امید افزا پیش رفت
جس طرح فرد کی نفسیات ہوتی ہے اسی طرح اقوام کی بھی نفسیات ہوتی ہے،
April 03, 2015
جس طرح فرد کی نفسیات ہوتی ہے اسی طرح اقوام کی بھی نفسیات ہوتی ہے، اسی طرح جیسے کسی فرد کا نظریہ ہوتا ہے اسی طرح اقوام کے بھی نظریات ہوتے ہیں۔
جس طرح فرد سے غلطی ہوتی ہے اسی طرح اقوام اور ممالک و سربراہان مملکت سے بھی غلطیاں سرزد ہوا کرتی ہیں، تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجیے، بڑے بڑے نظریات جن کی بدولت انسان نے دنیا کو تہہ و بالا کیا عقل انسانی نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو انسانیت کو ان مفسدہ پرداز باطل نظریات سے دستبردار ہونا پڑا۔ تاریخ کے ان بدلتے نظریات کا تسلسل تا حال جاری ہے اور تا قیامت اصلاح کا یہ عنصر غالب رہے گا۔
اب دیکھیے نا سرکش امریکا بہادر کی نفسیات و نظریات میں کیسی تبدیلی وقوع پذیر ہورہی ہے اور اسے فکر امن عالم دامن گیر ہوگئی ہے۔ دوسری جانب بھارت کس شد و مد کے ساتھ پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ ہوچلا ہے۔
9/11 کے بعد امریکا نے کتنے شدید اور خطرناک اقدام اٹھائے، معصوم انسانوں کا خون اس در اتنا تیزی سے بہایاگیا کہ اندازہ لگانا ممکن نہ رہا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے یا خود سب سے بڑا دہشت گرد ہے، دوسری جانب بھارت ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہا کہ پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دلوائے لیکن اب یوم پاکستان پر بھارت کی جانب سے نہ صرف پاکستان کو مبارکباد دی گئی بلکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں تمام تصفیہ طلب معاملات مذاکرات سے حل ہوسکتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ متوقع مذاکرات کے تذکرے سے قبل بہتر ہوگا کہ پہلے واشنگٹن میں وہائٹ ہاؤس کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس کا ذکرکروں جس میں 60 ممالک کے وزرا، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے نمایندوں نے شرکت کی۔
تین روزہ غوروخوض کے بعد دنیا میں پھیلتی دہشت گردی کے انسداد کے حوالے سے جائزہ لیا گیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ''غیر ریاستی عسکریت اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے فقط ملٹری فورس کا استعمال اور انٹیلی جنس کی اطلاعات اکٹھی کرنا اور تبادلہ خیال ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے قانون کی مکمل حکمرانی اور کمیونٹی کی بنیاد پر حکمت عملی جیسے مطلوب اقدامات کرنا ہوں گے'' ''دہشت گردی کے خطرات سے مقابلہ کرنے کے اقدامات میں ایسی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے کہ بین الاقوامی قانون کا مکمل نفاذ کیا جائے۔
خاص طور پر انسانی حقوق کا بین الاقوامی قانون، پناہ گزینوں کے اصولوں اور مقاصد پر عمل کیا جائے'' واضح کیا گیا کہ ''دہشت گردی کے انسداد کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے کوئی قوم تنہا دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکتی'' کانفرنس میں تیزی سے پھیلتی دہشت گردی کے محرکات اور نشو و ارتقا کے اسباب کا جائزہ بھی لیا گیا اور یہ بھی طے پایا کہ ''عالمی سطح پر دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو کسی مذہب، قومیت اور تہذیب سے منسوب نہ کیا جائے۔''
9/11کے بعد تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نظریے کو فروغ دینے کی حتی المقدور کوشش کی گئی، خود سابق امریکی صدر بش نے پہلے اسے صلیبی جنگ قرار دے دیا لیکن سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے جب سمجھایا کہ ''ایسا نہیں کہیے اس کے نتائج امن عالم کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں'' تو صدر بش اپنے اس جذباتی اور غیر ذمے دارانہ بیان سے دستبردار ہوگئے اور اب وہائٹ ہاؤس میں مذکورہ بین الاقوامی انسداد دہشت گردی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر باراک اوباما نے مغرب اور اسلام کے درمیان جنگ کے تاثرکو قطعی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکا کی جنگ اسلام کے نہیں بلکہ اسلام کو بدنام کرنے والوں کے خلاف ہے۔
انھوں نے اس حقیقت کا بھی اظہار کیا کہ ''دہشت گرد دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی نمایندگی نہیں کرتے، مغرب اور اسلام کے باہمی تعلقات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے تہذیبوں کے درمیان تصادم کے مفروضے کو تسلیم نہ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا'' گویا یہ تبدیل ہوئے، امریکا کا ایک نیا چہرہ ہے۔
، خدا کرے یہ بدلتے نظریات امریکی چہرے سے بدنما داغ دھونے اور اسے نکھارنے میں کامیاب ثابت ہوسکیں اور ستم رسیدہ مسلم امہ اور عالم اسلام کو کچھ سکھ کا سانس نصیب ہو اور امریکی جارحیت سے نجات اس کا مقدر ٹھہرے تو یہ کسی معجزے سے کم نہ ہوگا، آنے والا وقت ہی مذکورہ کانفرنس کی درست تشریح کرسکے گا۔
عالمی کانفرنس کے اختتام پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے واضح کیا کہ ''شواہد موجود ہیں کہ ہمسایہ ملک نے پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکائی ہے'' دوسری جانب بھارت کا جنگی و ایٹمی جنون بجائے خود اس کی انتہا پسندی و دہشت گردی کا عکاس اور منہ بولتا ثبوت ہے بھارت نے اپنے بجٹ کا ایک خاطر خواہ حصہ اسلحے کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لیے مختص کر رکھا ہے جس کی بدولت وہ دنیا کی تیسری بڑی فوجی طاقت ہے۔
جب کہ پاکستان کا اس دوڑ میں شمار آٹھویں نمبر پر ہوتا ہے، پاکستان کی تیاریاں دفاعی تو بھارت کی جارحانہ رہی ہیں جب کہ پاکستان اور بھارت دونوں غریب ممالک میں شمار ہوتے ہیں اور دونوں ہی ترقی پذیر ممالک ہیں بھارت ترقی پذیر غریب ممالک کی فہرست میں سولہویں جب کہ پاکستان بائیسویں نمبر پر آتا ہے، اگرچہ بھارت پاکستان سے معاشی اعتبار سے کافی بہتر ہے تاہم اس کے باوجود بھارت میں 80 کروڑ افراد کے لیے ایک وقت کے کھانے کا بندوبست بھی اب محال ہوچکا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان چار بڑی جنگیں ہوچکی ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقتوں کے عوام ایٹمی یرغمال ہیں اور مسئلہ کشمیر دونوں کے درمیان ایک ایسی دبی ہوئی چنگاری کی مانند ہے جو کبھی بھی بھڑک اٹھی تو خطہ تباہ و برباد ہوجائے گا لہٰذا دونوں ترقی پزیر غریب عوام پر مشتمل ممالک کی ترقی و خوشحالی، امن واستحکام میں مضمر ہے اور امن و خوشحالی کا دار و مدار تمام تصفیہ طلب مسائل پر گفت و شنید اور جامع بامقصد اور کامیاب مذاکرات میں پوشیدہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹاتھا وہیں سے بغیر وقت ضایع کیے شروع کیاجائے اور جلد از جلد تمام مسائل کو حتمی طور پر حل کیا جائے، یہ امر بھی خوش آیند ہے کہ بھارت نے خود مذاکرات کی آمادگی ظاہر کی ہے تاہم اگر ماضی کی طرح اس بار بھی صرف زبانی جمع خرچ کرنا ہے تو ہمیشہ کی طرح یہ دونوں ممالک کی اقوام کے ساتھ ایک مرتبہ پھر مذاق ہوگا، مذاکرات کو بامقصد بنانے کے لیے کشمیریوں کو اس میں شامل کیاجائے اور مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے، دہشت گردی عالمی مسئلہ بن چکا ہے بھارت کو اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ پاکستان سے دوستی اور اتحاد کے ذریعے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں افغانستان کی نئی حکومت بھی اہمیت کی حامل ہے۔
تینوں ممالک کو مشترکہ مفاد وتحفظ کے تناظر میں ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوںگے بصورت دیگر دہشت گردی کا عفریت سب کو کھا جائے گا ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے مسائل کا مکمل اور حقیقی حل تلاش کیا جائے اور دائمی و حتمی امن و سکون اور خوشحالی کا تحفہ دونوں ممالک اپنی اپنی عوام کو دیں، انسانیت روز اول سے اس مادر ارضی پر دست و گریباں رہی ہے، بڑی جنگیں ہوئیں، بڑے سورما آئے اور چلے گئے مملکتیں بنتی بگڑتی رہیں۔
نفسیات بدلی، نظریات بدلے، واقعات بدلے اور بالآخر مہذب دنیا درجنوں چھوٹی بڑی خونریز لڑائیوں اور دو عالمگیر جنگوں میں غارت گردی و بربادی کے تباہ کن نتائج بھگتنے کے بعد آج اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ بنی نوع انسان کی فلاح و نجات نفرتوں اور جنگوں میں نہیں بلکہ پیار و محبت اور امن وامان میں ہے اور پائیدار امن کا راز صرف اور صرف مذاکرات میں ہے، نیک نیتی پر مبنی کامیاب مذاکرات میں۔