ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ جعلی تھر ڈپارٹیز کی رجسٹریشن میں ایک ارب کی بد عنوانی
سی این جی اسٹیشنوں کی منتقلی کیلیے تھوک میں این او سی کا اجرأ،سابق سیکریٹری صنعت عزیزبلور نے اپنی3فرمیں رجسٹر کرالیں
وزارت صنعت کے ذیلی ادارے ایکسپلوسیوڈپارٹمنٹ میں ایک ارب روپے کی بدعنوانی کے اسکینڈل کا انکشاف ہواہے۔
ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران نئے صنعتی اداروں کی انسپکشن کیلیے درجنوں ایسی تھرڈ پارٹی انسپکشن فرموں کی رجسٹریشن کی ہے جن کا یا توحقیقت میں کوئی وجود نہیں یا ان کے پاس دوسری صنعتوں کے قیام کیلیے جانچ پڑتال کیلیے مطلوبہ مہارت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ غیرقانونی طورپرایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جانے والے سی این جی اسٹیشنوں کیلیے تھوک میں این اوسی جاری کیے گئے ہیں۔ قابل اعتماد ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کوبتایاکہ جعلی تھرڈپارٹیزکی رجسٹریشن اورغیر قانونی این او سی کے اجرأکے دھندے میں کم سے کم ایک ارب روپے کی کرپشن کی گئی ہے اوراس میں وزارت صنعت اورایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ کے کئی اعلیٰ افسر ملوث ہیں۔ ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ کے کئی حکام ماضی میں بھی مال بنانے کی پاداش میں معطل ہوئے لیکن2011کے بعد جعلی تھرڈ انسپکشن پارٹی رجسٹریشن اور غیرقانونی این او سی کے اجرأ کی آڑ میں جس دیدہ دلیری سے لوٹ مارکی گئی ہے۔
اس کی مثال ملناناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے۔ مال بنانے کے اس مکروہ کاروبارمیں چھپی کرپشن کے اصل کرداروںکا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ مئی2011 میںسیکریٹری صنعت کاعہدہ سنبھالنے والے عزیزبلورنے کم سے کم تین ایسی تھرڈ پارٹیزرجسٹر کرائیں جودراصل ان کی اپنی ہیں لیکن ان کیلیے انھوں نے اپنے بھتیجے ہارون بلوراورمنیجر عزیزرحمٰن کے نام استعمال کیے۔ عزیز بلور کی اپنی جعلی فرمیں تھرڈ پارٹی انسپکشن کیلیے مطلوبہ ٹیکنیکل معیار پر پوری نہیں اترتیں، ان کی سفارش پر این اوسی کا اجرأ قانون کے ساتھ بڑا مذاق ہوگا۔ ذرائع کے مطابق ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ میں جعلی تھرڈ پارٹی کی رجسٹریشن اور نئے صنعتی اداروں اورسی این جی اسٹیشنزکی ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقلی کیلیے این اوسی کے اجرأ کے باقاعدہ ریٹ مقررہیں۔ جعلی تھرڈ پارٹی کی رجسٹریشن کا ریٹ40لاکھ روپے تک بتایاجاتا ہے۔ ایک غیر قانونی این اوسی کے اجرأ کا ریٹ 3سے4لاکھ روپے مقررہے۔
پاکستان کے کئی بڑے صنعتی اداروںکی طرف سے ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ میں جعلی تھرڈ پارٹیز کی رجسٹریشن اورغیرقانونی این او سیزکے اجراکی آڑ میں ہونے والی کرپشن کو وزارت صنعت کے اعلی حکام کے نوٹس میں لایاگیا لیکن وزارت صنعت کے اعلی حکام نے اس مذموم دھندے کو روکنے کیلیے اقدامات کرنے کی بجائے الٹا شکایت کنندہ کو ڈرا دھمکاکرخاموش کرا دیا اورجب معاملہ حد سے تجاوزکرنے لگا تواس وقت کے سیکریٹری عزیز بلور نے معاملے کو دبانے کیلیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے دی جو نہ صرف غیرقانونی تھی بلکہ اس کا یہ مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ تھرڈ پارٹی رجسٹریشن یا این اوسی کے اجرا کیلیے ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ کوسفارش کرے۔
جوائنٹ سیکریٹری عبدالستارکھوکھر کی سربراہی میں تشکیل پانے والی اس کمیٹی میں ایسے ارکان شامل کیے گئے جوپہلے ہی ایکسپلوسیو ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی کرپشن کاحصہ تھے۔ دوسری طرف ڈپارٹمنٹ کے سربراہ حسین چنااپنے ڈپارٹمنٹ میں جعلی تھرڈ پارٹیزکی رجسٹریشن اورغیرقانونی این اوسی کے بڑے پیمانے پر اجرأکی نفی کرتے ہیں۔ ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کے رابطہ کرنے پر انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ میں ہرکام قاعدے اور ضابطے کے مطابق ہوتا ہے لیکن ان کے دعوے کی سیکریٹری صنعت شفقت نجمی نفی کرتے ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ ایکسپلوسیوڈپارٹمنٹ میں کرپشن اور جعلی تھرڈ پارٹیز کی رجسٹریشن کا معاملہ ان کے نوٹس میں آیاہے اور وہ اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ہم اس معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے اور اس میں ملوث افسروں کے خلاف قانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کریں گے۔
ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران نئے صنعتی اداروں کی انسپکشن کیلیے درجنوں ایسی تھرڈ پارٹی انسپکشن فرموں کی رجسٹریشن کی ہے جن کا یا توحقیقت میں کوئی وجود نہیں یا ان کے پاس دوسری صنعتوں کے قیام کیلیے جانچ پڑتال کیلیے مطلوبہ مہارت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ غیرقانونی طورپرایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جانے والے سی این جی اسٹیشنوں کیلیے تھوک میں این اوسی جاری کیے گئے ہیں۔ قابل اعتماد ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کوبتایاکہ جعلی تھرڈپارٹیزکی رجسٹریشن اورغیر قانونی این او سی کے اجرأکے دھندے میں کم سے کم ایک ارب روپے کی کرپشن کی گئی ہے اوراس میں وزارت صنعت اورایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ کے کئی اعلیٰ افسر ملوث ہیں۔ ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ کے کئی حکام ماضی میں بھی مال بنانے کی پاداش میں معطل ہوئے لیکن2011کے بعد جعلی تھرڈ انسپکشن پارٹی رجسٹریشن اور غیرقانونی این او سی کے اجرأ کی آڑ میں جس دیدہ دلیری سے لوٹ مارکی گئی ہے۔
اس کی مثال ملناناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے۔ مال بنانے کے اس مکروہ کاروبارمیں چھپی کرپشن کے اصل کرداروںکا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ مئی2011 میںسیکریٹری صنعت کاعہدہ سنبھالنے والے عزیزبلورنے کم سے کم تین ایسی تھرڈ پارٹیزرجسٹر کرائیں جودراصل ان کی اپنی ہیں لیکن ان کیلیے انھوں نے اپنے بھتیجے ہارون بلوراورمنیجر عزیزرحمٰن کے نام استعمال کیے۔ عزیز بلور کی اپنی جعلی فرمیں تھرڈ پارٹی انسپکشن کیلیے مطلوبہ ٹیکنیکل معیار پر پوری نہیں اترتیں، ان کی سفارش پر این اوسی کا اجرأ قانون کے ساتھ بڑا مذاق ہوگا۔ ذرائع کے مطابق ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ میں جعلی تھرڈ پارٹی کی رجسٹریشن اور نئے صنعتی اداروں اورسی این جی اسٹیشنزکی ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقلی کیلیے این اوسی کے اجرأ کے باقاعدہ ریٹ مقررہیں۔ جعلی تھرڈ پارٹی کی رجسٹریشن کا ریٹ40لاکھ روپے تک بتایاجاتا ہے۔ ایک غیر قانونی این اوسی کے اجرأ کا ریٹ 3سے4لاکھ روپے مقررہے۔
پاکستان کے کئی بڑے صنعتی اداروںکی طرف سے ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ میں جعلی تھرڈ پارٹیز کی رجسٹریشن اورغیرقانونی این او سیزکے اجراکی آڑ میں ہونے والی کرپشن کو وزارت صنعت کے اعلی حکام کے نوٹس میں لایاگیا لیکن وزارت صنعت کے اعلی حکام نے اس مذموم دھندے کو روکنے کیلیے اقدامات کرنے کی بجائے الٹا شکایت کنندہ کو ڈرا دھمکاکرخاموش کرا دیا اورجب معاملہ حد سے تجاوزکرنے لگا تواس وقت کے سیکریٹری عزیز بلور نے معاملے کو دبانے کیلیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے دی جو نہ صرف غیرقانونی تھی بلکہ اس کا یہ مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ تھرڈ پارٹی رجسٹریشن یا این اوسی کے اجرا کیلیے ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ کوسفارش کرے۔
جوائنٹ سیکریٹری عبدالستارکھوکھر کی سربراہی میں تشکیل پانے والی اس کمیٹی میں ایسے ارکان شامل کیے گئے جوپہلے ہی ایکسپلوسیو ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی کرپشن کاحصہ تھے۔ دوسری طرف ڈپارٹمنٹ کے سربراہ حسین چنااپنے ڈپارٹمنٹ میں جعلی تھرڈ پارٹیزکی رجسٹریشن اورغیرقانونی این اوسی کے بڑے پیمانے پر اجرأکی نفی کرتے ہیں۔ ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کے رابطہ کرنے پر انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ میں ہرکام قاعدے اور ضابطے کے مطابق ہوتا ہے لیکن ان کے دعوے کی سیکریٹری صنعت شفقت نجمی نفی کرتے ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ ایکسپلوسیوڈپارٹمنٹ میں کرپشن اور جعلی تھرڈ پارٹیز کی رجسٹریشن کا معاملہ ان کے نوٹس میں آیاہے اور وہ اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ہم اس معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے اور اس میں ملوث افسروں کے خلاف قانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کریں گے۔