نئے پاکستان سے جوڈیشل کمیشن تک
ہر بڑی سیاسی جماعت کی نظریاتی رہبری کے لیے ایک تھنک ٹینک ہوتا ہے جو پارٹی کو اہم ایشوز پر گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان 2013ء کے الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر معاہدہ ہو گیا، اس حوالے سے ایک آرڈینینس بھی جاری کر دیا گیا۔ معاہدے کے مطابق کمیشن اپنی تحقیقات 45 روز میں مکمل کر لے گا۔
کمیشن کی تحقیقات کی نوعیت کیا ہو گی اس کا فیصلہ کیا ہو گا اور نتائج کیا ہوں گے، اس پر ہم یہاں گفتگو اس لیے نہیں کریں گے کہ ہماری 68 سالہ تاریخ بے شمار طرح طرح کے کمیشنوں اور کمیٹیوں سے بھری ہوئی ہے، حمود الرحمن کمیشن سے تازہ جوڈیشل کمیشن تک، تحقیقات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک موجودہ شش جہت کرپٹ اور بدعنوان نظام قائم ہے۔
اگست 2014ء میں عمران اور قادری نے اس کرپٹ اور سر تا پا بدعنوان نظام کے خلاف تحریک شروع کی تو لاکھوں عوام نے اس تحریک کو خوش آمدید اس لیے کہا کہ اس ملک کے 18 کروڑ عوام اس ظالمانہ غیر منصفانہ کرپٹ نظام سے سخت بیزار تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس قدر بڑے پیمانے پر کسی تحریک کو پذیرائی نہیں ملی، اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ عوام اس نظام کی تبدیلی چاہتے تھے۔
عمران خان 16-15 سال سے سیاست کر رہے ہیں لیکن چونکہ موصوف روایتی سیاست کی پیروکاری کر رہے تھے لہٰذا عوام نے انھیں لفٹ نہیں دی لیکن جب وہ Status Quo کو توڑنے کے نعرے کے ساتھ سڑکوں پر آئے تو عوام نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھا لیا، یہی صورت حال طاہر القادری کے ساتھ تھی، اگرچہ طاہر القادری پاکستانی سیاست میں زیادہ فعال نہیں رہے لیکن جب موصوف نے انقلاب کا نعرہ لگایا تو عوام نے ان کی بھی پذیرائی کی، جس کا مطلب یہی تھا کہ عوام انقلاب یا بامعنی تبدیلی چاہتے ہیں۔
طاہر القادری کے پیروکاروں نے اگرچہ دو ماہ سے زیادہ عرصے تک ڈی چوک اسلام آباد میں بال بچوں کے ساتھ دھرنا دیا لیکن چونکہ یہ دھرنا جذباتی بنیادوں پر بغیر کسی منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی کے شروع کیا گیا تھا اس لیے اسے ختم ہی ہونا تھا، سو وہ ختم ہو گیا اور مولانا عوام کو اپنے ناکام انقلاب کے حوالے کر کے کینیڈا رخصت ہو گئے۔ ہم نے دھرنوں کے دوران آؤٹ آف دی وے جا کر دھرنوں کی حمایت اس لیے کی کہ پہلی بار کسی نے چہروں کے بجائے نظام بدلو کی آواز بلند کی تھی اور پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک کہ سر سے پیر تک دھاندلی زدہ نظام موجود ہے۔
دھرنا تحریک کے دوران صرف دو ہی نعرے سنائی دے رہے تھے ''انقلاب'' اور ''نیا پاکستان''۔ جب نااہلی اور مسلسل حماقتوں کی وجہ دھرنا تحریک ناکام ہوئی تو عمران خان نے جلسوں جلوسوں کا سلسلہ شروع کیا، اگرچہ دھرنوں کی ناکامی کی وجہ سے عوام بددل ہو گئے تھے لیکن مایوس نہیں ہوئے تھے اس لیے وہ عمران خان کے جلسوں میں بھی لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوتے رہے۔ لیکن ''بوجوہ'' جلسوں کا سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا لہٰذا عوام تحریک سے مایوس ہو گئے۔
اس پورے عرصے میں عمران خان کو جو پذیرائی ملی وہ اس نظام کو بدلنے کے وعدے کا نتیجہ تھی، لیکن افسوس کہ عوام کی توقعات پر پانی پھیرتے ہوئے عمران خان اس قدر پیچھے آگئے کہ وہ جوڈیشل کمیشن کو ہی سب سے بڑی کامیابی قرار دینے لگے۔ دھاندلیاں اور دھاندلیوں کی تحقیقات اس سیاسی کان نمک کے عناصر ترکیبی ہیں جس کا مقصد ''آئی بلا کو ٹال تو'' کے سوا کچھ نہیں۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قتل کی تحقیقات کے لیے جو کمیشن بنایا گیا تھا اس کا نتیجہ 64 سال سے گمشدہ کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل، قتل کے محرکات اور قاتلوں کی نشان دہی کی گئی تھی، اسی لیے پراسرار طاقتوں نے حمود الرحمن کمیشن کو ہی اغوا کر لیا۔ چونکہ وہی پراسرار طاقتیں آج بھی موجود اور فعال ہیں لہٰذا اس کمیشن کے نتائج سے کوئی بڑی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں نہ اس قسم کے کمیشنوں کا انقلاب یا نیا پاکستان کے نعروں سے کوئی تعلق بن سکتا ہے۔
ہر بڑی سیاسی جماعت کی نظریاتی رہبری کے لیے ایک تھنک ٹینک ہوتا ہے جو پارٹی کو اہم ایشوز پر گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے لیکن یہ طریقہ کار ان پارٹیوں میں جاری رہتا ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں جمہوریت کی محض زبانی باتیں نہیں کرتیں۔ جب قیادت عقل کل کا روپ دھار لیتی ہے اور ہر فیصلہ اپنی عقل کے مطابق کرنے لگتی ہے تو نتیجہ وہی سامنے آتا ہے جو قادری اور عمران کی تحریکوں کا حاصل بن گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام اس ظالمانہ نظام سے اس حد تک بیزار ہیں کہ کوئی بھی اس نظام کو بدلنے کی بات کرے تو عوام اس کے پیچھے چل پڑیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ جب اس کھیل سے عوام مایوس ہو جائیں گے تو پھر کیا ہو گا۔ وہی ہوگا جو منظور خدا ہو گا اور 1789ء کے انقلاب میں ہوا تھا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ دھاندلی اور دھاندلی کی تحقیقات ہمارے کرپٹ ترین نظام کا ایک اہم حصہ ہیں عمران خان کو جو حمایت ملی تھی وہ اس کرپٹ نظام کا حصہ بننے پر نہیں ملی تھی بلکہ اس کرپٹ نظام کو توڑنے کے وعدے پر ملی تھی۔ اب بالفرض محال جوڈیشل کمیشن دھاندلیاں ثابت کرتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟ زیادہ سے زیادہ جو ہو سکتا ہے وہ یہی کہ مڈٹرم الیکشن ہو جائیں گے۔
اگر ایسا ہوا تو عمران خان کو حکومت بنانے کا موقع یا وزیراعظم بننے کا موقع ملے گا؟ یہ سوال اس لیے اہم اور ضروری ہے کہ لڑائی حکومت بنانے یا وزیراعظم بننے کے مطالبے سے شروع نہیں ہوئی تھی، ویسے دلوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن باہر کی بات یہی ہے کہ انقلاب اور نیا پاکستان ہی قادری اور عمران کا مطلوب و مقصد تھا۔ کیا دھرنا اور جلسہ تحریکوں سے مایوس لوگ دوبارہ ان رہنماؤں پر اعتبار کریں گے جو انھیں بیچ منجدھار میں چھوڑ کر چلے گئے؟
سنو غور سے سنو، اس ملک کے عوام کا مسئلہ نہ دھاندلیوں کی تحقیق ہے نہ مڈٹرم الیکشن ہیں، اس ملک کے عوام کا مسئلہ اس نظام کی مکمل تبدیلی ہے جس میں اراکین پارلیمنٹ اراکین سینیٹ کی بولیاں لگتی ہیں، نئے اور بڑے نوٹوں سے بھرے سوٹ کیس ادھر سے ادھر ہوتے ہیں۔ ایسا نظام جس میں ضمیر بکتے ہیں، مینڈیٹ بکتا ہے۔
دین دھرم بکتا ہے، نوکریاں اور عہدے بکتے ہیں، تھانے نیلام ہوتے ہیں، کیا ایسا نظام جسم بدتر نہیں۔ اگر بدتر ہے تو ایسے نظام کو کسی لیپاپوتی سے یا نئے کپڑے پہنا کر بہتر نہیں کیا جا سکتا۔ اس نظام کو سر سے پیر تک بدلنا ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں 1917ء کا انقلاب روس اور 1949ء کا انقلاب چین تو ممکن نہیں لیکن یہ تو ممکن ہے کہ ان بدترین عوامل کو ہٹایا جائے جو انقلابات کی راہ میں رکاوٹ بنے رہتے ہیں۔
مثلاً ہمارے ملک میں کسی بھی بامعنی تبدیلی کے لیے لینڈ ریفارمز یعنی زرعی اصلاحات، انتخابی اصلاحات، سیاسی اصلاحات، بلدیاتی نظام،کرپٹ افراد کو انتخابی نظام سے باہر کرنا' وہ بنیادی شرائط ہیں جو ہزار مڈٹرم الیکشن سے بہتر اور ضروری ہیں کیا یہ اصلاحات صرف حکومتوں کی تبدیلی سے ممکن ہیں؟ اگر کوئی سیاستدان عوام سے مخلص اور ملک سے محبت کرنے والا ہے تو دھاندلیوں اور دھاندلیوں کے ٹوپی ڈراموں سے باہر نکلے اور ان مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر آئے عوام منتظر ملیں گے۔