نیا احتساب کمیشن بل صدر کو استثنیٰ 2002سے پہلے کے مقدمات بند

کمیشن موجودہ وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، ریٹائرڈ فوجی افسران کا احتساب کر سکے گا

قومی اسمبلی میںن لیگ کا ہنگامہ ، شیم شیم کے نعرے، اعتماد میں نہیں لیا گیا، اے این پی کی بھی مخالفت، بل قواعد کے مطابق لائے،فاروق نائیک، متعلقہ کمیٹی کے سپرد. فوٹو اے پی پی

حکومت نے قائمہ کمیٹی میں 3سال سے زیر التوا قومی احتساب آرڈیننس بل متنازع قراردے کر اسے واپس لیتے ہوئے نیا قومی احتساب کمیشن بل2012 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔

اسپیکر نے اپوزیشن اور اے این پی اراکین کے شدید احتجاج کے باعث بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا،کمیٹی کو 11اکتوبر تک رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی کی زیر صدارت ہوا۔ وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک نے قومی احتساب کمیشن بل 2012 پیش کیا تو مسلم لیگ ن کی طرف سے سخت اعتراضات کیے گئے۔ ن لیگ کے زاہد حامد نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ احتساب کے حوالے سے ایک بل قائمہ کمیٹی میں 2009 سے زیر غور ہے، کمیٹی کے 30سے زائد اجلاس ہوئے، ہماری طرف سے 58 ترامیم پیش کی گئیں، کمیٹی نے 2010ء میں رپورٹ تیار کی جس میں ن لیگ کی طرف سے 4 اختلافی نوٹ دیے گئے۔

ہمیں اب بتایا گیاہے کہ کمیٹی کے پاس زیر غور بل واپس لے لیا گیا ہے، حکومت بتائے کہ ایسا کیوںکیا گیا۔اس پر فاروق نائیک نے کہاکہ 2009 میں احتساب بل قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا گیا تھا لیکن آج تک کمیٹی اس کومنظور نہ کر سکی، یہ کمیٹی کے اراکین ہی بتا سکتے ہیں کہ کیوں اتنا پیسہ خرچ ہونے کے باوجود اسے پاس نہیںکیا گیا، آج مشرف کا قانون چل رہا ہے، ہم چاہتے ہیں احتساب کا ایسا بل ہو جس میں کسی کو انتقام کا نشانہ نہ بنایاجائے، احتساب بل کے باعث پیپلز پارٹی کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں، بینظیر جلا وطن رہیں، آصف زرداری نشانہ بنے، ہم شفاف بل لیکر آئے ہیں، پہلا بل قواعد وضوابط کے مطابق واپس لیا ہے۔


انھوں نے درخواست کی کہ یہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے اور قائمہ کمیٹی کو11اکتوبر تک اس پر اپنی رپورٹ پارلیمان میں لانے کاکہاجائے۔ زاہد حامد نے کہا کہ اپریل 2009 میں پہلا بل قائمہ کمیٹی کوگیا، جسے اپریل 2010ء میں قائمہ کمیٹی نے پاس کیا، حکومت غلط بیانی کر رہی ہے، اپوزیشن ہر اجلاس میں احتجاج کرتی رہی کہ یہ بل ایوان میں لایا جائے، ایوان میں قائمہ کمیٹی کی رپورٹ بھی پیش کی جائے، حکومت چار سال تک آمر کا قانون کیوں چلاتی رہی، اب اس کو تبدیل کرنے کا خیال آیا ہے۔ وفاقی وزیر خورشید شاہ نے کہا کہ ہم چاہتے تو اکثریت کی بنیاد پر بل بلڈوزکر سکتے تھے لیکن اچھے قانون کو اچھے طریقے سے لانا چاہتے ہیں۔

اتفاق رائے سے بل منظور ہوتو یہ سونے پر سہاگہ ہوگا۔ن لیگ کی انوشہ رحمٰن نے کہاکہ پیپلزپارٹی کا طریقہ کار جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اے این پی کے پرویزخان نے کہا کہ ہمیں نئے بل پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ بعد ازاں ڈپٹی اسپیکرنے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کوبھجوا دیا۔ثنا نیوز نے بتایا کہ بل پیش ہونے پر ن لیگ کے ارکان نے ہنگامہ آرائی کی اور شیم شیم کے نعرے لگائے۔ بل کے مطابق کمیشن کا چیئرمین سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج یا گریڈ 22 کا ریٹائرڈ افسر ہو گا۔ کمیشن سابق صدر،موجودہ وزیر اعظم،موجودہ وزرائے اعلیٰ، وزرا، سرکاری ملازمین، فوج کے ریٹائرڈ اور مستعفی افسران کے احستاب کا مجازہوگا۔احستا ب کیلیے سیشن ججز پرمشتمل عدالتیں قائم کی جائیںگی،کمیشن بین الااقوامی معاونت کیلیے معاہدے کرنے کا بھی مجازہوگاجبکہ اسے دوسرے ملک میں اثاثوںکا کھوج لگانے کا بھی اختیار ہو گا۔

کمیشن کسی بھی شخص کوگرفتار کرنے،جائیدادضبط کرنے کامجازہوگا۔ الزام ثابت ہونے کی صورت میںمجرم کو 7سال قیدکی سزا دی جائے گی۔ مقدمہ چلنے کے دس سال گزرنے کے بعدکارروائی خودبخودختم ہو جائے گی، چیئرمین کی مدت ملازمت 3سال ہوگی اوریہ ناقابل توسیع ہوگی۔ نجی ٹی وی کے مطابق حکومت نے 2002 سے پہلے کے تمام کرپشن مقدمات دفن کرنے کامنصوبہ تیارکر لیاہے، احتساب کے نئے قانون کے تحت کمیشن اکتوبر 2002 سے پہلے کے مقدمات نہیں کھول سکے گا۔ نیا احتساب قانون یکم اکتوبر 2002ء سے نافذ العمل ہو گا، نئے بل میں صدرکے سوا کسی کو استثنٰی نہیں دیاگیا۔احتساب کمیشن کی اپنی خود مختار تحقیقاتی ایجنسی ہوگی جس کاسربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوگا۔ ایجنسی تمام معاملات کی آزادانہ تحقیقات کرے گی، عوامی عہدہ رکھنے والے شخص کو2 سال سزا ہونے پر5 سال کی نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آئی این پی کے مطابق وزیر قانون نے جرائم کی تحقیقات میں جدت لانے کیلیے تحقیقات برائے منصفانہ سماعت بل2012 پیش کیاجسے کمیٹی کو ریفرکر دیا گیا ۔ پاکستان کی تنظیم برائے تخلیقی لوڈ بل 2012 متفقہ منظورکر لیا گیا جبکہ پاکستان اکادمی ادبیات بل2010ء پیش کرنے کی تحریک پیش کی گئی جسے موخر کر دیا گیا۔ نمائندے کے مطابق وزیر دفاع نوید قمر نے توجہ دلائو نوٹس پر بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین اوگرا کرتا ہے، قیمتیں عالمی منڈی میں اتار چڑھائو کی بنیاد پر متعین کی جاتی ہیں، حکومت کا قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں۔ ن لیگ کے طارق فضل چوہدری نے قیمتیں ہفتہ وارمتعین کرنے کا مطالبہ کیا جس پر نوید قمر نے کہا کہ یہ معاملہ واپس ای سی سی میں لایا جائے گا۔ قبل ازیں ہائوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی نے46 ویں سیشن کے شیڈول اور ایجنڈے کی منظوری دی جس کے مطابق اسمبلی کارواں سیشن 12اکتوبر تک جاری رہے گا۔ ادھر خواتین کی مخصوص نشستوں پر منیرہ شاکر نے حلف اٹھا لیا۔ سانحہ8 اکتوبر اور نفیسہ شاہ کے جلسے میں فائرنگ سے جاں بحق ہونے والوں کیلیے فاتحہ خوانی کی گئی بعد ازاں اجلاس آج صبح تک ملتوی کر دیا گیا۔

Recommended Stories

Load Next Story