آسمان گرے یا پہاڑ ٹوٹے آئین کے مطابق ہی فیصلے کرینگے چیف جسٹس

آئین کا نفاذ نہ ہوا تو صرف صوبائی حکومت نہیں کوئی اور حکومت بھی جائیگی ، 3دن کے اندر بندے لائے جائیں، ریمارکس


News Agencies October 09, 2012
آرمی چیف کا بیان حوصلہ افزا ہے: چیف جسٹس، نئے پولیس افسران کو شورش زدہ علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم، بلوچستان کے مسئلے پر کوئی خوش نہیں، اسپیکر اسلم بھوتانی فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت سے لاپتہ افراد اور اغوا برائے تاوان کے واقعات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے صوبے میں تقرر کیے گئے نئے پولیس افسران کو شورش زدہ علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔

جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ آسمان گرے یا پہاڑ ٹوٹے ہم تو آئین و قانون کے تحت ہی چلیں گے، صبر سے کام لے رہے ہیں، چاہتے ہیں ملک میں جمہوریت رہے، ہمیں آرڈر کر نے پر مجبور نہ کیا جائے، صوبے میں کابلی گاڑیاں بند کرانے کا کہا تھا، صرف باتیں ہو رہی ہیں، ایف سی کے خلاف انکوائری اور ثبوت ہیں، ایک بندہ بازیاب نہیں ہوا ، تین دن کے اندر بندے لائے جائیں، ایف سی کو بلوچستان میں دوستانہ ماحول بنانا ہو گا، بلوچستان کے معاملے پر آرمی چیف کا بیان حوصلہ افزا ہے۔

پیر کو کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ پشین سے اغوا کیا گیا لڑکا بازیاب کرا لیا گیا ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ تو چیف سیکریٹری نے اسلام آباد میں بتا دیا تھا، کوئی بڑی چیز بتائیں؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آخری سماعت سے اب تک جرائم میں کمی آئی یا نہیں؟ چیف جسٹس نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ عدالتی حکم پرکتنے پولیس افسران بلوچستان آئے؟ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن حامد شکیل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کے بعد 30پولیس افسران بلوچستان آئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان افسران کی تعیناتی کیوں نہیں کی گئی؟ ہم نے کہا تھا کہ صوبے میں کابلی گاڑیاں بند کرائیں، اسلحہ اور ڈیتھ اسکواڈ بند کرائیں مگر کچھ اچھا نہیں ہوا، صرف باتیں ہیں، صوبے میں سری لنکا سے بڑی دہشت گردی نہیں تھی جہاں کل ٹی 20 میچ ہو رہا تھا۔ ہم نے صرف آرڈر پاس کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آسمان گرے یا پہاڑ ٹوٹے ہم تو آئین و قانون کے مطابق ہی فیصلے کریں گے۔ ایک موقع پر چیف جسٹس کا ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کر کے کہنا تھا کہ جس کے گھر بیٹے، بھائی، خاوند کی لاش پڑی ہو اس کی دنیا اجڑ جاتی ہے، خدا نہ کرے کسی کے ساتھ ایسا ہو، صرف احساس کی بات ہے۔

آپ ہمیں اس مقام تک نہ پہنچائیں کہ ہم کچھ کہیں، ایف سی کے خلاف انکوائری اور ثبوت ہیں، ایف سی کا یہی رویہ ہے، ایک بندہ بازیاب نہیں ہوا، ہمیں مجبور نہ کریں کہ ہم آرڈر کریں، تین دن کے اندر بندے لائیں۔ امن وامان کے حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل کا بیان تھا کہ کوئٹہ میں جرائم میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔ عدالت میں پیش ہونے والے اسپیکر محمد اسلم بھوتانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے کوئی بھی خوش نہیں، سیاسی نظام کی اپنی مجبوریاں ہیں، پولیس اور چیف سیکریٹری بہت سی باتیں کھلی عدالت میں نہیں کہہ سکتے، انھیں علیحدہ سنا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کو نتائج کی پروا نہیں، بلوچستان پولیس کی کارکردگی صفر ہے۔

اسلم بھوتانی نے کہاکہ آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری شریف انسان ہیں وہ ہماری ناکامی کا ملبہ خود لے رہے ہیں اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبے میں ناصر محمود آئے انھوں نے کام کیا، ایمانداری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ڈلیور نہ کریں۔ چیف جسٹس نے آئی جی پولیس سے استفسار کیا کہ دوسرے صوبوں سے آنیوالے پولیس افسران کو کہاں تعینات کیا۔ انھیں شورش زدہ علاقوں میں ڈی پی او لگائیں اور رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ انھوں نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی پولیس افسران کی تقرری کبھی بھی صوبے میں نہیں ہوئی۔ بینچ میں شامل جسٹس خلجی عارف نے بلوچستان کے چیف سیکریٹری سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آیا ایف سی کی تعیناتی کے بعد صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان میں تمام پیسہ لگ جاتا تو آج وہاں امن و امان کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا، ڈیرہ بگٹی کے 80فیصد لوگ گھروں کو لوٹ جائیں تو بڑی بات ہو گی، علاقے میں صوبائی حکومت کی عملداری نہیں ہے اور وہاں پر ایف سی کا کنٹرول ہے، لوگ صوبے میں اسلحہ لے کر دندناتے پھر رہے ہیں جن کے گھر والے قتل ہو رہے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ چیف سیکریٹری بلوچستان کا کہنا تھا کہ بہت سے پولیس افسروں کا تبادلہ کرا دیا گیا ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی بھی یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔

وہ بھی مانتے ہیں کہ صوبہ جل رہا ہے، سیشن جج، وکیل اور پولیس افسر قتل ہو رہے ہیں تاہم کوئی گرفتاری نہیں ہو رہی۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ آئین کے نفاذ میں حکومت ناکام ہوئی تو اس کے ساتھ دوسری حکومت بھی جاسکتی ہے، لاپتہ افراد آپ کے پاس نہیں اور امن و امان بھی ٹھیک نہیں، گزشتہ سماعت سے اب تک کی ٹارگٹ کلنگ، لاپتہ اور بازیاب افراد کی مکمل رپورٹ پیش کی جائے، حیرانی ہے کہ افسران کے ٹرانسفر ہم نے کرائے، ایسے افسران بھی ہیں جن کے ڈومیسائل بلوچستان کے ہیں لیکن ایک دن بھی یہاں سروس نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے گھروں میں لاشیں جا رہی ہیں وہ کب تک حالات کی بہتری کا انتظار کریں گے۔

ایک ماہ بعد آئے ہیں لیکن کسی کیس میں پیش رفت نہیں ہوئی، ہم نے بہت مدد کی لیکن مسائل حل کرنے کی خواہش ہی نہیں، آپ سے تو سندھ والے اچھے ہیں، اجمل پہاڑی، کامران مادھوری سمیت جس کا کہا پکڑ کر عدالت میں لا کھڑا کر دیا، اگر آئین پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو حکومت کا کوئی جواز نہیں رہتا، جہاں بھوک اور افلاس ہو وہاں جرائم ہوتے ہیں۔ سماعت کے دوران چیف سیکریٹری نے کہا کہ کوئی ڈیرہ بگٹی جانا چاہے تو تحفظ دیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ڈیرہ بگٹی کی انتظامیہ کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر آرمی چیف کا بیان حوصلہ افزا ہے تاہم ہمیں بڑے اور بہتر منطقی انجام کی طرف جانا ہو گا، بلوچوں، پشتونوں اور فرقہ وارانہ کلنگ ڈیتھ اسکواڈ ہی تو ہے۔ عدالت میں سینئر وکلا منیر اے ملک، راجہ سلمان، ایم ظفر، ہادی شکیل بھی پیش ہوئے اور صوبے کی صورتحال کے حوالے سے اپنے بیانات قلمبند کرائے۔

آئی این پی کے مطابق ایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گھر گھر آگ لگی ہے آگے چلنے نہیں دیا جا رہا اگر مار پیٹ سے مسئلہ حل ہوتا تو انگریز مار پیٹ میں تیز تھا یہاں معاملہ بالکل صفر ہے۔ این بی آرکے وکیل راناشمیم نے موقف اختیار کیا کہ کسی گاڑی کو پکڑتے ہیں تو اس پرایم این اے لکھا ہوا ملتا ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیا ایم این اے قانون سے بالاتر ہوتا ہے، اس سے کیوںڈرتے ہیں؟ ایم این اے کو تو آپ سے ڈرنا چاہیے۔ عدالت نے کابلی گاڑیوں سے متعلق کسٹم کی رپور ٹ کو غیر تسلی بخش قراردیتے ہوئے کلکٹرکسٹم کو 11 اکتوبرکوطلب کر لیا۔ ثنا نیوز کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ اگر آئین پر عمل نہیں ہوتا تو بلوچستان میں حکومت کا کوئی جواز نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ 2010 ء سے معاملہ سن رہے ہیں اگر ایک فریم ورک بن جائے تو بہتر ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پر عمل نہ ہوا تو صرف ایک صوبائی حکومت نہیں جائے گی کوئی اور حکومت بھی جائے گی، ابھی تک ہم صبرو تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں ہم ملک اور جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد جلد از جلد پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت (آج) تک ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں