UNDP کی رپورٹ صیہونی سازش ہے

آج کے دور میں تمام ممالک ایک کھلی کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔


راؤ منظر حیات April 04, 2015
[email protected]

آج کے دور میں تمام ممالک ایک کھلی کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔کوئی چاہے بھی تو اپنے ملک میں موجود کسی بھی نا انصافی، تفاوت یا تعصب کو چھپا نہیں سکتا۔ ٹیکنالوجی نے معلومات حاصل کرنے کے نظام کو اتنا سہل بنا ڈالا ہے کہ اب ہر معاملہ شیشے کی طرح سب کے سامنے آ جاتا ہے۔

U.N.D.P اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ یہ ہر سال انسانی ترقی (Human Development) پر ایک ہمہ جہتی رپورٹ شایع کرتا ہے۔ اس رپورٹ کو ہر سطح پر مستند تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ 1990ء میں شروع ہوا اور تازہ رپورٹ 2014ء میں شایع ہوئی ہے۔ Human Development Report 2014 کی ٹیم کے لیڈر خالد ملک ہیں۔

یہ ادارہ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی معاونت کرنے والوں میں کئی ماہرین شامل ہیں جن میں ایواجیسن پرسن (Eva Jesperson) ماریز کگلر(Maurice Kugler) نمایاں ہیں۔ یہ ٹیم کسی بھی ملک کے نظام کو عوام کی زبوں حالی کی عینک سے دیکھتی ہے اور پرکھتی ہے۔ چند اہم نکات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ معاشرے میں غربت کو کم کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے گئے۔ کوئی حکومت اس کے متعلق فکر مند ہے بھی کہ نہیں۔ ان اور دیگر عوامل کے پرکھنے کے بعد انسانی ترقی کو ٹھوس بنیادوں پر جانچا جاتا ہے۔ 2014ء کی یہ رپورٹ 255 صفحات کی ہے۔

میں اس رپورٹ کا مکمل تجزیہ تو آپ کے سامنے پیش نہیں کرسکتا کیونکہ مجھے کالم کی تنگی داماں اورآپ کے قیمتی وقت کا ادراک بھی ہے۔ کچھ عرض کرنے سے پہلے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ، رپورٹ کو مرتب کرنے میں کوئی N.G.Oشامل نہیں ہے۔ رپورٹ میں سات لوگوں کے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ مگر اس میں کسی مسلمان محقق یا مخیر انسان کا نام ونشان تک نہیں ہے۔ دنیا کے عظیم مفکر کنفیوشس کی یہ بات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔

اُس نے حکومت کے متعلق ایک حیرت انگیز سچ بولا تھا۔ " اچھے طرز حکمرانی کے حامل ملک کے لیے رعایا کی"غربت" قابل شرم بات ہے اور کسی بھی برے طرز حکمرانی کے حامل ملک کے لیے "دولت"ایک قابل شرم بات ہے"۔ اس رپورٹ میں دنیا کے تمام ممالک کو چار درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا گروپ، ان ممالک کا ہے جو بہترین انسان ترقی کے زمرے میں آتے ہیں۔ دوسرا گروپ،ان ممالک پر مشتمل ہے جو اچھی انسانی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ تیسرا درجہ، معقول انسانی کرنے والے ممالک پر مشتمل ہے۔

چوتھا یا آخری گروپ میںسستُ انسانی ترقی والے ممالک شامل ہیں۔ آخری ٹیبل سب سے خوفناک نظر آتا ہے۔تیسرا گروپ (Medium Human Development)والا ہے یہ مالدیپ سے شروع ہو کرگینی (Equatorial guniea)پر ختم ہو جاتا ہے۔ اسی میں 41ممالک شامل ہیں۔آخری گروپ Low Human Development والے ممالک کی فہرست پر مشتمل ہے۔ یہ نیپال سے شروع ہوتا ہے اور نائجیر (Niger)پر ختم ہو جاتا ہے۔

اس میں 42ممالک شامل ہیں۔ نیپال کا 145 نمبر پر ہے اور ہم نیپال سے نیچے 146نمبر پر پراجمان ہیں۔ ہمارے نیچے کینیا، میانمار، چاڈ اور کانگو جیسے ممالک ہیں۔ شکر کی بات یہ ہے کہ افغانستان ہم سے بہتر نہیں ہے۔ وہ اسی فہرست میں 169نمبر پر ہے۔ سب سے نیچے درجہ کے زیادہ تر ممالک کا تعلق براعظم افریقہ سے ہے۔ ہمیں سب سے کم ترقی یافتہ گروپ میں شامل ہونے کے اعزاز پر شرم آنی چاہیے۔ مگر کیوں۔پاکستان میں انسان عمر کی اوسط طوالت 66برس ہے۔

سنگا پور کی بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہاں انسانی عمر94برس تک جا چکی ہے۔ ملائشیا جیسا ملک جو ہمارے سامنے آزاد ہوا، اس میں انسانی عمر75برس تک جا پہنچی ہے۔حتیٰ کہ بھوٹان بھی ہم سے بہتر ہے۔ ہمارے ملک میں مناسب علاج کی سہولیات تو خیر بڑے دور کی بات، یہاں اصلی دواؤں کا ملنا دشوار ہو چکا ہے۔ مجھے آج ایک نامور ڈاکٹر کی بات یاد آ رہی ہے۔ "ڈاکٹر قول"اب اس دنیا میں نہیں ۔وہ 65برس کی عمر میں بھی خوب ورزش کرتے تھے۔ ایک دن میں نے انھیں تھوڑا سا بے چین پایا۔ بتانے لگے کہ وہ آج ملک کی ایک بڑی سیاسی شخصیت کی والدہ کے آپریشن میں Anaesthesia دے کر آئے ہیں۔

ان سے پوچھا کہ اس میں پریشانی کی بات توکوئی نہیں،بلکہ یہ تو معمول کی بات ہے۔ ان کا جواب نفی میں تھا۔ بتانے لگے کہ میں نجی شعبے کا مہنگا ترین ڈاکٹر ہوں۔ اگر ملک کے قائدین کو اپنے سرکاری ڈاکٹروں اور اسپتالوں پر ذرا سا بھی اعتماد ہوتا تووہ کبھی بھی میرے پاس نہ آتے۔ "ڈاکٹر قول"کی بات ہمارے نظام کے ایک منافق پہلو سے پردہ اٹھاتی ہے۔

اول تو، قائدین اپنے ملک میں علاج نہیں کراتے۔ تمام،بلا تفریق،نزلے زکام کے علاج کے لیے بھی لندن یا امریکا جاتے ہیں۔ اگر پاکستان میں علاج کرانا بھی پڑے، تو سرکاری اسپتال کا سوچا تک نہیں جا سکتا۔ وہ صرف اور صرف نجی شعبے کے مہنگے ترین معالجوں پر انحصار کرتے ہیں۔ مجھے لندن کے ایک گورے ڈاکٹر نے بڑی دلچسپ بات کہی۔ کہنے لگا کہ تمھارے ملک کے بہت سے اہم لوگ علاج کی غرض سے میرے پاس آتے ہیں۔ علاج کے علاوہ ان کی ایک ذاتی درخواست بھی ہوتی ہے۔ یہ کہ ہماری بیماری اور اس کی نوعیت کا کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ اسے راز ہی رہنا چاہیے۔

خیر میں اپنے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔ پاکستان میں ایک بچہ اوسط طریقے سے 4.7برس اسکول میں گزارتا ہے۔ میں محض ان بچوں کا ذکر کر رہا ہوں جو اسکول میں داخل ہو جاتے ہیں۔ کرغزستان میں یہ طوالت 9.3 برس کی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا ذکر کر کے آپ کو زیر بار نہیں کرنا چاہتا بلکہ افسردہ نہیں کرنا چاہتا ۔ آپ تعلیم کی طرف دیکھئیے۔ U.N.D.Pکی نظر میں پاکستان کا تمام نظام تعلیم عدم مساوات پر مبنی ہے۔ بچوں کو پڑھنے کے لیے برابر تعلیمی مواقع مہیا کرنے میں ریاست مکمل طور پر نا کام ہو چکی ہے۔ امیر اور غریب کے تعلیمی اداروں میں عدم توازن 45فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

مطلب یہ ہے کہ غریب کا بچہ سو سال تک اچھے اسکول میں پڑھنے کا خواب پورا نہیں کر سکتا۔دوسری طرف، تیس سال کی حکومتوں کے تعلیم کے شعبہ میں اعلانات اور اشتہارت کی بارش کا ملاحظہ فرمائیے تو ایسے لگتا ہے کہ ہم ایک تعلیمی انقلاب بلکہ تعلیمی سیلاب میں ڈوب چکے ہیں۔ حقیت کیا ہے، اب کیا ذکر کرنا۔بین الاقوامی سطح پر ہم کہاں ہیں اس کا جائزہ لینا بھی کافی تکلیف دہ ہے۔ U.N.D.Pکی رپورٹ میں اس کے لیے Inter national Integrationکا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

اُس میں مختلف عناصر یا اجزاء شامل ہیں۔ تجارت، دولت کا پیرونی یا اندرونی سفر، انسانوں کے بین الاقوامی رابطے (Communication)شامل ہیں۔ ان تمام میں ہم آخری درجے کے ممالک میں موجود ہیں بلکہ لڑ کھڑا رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں درجنوں مزید اجزاء (Indicators) ہیں۔ ان تمام میں ہم کسی بھی مثبت فہرست میں شامل نہیں۔ U.N.D.P 2014کی یہ رپورٹ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ ہر کوئی اُس کو دیکھ سکتا ہے۔ پڑھ سکتا ہے۔ ہم بحیثیت ملک اتنا پیچھے کیوں ہیں۔

میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں مگر کیا یہ تجزیہ بھی ایک سازش ہے؟کیا دشمن طاقتوں نے ہمارے خلاف جھوٹی کہانی گھڑی ہے؟کیا حقیقت میں اس وقت ہم ترقی کی معراج پر ہیں؟ کیا ہم نے ترقی کا سفر شروع بھی کیا ہے یا نہیں؟ کیا U.N.D.P 2014کی رپورٹ ایک صیہونی سازش ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں