کامیابی بہترین انتقام
بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میںپاکستان کی بانڈز ریٹنگ مستحکم سے مثبت کر دی ہے
موجودہ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ بات اظہر منِ الشمس ہے کہ دو سال سے بھی کم عرصے میں اُس نے ملک کی معاشی اور اقتصادی صورتحال کو پہلے سے کئی درجہ بہتر بنا دیا ہے۔ ہمارے لیے یہ خبر یقینا باعث مسرت و ِاطمینان ہے کہ دنیا کی اقتصادی صورتحال پر باریک بینی سے مشاہدہ رکھنے والے ادارے بھی اِس حکومت کی کوششوں اور کامیابیوں کے نہ صرف معترف ہیں بلکہ وہ اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میںپاکستان کی بانڈز ریٹنگ مستحکم سے مثبت کر دی ہے۔ساتھ ہی ساتھ اُس نے آئی ایم ایف کے قرضوں کی وقت پر ادائیگی کے باوجود فارن ایکس چینج کے ذخائر میں اضافے کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے حکومت کی حکمتِ عملی کی تعریف کی ہے۔ اِس وقت ہمارے اسٹیٹ بینک کے پاس 11ارب 20کروڑ ڈالرزکے ذخائر موجود ہیں جب کہ صرف ایک بر س پہلے جنوری 2014 میں اِن کی مالیت صرف 3ارب 20کروڑ ڈالرزتھی۔
اپریل 2014 میں یورو بانڈزکے اجراء اوردسمبر 2014 میں سکوک بانڈز کے اجراء سے ہمارے فارن ایکس چینج میں یہ بہتری ممکن ہو پائی ہے۔صرف ایک سال میں آٹھ ارب ڈالرز کا اضافہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔اِس کے علاو ہ حکومت کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی کچھ کمی دیکھی گئی ہے۔ حکومت کی اعلیٰ حکمتِ عملی اور مناسب منصوبہ بندی کی وجہ سے توقع کی جا رہی ہے کہ مالیاتی سال کے اختتام تک جی ڈی پی کی شرح بھی 8.0فیصد تک پہنچ جائے گی۔
یہ بات یقینا قابلِ ستائش ہے کہ اعلیٰ سطح پر کرپشن اور مالی بدعنوانی کے واقعات میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔اب تک جتنے بھی منصوبے شروع کیے گئے ہیں اُن میں مالی بے قاعدگی اور ہیرا پھیری کی شکایت شازو نادر ہی دیکھی گئی ہے ۔ بحیثیتِ مجموعی حکومت نے اپنے دامن کو حتی الوسع کرپشن سے پاک رکھنے کی کوشش کی ہے۔ورنہ ہمیںسابقہ حکومت کا وہ دور بھی اچھی طرح یاد ہے جس میں ہر روزکرپشن کا کوئی نہ کوئی واقعہ اخبارات اور خبروں کی زینت بنا کرتا تھا۔حج کرپشن، ای او بی آئی ، این آئی سی ایل ،او جی ڈی سی اور رینٹل پاور پروجیکٹس اور نجانے کتنے منصوبے تھے جو مالی بدعنوانی اور کرپشن کی گند سے متعفن اور آلودہ تھے۔
موجودہ حکومت نے ترقیاتی کاموں کے سلسلے میںبھی اب تک کسی غفلت کا مظاہرہ بھی نہیں کیا ہے۔مالی دشواریوںاور ناہمواریوں کے باوجود اُس نے اپنے ترقیاتی منصوبے ادھورے نہیں چھوڑے ہیں۔ وہ مالی استحکام لانے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندرترقیاتی کاموں پر بھی اپنی مکمل توجہ مرکوزکیے ہوئے ہے۔کاشغر سے گوادر تک راہداری اور ملک کے اندر موٹر وے کو مختلف شہروں تک لے جانے کا سہرا بھی نواز حکومت کے سر جاتا ہے۔لاہور کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی میٹرو بس سروس تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
جس کے بعد یہاں کے عام شہری بھی ایک باعزت اورآرام دہ ایئرکنڈیشنڈ سفری سہولت سے مستفید ہوا کریں گے ۔گرچہ اِس بس سروس کو فعال طریقے پر چلانے سے حکومت کو سالانہ کچھ خسارے کاامکان بھی ہے لیکن بہر حال اِس سہولت کا تمام تر فائدہ غریب عوام کو جاتا ہے۔
اگر عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہو تو اِس میں کوئی غیر مناسب بات بھی نہیں ہے۔یہی پیسہ اِس سے پہلے کرپشن کی نذر ہوجایا کرتا تھاتو کسی کواعتراض نہیں تھا۔اربوں روپے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کوزندہ رکھنے اور بے نظیر سپورٹ پروگرام کے تحت عام لوگوں کو یونہی باٹنے پر خرچ کیے جا سکتے ہیں تو سالانہ چند اورکروڑ اِس غریب عوام پر خرچ ہوجائیں تو کیا حرج ہے۔میٹرو بس سروس میںسفر کرنے والے زیادہ تر افراد غریب اور متوسط طبقہ ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
توانائی کے بحران کو بھی حل کرنے کی کوششوں میں ہمارے حکمراں ابھی تک خاصے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیںاور وہ اِس سلسلے میں دیگر دوست ممالک سے بھی تعاون حاصل کرنے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف اور سرگرداں ہیں ۔حال ہی میں برادر اسلامی ملک قطر سے 60ہزارٹن ایل پی جی لے کر ایک جہاز پورٹ قاسم پہنچ گیاجسے ریکارڈ مدت میں تیار کردہ ٹرمینل پر اُتارا جا رہا ہے۔
خیال کی جاتا ہے کہ ایل پی جی کی درآمد کے بعد ہمارے یہاں توانائی کے بحران کو حل کرنے میں نمایاں پیش رفت ہوگی۔حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ گزشتہ 6ماہ سے تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اچھی خاصی کمی آئی ہے جو اُس کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی ہے اورجس کے باعث وہ عوام الناس کو کچھ ریلیف دینے کے قابل ہو پائی ہے۔دوسری جانب اشیائے صرف کی قیمتوں کو بھی حکومت نے کنٹرول کرنے کی نتیجہ خیزکوششیں کی ہیں اور اُسے کسی حد تک بے قابو ہونے سے بچایا ہے۔
ملک کے اندر دہشت گردی سے نمٹنے میں اب تک ہماری آرمی نے اِس حکومت کا بہت ساتھ دیا ہے اور وہ اُس کے شانہ بشانہ ہر محاذ پر نبر د آزما ہے۔معاملہ پشاور میں دہشت گردی کا ہو یا بلوچستان اورکراچی میں لمبے عرصے پر محیط بدامنی اور افراتفری کا، ہر موقعے پر عسکری اور سول قیادت ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مابین ایسی ہم آہنگی اور یکسوئی شاید ہی پہلے کبھی دیکھی گئی۔
گرچہ دھرنے کی سیاست کرنے والوں نے اُن کے درمیان غلط فہمی اور بد گمانی پیدا کرنے کی ضرور کوشش کی لیکن دونوں جانب سے اعلیٰ بصیرت، دانشمندی اور فہم ادراک کا مظاہرہ کیا گیا جس کی بدولت بات بگڑنے سے بچ گئی۔ورنہ ایک موقعے پر جب دھرنے کے بلوائی پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہو گئے تھے تو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی۔مگر اب حالات قدرے تبدیل ہوچکے ہیں۔جوڈیشل کمیشن پر سمجھوتہ ہوچکا ہے۔
دھاندلی کے الزامات کی باقاعدہ تحقیقات ہونے کو ہے۔ اِس کے بعد جو بھی فیصلہ ہوگا اُسے دونوں فریق کھلے دل سے قبول کریں گے اور پھر احتجاج اور محاذآرائی کی سیاست کے لیے کوئی بہانہ باقی نہیں رہے گا۔ میاں صاحب کو اِس سے پہلے کبھی بھی آئینی مدت کے مطابق حکمرانی کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا۔ اِسی لیے اُن کی کارکردگی کوصحیح طور پر جانچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اب اگر اُنہیں مقررہ پانچ سال مل گئے تواُن کی آیندہ کی سیاست کاانحصار اُن کی اِسی دور کی کارکردگی پر ہوگا۔
یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے عوام اب اتنے بھولے اور معصوم بھی نہیں رہے کہ وہ عوام کی خدمت کرنے والوں اور کرپشن کرنے والوں میں فرق بھی نہ کر سکیں۔عمران خان کے لیے بھی موقعہ ہے کہ وہ صوبہ خیبر پختون خوا میں جہاں اُن کی اپنی پارٹی کی حکومت ہے بہتر خدمت او ر اعلیٰ کارکردگی کے جوہر دکھاتے ہوئے خود کو دوسرے لیڈروں سے منفرد اور ممتاز ثابت کریں ۔تاکہ عوام اُنہیں آیندہ کے لیے اپنا وزیرِ اعظم منتخب کر پائیں۔
یہ مخاصمت اور محاذ آرائی کی سیاست اُن لوگوں کو قطعی زیب نہیں دیتی جنھیں عوام کی کوئی پذیرائی حاصل ہو۔دانشمندی اور دور اندیشی کا تقاضا بھی یہی ہے عوام کو اپنی کارکردگی سے گرویدہ بنایا جائے نہ کہ بیانات اور تقریروں سے۔بالکل اُسی طرح جس طرح حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ میں ہمارے ایک کھلاڑی سرفراز احمد نے کوالیفائنگ راؤنڈ کے چھ میں سے صرف دو میچ میں اپنی کارکردگی سے خود کو منوالیا تھا۔شروع کے چار میچوں میں اُسے کھلایا ہی نہیں گیا۔ لیکن اُس مردِ میداں نے بیان بازی کی بجائے خاموش رہ کر صرف اپنی پرفارمینس ہی سے اپنے مخالفوں کامنہ بند کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا کرکٹ بورڈ اُسے نائب کپتان بنانے پر مجبور ہو گیا۔اِسی لیے کہتے ہیں کہ سکسس اِس دا بیسٹ ریوینج ((SUCCESS IS THE BEST REVENGE۔