آخری ملاقات

قیدی بیوی اور بیٹی کو ان کی جیل سے لایاگیا یہ باپ کی بیٹی سے اور شوہر کی بیوی سے آخری ملاقات تھی۔


Saeed Parvez April 04, 2015

لاہور: وہ جانتا تھا کہ اس کا دشمن اسے زندہ نہیں چھوڑے گا۔اس کے قتل کا حتمی فیصلہ ہوچکا تھا، عدالتیں تو محض بہانہ تھیں، جج دباؤ میں تھے، عیار دشمن نے ہمیشہ کی طرح زبردست جال بنا تھا، اب اس کے لیے سرخروئی کا بس ایک ہی رستہ باقی بچاتھا کہ وہ موت کو گلے لگالے، اور اس نے ایسا ہی کیا۔

اہم ترین رہنماؤں نے منہ بول تاوان ادا کرنے کی پیشکش کیں لیکن دشمن گھاٹے کے سودے کے لیے کیسے تیار ہوجاتا، سو دشمن نے ایسی تمام پیشکشیں رد کردیں، ہاں البتہ دشمن کی یہ خواہش ضرور تھی کہ وہ سرخروئی کی موت نہیں رسوائی کی موت مرے، اس کے لیے دشمن نے کال کوٹھری میں رحم کی اپیلوں والے کاغذات بھجوائے مگر اس نے کسی ایسے کاغذ پر دستخط کرنے سے صاف انکارکردیا، وہ جانتا تھا کہ یہ رحم کی اپیلیں اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ماردیںگی لیکن وہ ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا تھا، دشمن ہاتھ ملتا ہی رہ گیا اور وہ سرخروئی کی منزل طے کر گیا۔ لگتا ہے فیض نے اسی لیے کہا تھا۔

کس دھج سے کوئی مقتل کو چلا
وہ شان سلامت رہتی ہے

قیدی بیوی اور بیٹی کو ان کی جیل سے لایاگیا یہ باپ کی بیٹی سے اور شوہر کی بیوی سے آخری ملاقات تھی۔ باتیں تو سب ہوچکی تھیں گزرتے لمحے قیدی بیوی اور بیٹی کو سب کچھ بتاچکے تھے۔ ملاقات کے دوران دشمن کے لوگ موجود تھے، کچھ سننے کے لیے، کچھ جاننے کے لیے مگر وہاں سننے اور جاننے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ حالانکہ آنکھوں کی زبانی باپ سب کچھ آنکھوں کی زبانی سن رہے تھے، سمجھ رہے تھے اور پھر ملاقات ختم ہوگئی۔ بیوی اور بیٹی اپنی جیل کی طرف روانہ ہوگئے۔

پھانسی کی رات آخری پہر میں جیل کے ملازم آئے ''سر! اٹھیے'' اس نے جواب دیا ''میں سویا نہیں جاگ رہا ہوں'' سر! کچھ چاہیے؟ جواب تھا ''ہاں! کافی پیوںگا'' کافی پیش کی گئی، وقت حیران تھا کہ یہ کیسا شخص ہے، چند ساعتوں بعد اسے پھانسی دی جائے گی اور یہ ذرا برابر پریشان نہیں ہے، بالکل نارمل، کافی پینے کے بعد اس نے کہا ''مجھے شیو بنانا ہے'' سامان مہیا کیا گیا، اس نے کئی دنوں کی بڑھے ہوئے چہرے کے بال صاف کیے، غسل کیا۔ اب وہ بالکل تیار تھا، پھانسی گھاٹ کی طرف جانے کے لیے۔ تختہ دار پر اپنی جان وارنے کے لیے۔

پھانسی کے تمام انتظامات مکمل تھے، جیل کے حواری اسے لیے پھانسی گھاٹ جا رہے تھے، وہ فاتحانہ شان کے ساتھ چل رہا تھا، پھر اس نے سیڑھیاں عبور کیں اور لٹکتے ہوئے پھندے کے عین نیچے کھڑا ہوگیا اور دنیا والوں کو یہ نعرہ دے گیا۔ جو رہتی دنیا تک گونجتا رہے گا۔

''زندہ ہے بھٹو زندہ ہے''

یہ نعرہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کا آخری فیصلہ تھا، اس لیے وہ رسوائی کی موت نہیں، سرخروئی کی موت مرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ رحم کی اپیل پر دستخط کردیتا تو اسی لمحے مرکھپ جاتا، مگر اس نے ایسا نہیں کرنا تھا اس لیے کہ اس کی تحریک کا نقطہ آغاز پھانسی گھاٹ سے ہونا تھا۔

دشمن اسے مار کر سمجھ رہے تھے کہ قافلہ رک گیا مگر یہ ان کی بھول تھی، بھٹو کا قافلہ آج بھی رواں دواں ہے، بھٹو اب ایک سوچ بن چکا ہے، ایک راستہ بن چکا ہے، ایک منزل بن چکا ہے اس کا قافلہ اس کے رستے پر چلتے ہوئے آج بھی اس کی منزل کی طرف چل رہا ہے۔

میں آخری ملاقات کی طرف پھر لوٹتا ہوں، آخری ملاقات میں تختہ دار والے نے بیوی اور بیٹی کو آنے والے حالات کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا تب بھی تخت پر جھوٹ بیٹھا تھا اور سچ سولی چڑھ رہا تھا۔ علی سردار جعفری کا شعر لکھتا ہوں۔

ہے ہمیشہ سے یہی افسانۂ پست و بلند
حرفِ باطل زیب منبر، حرب حق بالائے دار

دیکھ لیں حرفِ باطل زیب منبر تھا مگر پست تھا اور حرفِ حق بالائے دار تھا مگر بلند تھا۔ باطل مٹ گیا اور حق آج بھی زندہ ہے، جالب کے دو شعر بالائے دار کی نذر:
رہ گئے نقش ہمارے باقی

مٹ گئے ہم کو مٹانے والے
چھوڑ جائیں گے کچھ ایسی یادیں
روئیں گے ہم کو زمانے والے

جالب کی یہ غزل بہت پرانی ہے، ساٹھ کی دہائی کی غزل ہے مگر شاعر کا لکھا زمانوں کا اسیر نہیں ہوا کرتا، تو میں بات کررہاتھا ''آخری ملاقات'' کی۔ اس ملاقات کے دو کردار بعد کو تحریک لے کر چلے اور نصرت بھٹو کو مال روڈ پر لہو لہان کیا گیا یہ تو محض ابتدا تھی آگے ابھی اور آگے چلنا تھا۔ ماں کے دو بیٹوں کو مار دیاگیا ایک خوبصورت شہزادے کو زہر دیا گیا، دوسرے ''شینھ ورگے'' بیٹے کو سر عام گولیاں ماری گئیں۔ مرتضیٰ بھٹو کو ختم کرنے کے لیے کافی گولیاں ماری گئیں۔

مرتضیٰ کی موت کے بعد ماں بھی ختم ہوگئی تھی بس وہ زندہ تھی، پھر ''آخری ملاقات'' میں شامل بیٹی بے نظیر بھٹو کو بھی لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردیاگیا، بے نظیر کو بھی باپ سے ملنے کی بڑی جلدی تھی ایک زبردست قاتلانہ حملہ شارع فیصل کراچی میں ہوچکا تھا۔ بے نظیر بچ گئی اور صبح پھر میدان عمل میں اتر آئی، لیاری کے شہیدوں اپنے جانثار کے گھروں پر، آخر بے نظیر کو بھی ''بے نظیر'' بننا تھا اور وہ بھی اپنے باپ کی طرح۔ 54 سال کی عمر میں چلی گئیں۔

''آخری ملاقات'' اپنے اختتام کو پہنچی۔ سنا ہے آج بھی ہزاروں لوگ گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں جمع ہوتے ہیں جہاں شہیدوں کے لہو سے جمہور کے چار مینارے روشن ہیں۔ ایک باپ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ لوگ آتے ہیں، شہیدوں کے میناروں سے اپنے من اجالتے ہیں اور قافلے میں شریک منزل کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک سوچ ہے، ایک راستہ ہے، ایک منزل ہے، جالب نے بھٹو کی پہلی برسی پر کہا تھا۔
ہاتھ کس کا پس عدالت تھا

دار پر کس نے اس کو کھنچوایا
ایک ہی مجرم زمانہ ہے
اس پہ الزام تک نہیں آیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں