تاریخ کا روتا ہوا سوال
دیوار! اور عظیم روم جو کہ فتح کے شادیانوں سے گونج رہا تھا، یہ سیزر کن پر فتوحات کی خوشی منا رہے تھے
برٹولٹ بریخت ''تاریخ کے سوالات'' میں لکھتا ہے کہ وہ کون تھا جس نے تھیبس کے سات دروازے تعمیر کیے؟ کتابوں میں تو صرف بادشاہوں کے نام لکھے ہیں، کیا یہ بادشاہ تھے کہ جنہوں نے کھردری چٹانوں کو گھسیٹا تھا، بابل کا شہر کہ جسے کئی بار تباہ و بر باد کیا گیا، ہر بار اسے کس نے تعمیر کیا، وہ کون سے سنہری روشنی والے مکانات تھے کہ جن میں مزدور رہا کرتے تھے، اس شام وہ کہاں چلے گئے کہ جب دیوار چین مکمل ہوئی۔
دیوار! اور عظیم روم جو کہ فتح کے شادیانوں سے گونج رہا تھا، یہ سیزر کن پر فتوحات کی خوشی منا رہے تھے، خوشی کے نغمے گانے والے بازنطینی، کیا ان سب کے رہنے کے لیے صرف محلات تھے، اس طرح جیسے کہ رات میں سمندر ٹکراتا ہے، شراب میں مدہوش وہ اپنے غلاموں پر دھاڑتے ہیں، نوجوان سکندر نے ہندوستان فتح کیا، کیا اس نے اکیلے ہی فتح کیا، سیزر نے گال قوم کو شکست دی، کیا اس کے پاس کم ازکم کوئی باروچی بھی نہیں تھا، جب سمندری بیڑہ ڈوبا تو اسپین کا فلپ رویا، کیا اس کے علاوہ رونے والا اور کوئی نہیں تھا؟ فریڈرک دوم ہفت سالہ میں جیت گیا اس کے علاوہ اور کون جیت سکتا تھا، ہر جانب فتح ہے، ہر دس سال میں ایک عظیم ہستی، لیکن کن لوگوں کی قیمت پر۔ ڈھیر ساری تفصیلات اور ڈھیر سارے سوالات۔
جوناتھن سوفٹ نے اپنے ایک پمفلٹ میں امیروں کو مشورہ دیا تھا کہ ملک کو خوشحال بنانے اور بھوک کا روگ مٹانے کے لیے غریبوں کے بچوں کا گوشت نمک لگا کر محفوظ کرلینا چاہیے۔ سوفٹ اس انسانی نفسیات سے بخوبی واقف تھا کہ جب انسان پر کسی بات کا اثر نہ ہو تو اس وقت ایسی بات کرنی چاہیے کہ وہ چونک پڑے، جہاں بھوک اور افلاس ہو، ایک ایسے ملک میں وطن کے وقار کی بات کرنا باعث شرم ہوتا ہے، جہاں لوگوں کو کھانے کو نہ ملے وہاں کام کے لیے کہنا کہاں کی شرافت ہے۔
یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایسے معاشرے میں بھوکوں کو پیٹو کہا جاتا ہے جن میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ دفاع کرسکیں، انھیں بزدل کہا جاتا ہے جو اپنی محنت کا معاوضہ چاہتے ہیں، انھیں کاہل اور سست کہا جاتا ہے۔ ایسی حکومتوں میں فکر پستی کی آخری حدیں چھو لیتی ہے، فکر کی پستی کے ساتھ معاشرے کی ہر قدر اور خوبی پست ہوجاتی ہے۔
برٹولٹ بربخت کی طرح ہماری تاریخ کا بھی ایک روتا ہوا سوال ہے کہ جب پاکستان بن گیا تو اس شام وہ کہاں چلے گئے جنھوں نے پاکستان بنانے کے لیے لازوال قربانیاں دی تھیں، اس کے بعد ان کے لیے کبھی نہیں سوچا گیا، کبھی نہیں معلوم کیا گیا کہ وہ کس حال میں ہیں، ان پر کیا بیت رہی ہے، سب نئے ملک کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اپنا اپنا حصہ بٹورنے میں مصروف ہوگئے، حصے بخرے کرنے میں لگ گئے، اپنا اپنا آج اور کل محفوظ اور خوشحال کرنے میں جت گئے۔
پھر ان کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا گیا جنھوں نے ان گنت قربانیاں دیں تھیں، کیا ان لاکھوں افراد نے چند افراد کے محلات، ان کے بینک بیلنس، خوشحالی ، لوٹ مار، کرپشن کے لیے قربانیاں دی تھیں، کیا ان لاکھوں افراد نے اپنی بے اختیاری، لاوارثی، بھوک، افلاس جو انھیں نئے ملک میں حاصل ہوئیں۔
اس کے لیے قربانیاں دی تھیں، کیا وہ ان گندی گلیوں، بوسیدہ گھروں، خاک اڑتے آنگنوں، اپنی زرد آنکھوں، پیلے چہرے، گندے چیتھڑوں میں چھپے جسموں کے لیے پاکستان میں آئے تھے؟ ان لوگوں کی زندگی کا واحد مقصد یہ رہ گیا ہے کہ وہ محنت و مشقت سے ان امیر و کبیر لوگوں کے عیش و عشرت کے سامان فراہم کرتے رہیں اور ان ریاکاروں، منافقوں، بدکاروں اور خوشامدیوں کو اپنا خون پلاتے رہیں؟
جارج برنارڈشا نے ہمارے لیے ہی کہا تھا ''ہمارے قوانین نے قوانین کا احترام کھودیا ہے، ہماری آزاد روی نے ہماری آزادی کا خاتمہ کردیا ہے، ہماری املاک منظم رہزنی ہے، ہمارا اخلاق کوتاہ اندیشانہ ریاکاری ہے، ہماری دانش ناتجربہ کار احمقوں کے ہاتھوں میں ہے، ہماری طاقت پر کمزور بزدلوں کا تسلط ہے''۔ یاد رکھو میرے ملک کے رہزنوں، ناجائز قابضین اور لٹیرو! تم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہے ہو، تمہاری وجہ سے لاتعداد بے بسوں کے سینوں کا خون توہین انسانی کو غسل دے رہا ہے۔
خودغرضی درد انسانی پر ہنس رہی ہے، وہ بے زبان جو سرنگوں کھڑا ہے، جس کے اترے ہوئے چہرے پر صدیوں کے مظالم کی داستان کندہ ہے، جو جیتے جی ہر قسم کے بار کو اٹھائے چل رہا ہے اور پشت در پشت اس بار مصائب کو ورثے میں چھوڑ جاتا ہے۔ اب وہ صبح قریب ہے، جب وہ جاگنے والا ہے، تم خود ہی سوچ لو، وہ تمہارا کیا حشر کرنے والا ہے۔
حضرت عیسیٰ نے کہا تھا ''سچ تمہیں آزاد کرتا ہے'' لیکن اس وقت جب آپ خود آزاد ہونا چاہتے ہیں، لیکن اگر آپ جھوٹ کے قیدی ہی رہنا چاہتے ہیں تو پھر سچ تو کیا کوئی بھی آپ کو آزاد نہیں کروا سکتا۔ یاد رکھو، تم سب جھوٹ کے قیدی ہو، جنھوں نے لالچ، حرص، فریب و دھوکے کی زنجیروں میں اپنے آپ کو جکڑ رکھا ہے اور ان زنجیروں کی وجہ سے تمہارے جسم کا ایک ایک حصہ زخم آلودہ ہوچکا ہے اور اس سے مسلسل خون رس رہا ہے۔
لیکن تمہیں یہ زنجیریں اتنی پیاری ہیں کہ تم پھر بھی انھیں اپنے اوپر لادے ہوئے ہو اور ہانپتے و کانپتے چل رہے ہیں، جب انسانیت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے تو دکھ، افلاس اور ظلم و جبر کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔ یزد کہتا ہے آدم کے بیٹوں اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل و خوار نہ کرو، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے اپنا گوشت خود نہیں چباتے۔ سکندراعظم کے مزار پر جو لوح نصب ہے اس پر یہ تحریر درج ہے، جس شخص کے لیے کبھی تمام دنیا کی سلطنت بھی کافی نہ تھی، اب اس کے لیے یہ قبر کافی ہے۔ یاد رکھو آخر میں تمہارے حصے میں بھی ایک ہی قبر آئے گی۔
دیوار! اور عظیم روم جو کہ فتح کے شادیانوں سے گونج رہا تھا، یہ سیزر کن پر فتوحات کی خوشی منا رہے تھے، خوشی کے نغمے گانے والے بازنطینی، کیا ان سب کے رہنے کے لیے صرف محلات تھے، اس طرح جیسے کہ رات میں سمندر ٹکراتا ہے، شراب میں مدہوش وہ اپنے غلاموں پر دھاڑتے ہیں، نوجوان سکندر نے ہندوستان فتح کیا، کیا اس نے اکیلے ہی فتح کیا، سیزر نے گال قوم کو شکست دی، کیا اس کے پاس کم ازکم کوئی باروچی بھی نہیں تھا، جب سمندری بیڑہ ڈوبا تو اسپین کا فلپ رویا، کیا اس کے علاوہ رونے والا اور کوئی نہیں تھا؟ فریڈرک دوم ہفت سالہ میں جیت گیا اس کے علاوہ اور کون جیت سکتا تھا، ہر جانب فتح ہے، ہر دس سال میں ایک عظیم ہستی، لیکن کن لوگوں کی قیمت پر۔ ڈھیر ساری تفصیلات اور ڈھیر سارے سوالات۔
جوناتھن سوفٹ نے اپنے ایک پمفلٹ میں امیروں کو مشورہ دیا تھا کہ ملک کو خوشحال بنانے اور بھوک کا روگ مٹانے کے لیے غریبوں کے بچوں کا گوشت نمک لگا کر محفوظ کرلینا چاہیے۔ سوفٹ اس انسانی نفسیات سے بخوبی واقف تھا کہ جب انسان پر کسی بات کا اثر نہ ہو تو اس وقت ایسی بات کرنی چاہیے کہ وہ چونک پڑے، جہاں بھوک اور افلاس ہو، ایک ایسے ملک میں وطن کے وقار کی بات کرنا باعث شرم ہوتا ہے، جہاں لوگوں کو کھانے کو نہ ملے وہاں کام کے لیے کہنا کہاں کی شرافت ہے۔
یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایسے معاشرے میں بھوکوں کو پیٹو کہا جاتا ہے جن میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ دفاع کرسکیں، انھیں بزدل کہا جاتا ہے جو اپنی محنت کا معاوضہ چاہتے ہیں، انھیں کاہل اور سست کہا جاتا ہے۔ ایسی حکومتوں میں فکر پستی کی آخری حدیں چھو لیتی ہے، فکر کی پستی کے ساتھ معاشرے کی ہر قدر اور خوبی پست ہوجاتی ہے۔
برٹولٹ بربخت کی طرح ہماری تاریخ کا بھی ایک روتا ہوا سوال ہے کہ جب پاکستان بن گیا تو اس شام وہ کہاں چلے گئے جنھوں نے پاکستان بنانے کے لیے لازوال قربانیاں دی تھیں، اس کے بعد ان کے لیے کبھی نہیں سوچا گیا، کبھی نہیں معلوم کیا گیا کہ وہ کس حال میں ہیں، ان پر کیا بیت رہی ہے، سب نئے ملک کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اپنا اپنا حصہ بٹورنے میں مصروف ہوگئے، حصے بخرے کرنے میں لگ گئے، اپنا اپنا آج اور کل محفوظ اور خوشحال کرنے میں جت گئے۔
پھر ان کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا گیا جنھوں نے ان گنت قربانیاں دیں تھیں، کیا ان لاکھوں افراد نے چند افراد کے محلات، ان کے بینک بیلنس، خوشحالی ، لوٹ مار، کرپشن کے لیے قربانیاں دی تھیں، کیا ان لاکھوں افراد نے اپنی بے اختیاری، لاوارثی، بھوک، افلاس جو انھیں نئے ملک میں حاصل ہوئیں۔
اس کے لیے قربانیاں دی تھیں، کیا وہ ان گندی گلیوں، بوسیدہ گھروں، خاک اڑتے آنگنوں، اپنی زرد آنکھوں، پیلے چہرے، گندے چیتھڑوں میں چھپے جسموں کے لیے پاکستان میں آئے تھے؟ ان لوگوں کی زندگی کا واحد مقصد یہ رہ گیا ہے کہ وہ محنت و مشقت سے ان امیر و کبیر لوگوں کے عیش و عشرت کے سامان فراہم کرتے رہیں اور ان ریاکاروں، منافقوں، بدکاروں اور خوشامدیوں کو اپنا خون پلاتے رہیں؟
جارج برنارڈشا نے ہمارے لیے ہی کہا تھا ''ہمارے قوانین نے قوانین کا احترام کھودیا ہے، ہماری آزاد روی نے ہماری آزادی کا خاتمہ کردیا ہے، ہماری املاک منظم رہزنی ہے، ہمارا اخلاق کوتاہ اندیشانہ ریاکاری ہے، ہماری دانش ناتجربہ کار احمقوں کے ہاتھوں میں ہے، ہماری طاقت پر کمزور بزدلوں کا تسلط ہے''۔ یاد رکھو میرے ملک کے رہزنوں، ناجائز قابضین اور لٹیرو! تم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہے ہو، تمہاری وجہ سے لاتعداد بے بسوں کے سینوں کا خون توہین انسانی کو غسل دے رہا ہے۔
خودغرضی درد انسانی پر ہنس رہی ہے، وہ بے زبان جو سرنگوں کھڑا ہے، جس کے اترے ہوئے چہرے پر صدیوں کے مظالم کی داستان کندہ ہے، جو جیتے جی ہر قسم کے بار کو اٹھائے چل رہا ہے اور پشت در پشت اس بار مصائب کو ورثے میں چھوڑ جاتا ہے۔ اب وہ صبح قریب ہے، جب وہ جاگنے والا ہے، تم خود ہی سوچ لو، وہ تمہارا کیا حشر کرنے والا ہے۔
حضرت عیسیٰ نے کہا تھا ''سچ تمہیں آزاد کرتا ہے'' لیکن اس وقت جب آپ خود آزاد ہونا چاہتے ہیں، لیکن اگر آپ جھوٹ کے قیدی ہی رہنا چاہتے ہیں تو پھر سچ تو کیا کوئی بھی آپ کو آزاد نہیں کروا سکتا۔ یاد رکھو، تم سب جھوٹ کے قیدی ہو، جنھوں نے لالچ، حرص، فریب و دھوکے کی زنجیروں میں اپنے آپ کو جکڑ رکھا ہے اور ان زنجیروں کی وجہ سے تمہارے جسم کا ایک ایک حصہ زخم آلودہ ہوچکا ہے اور اس سے مسلسل خون رس رہا ہے۔
لیکن تمہیں یہ زنجیریں اتنی پیاری ہیں کہ تم پھر بھی انھیں اپنے اوپر لادے ہوئے ہو اور ہانپتے و کانپتے چل رہے ہیں، جب انسانیت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے تو دکھ، افلاس اور ظلم و جبر کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔ یزد کہتا ہے آدم کے بیٹوں اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل و خوار نہ کرو، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے اپنا گوشت خود نہیں چباتے۔ سکندراعظم کے مزار پر جو لوح نصب ہے اس پر یہ تحریر درج ہے، جس شخص کے لیے کبھی تمام دنیا کی سلطنت بھی کافی نہ تھی، اب اس کے لیے یہ قبر کافی ہے۔ یاد رکھو آخر میں تمہارے حصے میں بھی ایک ہی قبر آئے گی۔