ عقابی روح بیدار کردی جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
لی کو آن یُو کی پالیسیوں، ان کے نظریے اور طرز حکمرانی سے یقینا اختلاف کیا جاسکتا ہے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے کرپشن، جرائم اور بدامنی کا خاتمہ کرکے اپنے ملک میں ترقی اور خوشحالی کا بول بالا کیا اور اقوام عالم میں اپنے ملک و قوم کو ایک قابل احترام مقام دلایا۔ اگرچہ لی کوآن یُو 1990 میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے دست بردار ہوگئے تاہم اس کے بعد بھی سنگاپور کی سیاست پر ان کی شخصیت کے اثرات نمایاں رہے۔
ان کے ملک کے عوام ان کی قیادت کے ثمرات کے حوالے سے انھیں آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ آیندہ نہ جانے کیا ہوگا۔ بہت سے لوگوں کو اس قسم کے خدشات لاحق ہیں کہ معلوم نہیں سنگاپور وقت کے نئے چیلنجوں کا مقابلہ کر بھی سکے گا یا نہیں کیونکہ دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح اسے بھی عالمگیریت کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور نئی ٹیکنالوجی متوسط اور مزدور طبقات کی زندگیوں پر شدت سے اثرانداز ہو رہی ہے۔
سنگاپور میں اس وقت بھی لی کوآن یُو کے خاندان کی ہی حکمرانی ہے کیونکہ ان کے صاحبزادے Lee Hsien Loong اس ملک کے موجودہ وزیر اعظم ہیں۔ وہ بھی ابھی تک اپنے والد کے ہی نقش قدم پر گامزن ہیں جو اس بات سے ظاہر ہے کہ میڈیا مسلسل ریاست کے کنٹرول میں ہے اور اظہار رائے کی آزادی محض اس پارک تک محدود ہے جہاں لوگ جمع ہوکر احتجاج اور مظاہرے کرسکتے ہیں۔ غالباً انھیں بھی اپنے والد کی طرح یہ اندیشہ بری طرح سے لاحق ہے کہ اگر لوگوں کو اظہار رائے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تو سنگاپور کی ترقی اور خوشحالی بہت جلد ملیا میٹ ہوجائے گی اور لی کوآن یُو کی ساری محنت اور کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا۔
اس بحث سے قطع نظر کہ یہ خدشات کتنے درست اور کتنے غلط یا بے بنیاد ہیں زمینی حقیقت یہ ہے کہ سنگاپور کی موجودہ شرح 54,000 GDP ڈالر فی کس ہے جوکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ بلند ہے اور یہ اعداد و شمار ورلڈ بینک کے فراہم کیے ہوئے ہیں۔ ملائیشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی دیگر اقوام آج بھی سنگاپور سے بہت پیچھے ہیں۔ البتہ آزادی کے متوالوں کو سنگاپور کی معاشی ترقی اور خوشحالی سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ انھیں تو اپنی آزادی ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق:
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
سنگاپور آیندہ کیا رخ اختیار کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
سنگاپور کے بانی رہنما اور اولین وزیر اعظم لی کوآن یُو کو گزشتہ ہفتے سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کا انتقال 23 مارچ کو 91 برس کی عمر میں ہوا تھا۔ ان کے آخری دیدار کرنے والوں کی تعداد چار لاکھ پندرہ ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے جوکہ سنگاپور کی کل آبادی کے 12 فیصد سے بھی متجاوز ہے۔ ایشیا پیسیفک کے بڑے بڑے لیڈروں کے علاوہ عالمی سطح کی ممتاز شخصیات نے ان کی آخری رسومات میں شرکت کی جن میں امریکا کے نامی گرامی سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر بھی شامل تھے۔
بلاشبہ لی کوآن یُو کا شمار دنیا کے ان عظیم رہنماؤں میں کیا جائے گا جنھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ اس حوالے سے ہمیں ایک انگریزی شاعر کی ایک خوبصورت نظم کے یہ دو مصرعے یاد آرہے ہیں:
Not gold but only men can make
a people great and strong
آئیے تھوڑی دیر کے لیے ماضی کا رخ کرتے ہیں جب سنگاپور ملائیشیا فیڈریشن کا سلسلہ اچانک ٹوٹ گیا تھا، جس کے بعد ایک غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ آنے والا وقت کیسا ہوگا کسی کو بھی اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔ سنگاپور اور اس کے عوام صرف حالات کے رحم و کرم پر تھے۔ معاشی حالات اتنے ناسازگار تھے کہ پانی بھی امپورٹ کرنا پڑتا تھا۔
اس وقت اس شہر نما ملک کے اطراف خطرات کے بادل منڈلا رہے تھے اور دور دور تک کوئی حامی و مددگار اورکوئی مونس و غم خوار نظر نہیں آرہا تھا۔ ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں لی کو آن یُو اپنے ملک و قوم کے لیے امید کی واحد روشن کرن بن کر ابھرے۔
ان کی منزل بہت دور اور راہ پرخار تھی۔ مگر ان کا عزم پختہ اور غیر متزلزل تھا۔ سب سے بڑا کام اپنی ٹیم کا چناؤ تھا جس کے لیے مردم شناسی شرط اول کا درجہ رکھتی تھی۔ مرد آہن لی کو آن یُو نے اپنی ٹیم کے ممبران کا انتخاب قطعی غیر جانبداری کے ساتھ صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر کیا۔ سفارش اور اقربا پروری کو انھوں نے اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ بے لوث خدمت اور مکمل ایمان داری بنیادی شرائط قرار پائیں اور ہر شخص کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پرکیا گیا۔
لی اور ان کی حکومت کو ابتدا میں انتہائی مشکل فیصلے کرنے پڑے جن میں آزاد مزدور یونینوں کا صفایا بھی شامل تھا تاکہ جزیرے سنگاپورکو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ سے زیادہ پرکشش بنایا جائے۔ اس فیصلے کی وجہ سے ان پر شروع شروع میں کڑی تنقید بھی کی گئی لیکن بہت جلد مخالفت کا یہ طوفان دودھ کے ابال کی طرح بیٹھ گیا۔ لی کی حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سنگاپور بیرونی سرمایہ کاروں کی جنت بن گیا۔
لی کو آن یُو ایک عظیم Visionary تھے۔ عنان حکومت سنبھالتے وقت انھوں نے اپنی آنکھوں میں جو سنہری خواب سجایا تھا اسے انھوں نے اپنی زندگی میں ہی سچ ثابت کر دکھایا۔ انھوں نے اس حقیقت کو پوری دنیا پر روشن کردیا کہ جیو پالیٹکس میں کسی کا سائز بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اصل اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ ملک کی قیادت کتنی اہل اور کتنی زیادہ مخلص ہے۔
لی کو آن یُو کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ انھوں نے اکیسویں صدی میں محض اتھارٹی کے بل بوتے پر اس وقت سنگاپور کو رول ماڈل بناکر پیش کردیا جب دنیا بھر میں جمہوریت کا راگ الاپا جا رہا تھا اور جمہوریت کو ترقی کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا جا رہا تھا۔ انھوں نے برسوں تک اپنے عوام کے سروں پر نہیں بلکہ عملاً دلوں پر راج کیا اور سنگاپور کے بے تاج بادشاہ کہلائے۔
1959میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بے وسیلہ سنگاپور نے لی کی آہنی قیادت میں معاشی ترقی کے سفر کا آغاز کردیا جس کے لیے شروع شروع میں بڑے ناپسندیدہ اقدامات بھی کرنے پڑے جن میں اختلاف رائے کے اظہار پر پابندی اور سیاسی مخالفین کی نظربندی جیسے انتہائی سخت فیصلے بھی شامل تھے۔ لی کے خیال میں ڈسپلن کے تحت ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے یہ تمام اقدامات مریض کو رو بہ صحت کرنے کے لیے دوائی کے کڑوے گھونٹ پلا دینے کے مترادف تھے۔
لی کو آن یُو نے ایک مرتبہ جب حکمرانی کی ذمے داری اپنے کندھوں پر اٹھائی تو اس کے بعد پھر پیچھے کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا اور ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ثابت قدمی کے ساتھ اپنی پیش رفت جاری و ساری رکھی۔ وہ اس بات کے تہہ دل سے قائل تھے اور تادم آخر اس پر قائم بھی رہے کہ:
مشکلے نیست کہ آساں نہ شَود
مرد باید کہ ہراساں نہ شَود
انھوں نے سنگاپور کی نوجوان نسل میں وہ عقابی روح بیدار کردی جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
لی کو آن یُو کی پالیسیوں، ان کے نظریے اور طرز حکمرانی سے یقینا اختلاف کیا جاسکتا ہے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے کرپشن، جرائم اور بدامنی کا خاتمہ کرکے اپنے ملک میں ترقی اور خوشحالی کا بول بالا کیا اور اقوام عالم میں اپنے ملک و قوم کو ایک قابل احترام مقام دلایا۔ اگرچہ لی کوآن یُو 1990 میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے دست بردار ہوگئے تاہم اس کے بعد بھی سنگاپور کی سیاست پر ان کی شخصیت کے اثرات نمایاں رہے۔
ان کے ملک کے عوام ان کی قیادت کے ثمرات کے حوالے سے انھیں آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ آیندہ نہ جانے کیا ہوگا۔ بہت سے لوگوں کو اس قسم کے خدشات لاحق ہیں کہ معلوم نہیں سنگاپور وقت کے نئے چیلنجوں کا مقابلہ کر بھی سکے گا یا نہیں کیونکہ دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح اسے بھی عالمگیریت کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور نئی ٹیکنالوجی متوسط اور مزدور طبقات کی زندگیوں پر شدت سے اثرانداز ہو رہی ہے۔
سنگاپور میں اس وقت بھی لی کوآن یُو کے خاندان کی ہی حکمرانی ہے کیونکہ ان کے صاحبزادے Lee Hsien Loong اس ملک کے موجودہ وزیر اعظم ہیں۔ وہ بھی ابھی تک اپنے والد کے ہی نقش قدم پر گامزن ہیں جو اس بات سے ظاہر ہے کہ میڈیا مسلسل ریاست کے کنٹرول میں ہے اور اظہار رائے کی آزادی محض اس پارک تک محدود ہے جہاں لوگ جمع ہوکر احتجاج اور مظاہرے کرسکتے ہیں۔ غالباً انھیں بھی اپنے والد کی طرح یہ اندیشہ بری طرح سے لاحق ہے کہ اگر لوگوں کو اظہار رائے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تو سنگاپور کی ترقی اور خوشحالی بہت جلد ملیا میٹ ہوجائے گی اور لی کوآن یُو کی ساری محنت اور کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا۔
اس بحث سے قطع نظر کہ یہ خدشات کتنے درست اور کتنے غلط یا بے بنیاد ہیں زمینی حقیقت یہ ہے کہ سنگاپور کی موجودہ شرح 54,000 GDP ڈالر فی کس ہے جوکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ بلند ہے اور یہ اعداد و شمار ورلڈ بینک کے فراہم کیے ہوئے ہیں۔ ملائیشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی دیگر اقوام آج بھی سنگاپور سے بہت پیچھے ہیں۔ البتہ آزادی کے متوالوں کو سنگاپور کی معاشی ترقی اور خوشحالی سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ انھیں تو اپنی آزادی ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق:
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
سنگاپور آیندہ کیا رخ اختیار کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔