خط میں صدارتی استثنیٰ کے براہ راست ذکر پر عدالت کا اعتراض
خط کے متن میں ملک قیوم کا خط واپس لینے، باہمی تعاون کے معاہدے اور مقدمات کھولنے کے دو پیراگراف شامل تھے، ذرائع
NEW YORK:
سوئس حکام کو مجوزہ خط کے مسودے میں صدر کو حاصل آئینی استثنیٰ کا براہ راست تذکرہ عدالت اور حکومت کے درمیان اختلاف کی وجہ بنی۔
عدالت کو اعتراض تھا کہ جو نکتہ کبھی حکومت نے عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا اور جس پر دو رائے نہیں اسے خط کے متن میں شامل کرنے کا جواز نہیںبنتا ہے جبکہ حکومت کا موقف تھا آرٹیکل 248 سب آرٹیکل (3)آئین کاحصہ ہے اور اسے مسودے میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیںاور نہ ہی اس سے عدالت عظمٰی کا فیصلہ متاثر ہو گا۔ انتہائی مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ این آر او عمل درآمد کیس کی گزشتہ سماعت پر وزیر قانون نے عدالت کے روبرو خط کا جو مسودہ پیش کیا وہ عدالت کی ہدایت کے مطابق سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خط کو واپس لینے۔
باہمی تعاون کے معاہدے اور بند کیے گئے مقدمات کو کھولنے کے 2 پیرا گراف پر شامل تھا جبکہ کسٹمری لاء کی پروژن کو حذف کرنے کی شرط پر بھی عمل کیا گیا تھا لیکن اس دفعہ حکومت نے پیرا گراف نمبر 3 میں صدر کو حاصل آئینی استثنٰی کا براہ راست تذکرہ کر کے عدالت کو حیران کر دیا۔ مجوزہ مسودے میں لکھا گیا کہ جب تک آصف علی زرداری مملکت کے سربراہ ہیں ان کے خلاف کورٹ پر وسیڈنگ نہیں ہو سکتی۔ خط کے مسودے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 248کا پورا متن شامل کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق عدالت نے پہلے تو آئینی استثنٰی کی شق کو شامل کرنے پر اعتراض کیا۔
لیکن پھر ہدایت کی کہ اس شق کو خط کے مسودے میں اس طرح شامل کیا جائے کہ جس سے این آر او فیصلے کا پیرا گراف نمبر 178متاثر نہ ہو۔ ذرائع کے مطا بق 5 رکنی بینچ کو اعتراض تھا کہ صدرکے استثنٰی کا معاملہ این آر او کیس سے لے کر اب تک عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا گیا اور نہ ہی اس پر دو رائے ہے لیکن سوئس حکام کے نام خط میں ملک کے اندر حاصل استثنٰی کا تذکرہ غیر ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر قانون چیمبر میں بحث کے دوران اس موقف پر ڈٹے رہے کہ آرٹیکل 248 آئین کاحصہ ہے، اسے کسی دستاویز کا حصہ بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق عدالت نے اس شق کو مسودے میں اس طرح جذب کرنے کی ہدایت کی جس سے عدالت کا فیصلہ متاثر نہ ہو۔ ذرائع نے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ سماعت پر مثبت نتیجہ نکلنے کی امید ہے کیونکہ عدالت کی زیادہ تر شرائط تسلیم کر لی گئی ہیں۔ ادھر سوئس حکام کے نام خط کے نظر ثانی مسودے کو آج حتمی شکل دے دی جائے گی جو کل سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
سوئس حکام کو مجوزہ خط کے مسودے میں صدر کو حاصل آئینی استثنیٰ کا براہ راست تذکرہ عدالت اور حکومت کے درمیان اختلاف کی وجہ بنی۔
عدالت کو اعتراض تھا کہ جو نکتہ کبھی حکومت نے عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا اور جس پر دو رائے نہیں اسے خط کے متن میں شامل کرنے کا جواز نہیںبنتا ہے جبکہ حکومت کا موقف تھا آرٹیکل 248 سب آرٹیکل (3)آئین کاحصہ ہے اور اسے مسودے میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیںاور نہ ہی اس سے عدالت عظمٰی کا فیصلہ متاثر ہو گا۔ انتہائی مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ این آر او عمل درآمد کیس کی گزشتہ سماعت پر وزیر قانون نے عدالت کے روبرو خط کا جو مسودہ پیش کیا وہ عدالت کی ہدایت کے مطابق سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خط کو واپس لینے۔
باہمی تعاون کے معاہدے اور بند کیے گئے مقدمات کو کھولنے کے 2 پیرا گراف پر شامل تھا جبکہ کسٹمری لاء کی پروژن کو حذف کرنے کی شرط پر بھی عمل کیا گیا تھا لیکن اس دفعہ حکومت نے پیرا گراف نمبر 3 میں صدر کو حاصل آئینی استثنٰی کا براہ راست تذکرہ کر کے عدالت کو حیران کر دیا۔ مجوزہ مسودے میں لکھا گیا کہ جب تک آصف علی زرداری مملکت کے سربراہ ہیں ان کے خلاف کورٹ پر وسیڈنگ نہیں ہو سکتی۔ خط کے مسودے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 248کا پورا متن شامل کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق عدالت نے پہلے تو آئینی استثنٰی کی شق کو شامل کرنے پر اعتراض کیا۔
لیکن پھر ہدایت کی کہ اس شق کو خط کے مسودے میں اس طرح شامل کیا جائے کہ جس سے این آر او فیصلے کا پیرا گراف نمبر 178متاثر نہ ہو۔ ذرائع کے مطا بق 5 رکنی بینچ کو اعتراض تھا کہ صدرکے استثنٰی کا معاملہ این آر او کیس سے لے کر اب تک عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا گیا اور نہ ہی اس پر دو رائے ہے لیکن سوئس حکام کے نام خط میں ملک کے اندر حاصل استثنٰی کا تذکرہ غیر ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر قانون چیمبر میں بحث کے دوران اس موقف پر ڈٹے رہے کہ آرٹیکل 248 آئین کاحصہ ہے، اسے کسی دستاویز کا حصہ بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق عدالت نے اس شق کو مسودے میں اس طرح جذب کرنے کی ہدایت کی جس سے عدالت کا فیصلہ متاثر نہ ہو۔ ذرائع نے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ سماعت پر مثبت نتیجہ نکلنے کی امید ہے کیونکہ عدالت کی زیادہ تر شرائط تسلیم کر لی گئی ہیں۔ ادھر سوئس حکام کے نام خط کے نظر ثانی مسودے کو آج حتمی شکل دے دی جائے گی جو کل سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔