دروازہ جب ایک فتح نے شکست کھائی
یہ رائیگاں کوششیں حامد حسین کے اُن آسمان سے خوابوں اور سمندر سے آدرشوں کی باقیات تھیں۔
سامنے والے فلیٹ سے نوجوان اور حامد حسین کے منہ سے گالی ایک ساتھ نکلے۔ نوجوان تیزی سے سیڑھیاں اُترگیا اور گالی منہ میں بھنبھنا کر پیٹ میں اُترگئی۔ بے بس آدمی کی گالی بھی کتنی بے بس ہوتی ہے۔
حامد حسین، وہی، ابھی چند سال پہلے کا دَبنگ اور سرگرم ٹریڈ یونینسٹ، جس نے ریلوے افسران کی ناک میں دَم کررکھا تھا۔ محلہ ہو یا محکمہ، وہ دوسروں کے پھڈے میں ٹانگ اَڑانا فرض سمجھتے تھے۔ کسی ملازم سے زیادتی کا معاملہ ہو، یا کسی ریٹائر ہونے والے کے بقایاجات ملنے میں تاخیر کا مسئلہ، ریلوے کالونی کے کوارٹروں کی خستہ حالی ہو یا کسی محلے دار کے حقوق کی پامالی، ''درخواست گزار حامد حسین'' کی تحریری شکایت یا استدعا سرکاری دفاتر میں رینگ رہی ہوتی اور وہ خود اس کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے۔
انصاف طلبی اور داد رسی کی یہ اکثر رائیگاں کوششیں حامد حسین کے اُن آسمان سے خوابوں اور سمندر سے آدرشوں کی باقیات تھیں، جو سفید سَر اور زرد چہرے والے سُرخوں نے ان کی آنکھوں میں چبھو اور سر پر لاد دیے تھے۔ پھر خاکسار تحریک کے بیلچہ بردار اور جلیانوالہ باغ کے قتل عام میں زخمی ہونے والے دادا ابا کی کانپتی آواز میں تیرتے منظر۔۔۔۔۔۔جن میں کہیں پَھندے پر جھولتا بھگت سنگھ نظر آتا، کبھی انگریز راج سے ٹکراتا سبھاش چندر بوس دکھائی دیتا، اور کہیں کوئی تین صدی قبل سندھ کی دھرتی پر کسانوں کی مشترکہ کھیتی کا تصور اپنے لہو سے سینچنے والے شاہ عنایت پر یلغار کا نظارہ ہوتا!
ان دنوں جب پاکستان میں کمیونسٹ بہ یک وقت غدار، کافر اور فتنہ پرداز تھے، دادا ابا کے ساتھ نشست جمائے سفید سر اور زرد چہرے والوں کی دمے سے بوجھل سانسیں ''استحصال سے پاک نظام'' جیسے بھاری بھرکم الفاظ اُٹھائے تھک تھک جاتی تھیں، نوجوان حامد حسین کی نگاہوں میں یہ نظام چاندنی اوڑھے سمندر کی طرح جھلملانے لگتا تھا اور پورے ملک کے ''پرولتاریا'' کے لیے جدوجہد وہ اپنے ذمے لے لیتا۔ پھر باپ کی اچانک موت وقت کا فرمان بن کر نازل ہوئی اور حامد حسین کو حالات کے چرواہے نے روزگار کی چراگاہ کی طرف ہانک دیا۔ بہنوں کی شادی، ماں کی بیماری، اپنی شادی، بچیوں کی ولادت۔۔۔۔۔ خوابوں کا آسمان چھٹ چھٹا کر ریلوے کے چھوٹے سے کوارٹر کے صحن میں آپھنسا تھا اور سمندر جیسے آدرش بالٹی بھر رہ گئے تھے۔
سو اب انقلاب کی جدوجہد گھس پِٹ کر ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں اور دوسروں کا درد سر اپنے دل میں بسانے تک رہ گئی تھی۔ یہ معصوم سی ''جدوجہد'' بھی کبھی کبھی انھیں ایسے خطرات سے دوچار کردیتی کہ وہ خود کو ''چے گویرا'' سمجھ بیٹھتے۔ جیسے پچھلی گلی کے کوارٹر میں بھینسوں کا باڑا کھلنے پر ان کی درخواست کے بعد انھیں قتل کی دھمکیاں ملی تھیں، اور علاقہ کونسلر رشید خان عرف بِِلّابدمعاش کی عدم کارکردگی اور بدعنوانیوں کے خلاف مُہم چلاتے ہوئے تو وہ ایک حملے میں اچھے خاصے زخمی بھی ہوگئے تھے۔ مگر اب وہ دو جوان بیٹیوں کے باپ تھے۔
ریلوے سے ملنے والے واجبات اور کچھ جمع پونجی نے انھیں فلیٹ کا مالک بنادیا تھا، جس کے دروازے پر کھڑے وہ تلملارہے تھے۔
جب غصہ بے قابو ہونے لگا تو وہ اسے دونوں مٹھیوں میں بھینچے دروازہ بند کرکے اندر آگئے۔
''بے غیرتی کی انتہا ہے۔۔۔۔ بے شرم کو اتنا ہی شوق ہے تو کہیں جاکر بیٹھ کیوں نہیں جاتی۔''
''ارے چھوڑیے! کیوں اپنی زبان خراب کررہے ہیں۔ جب کسی کو تکلیف نہیں تو آپ کیوں اپنا خون کھولا رہے ہیں؟'' حامد حسین کی بیگم ان کے قریب آکر بیٹھ گئیں۔ انھیں یاد نہیں تھا کہ خون کھولانے کی ابتدا خود انھوں نے کی تھی۔
''کچھ پتا بھی ہے یہاں کیا ڈرامے چل رہے ہیں۔''
کوئی ایک ماہ پہلے شاکرہ حامد نے اخبار میں کھوئے اپنے شوہر کی بے خبری دور کرنے کے لیے تمہید باندھی تھی۔
''ہوں۔'' وہ بہ دستور خبروں میں منہمک رہے۔
''گُل ناز نے تو شوہر کے مرنے کے بعد وہ رنگ بدلا ہے کہ اﷲ کی پناہ! برقعے کے ساتھ شرم بھی اُتار کر ایک طرف رکھ دی ہے۔ اب تو ایک لڑکا فلیٹ میں آرہا ہے دوسرا جارہا ہے۔''
''کون گُل ناز؟'' حامد حسین چونکے۔ نظریں اخبار سے ہٹ کے بیوی کے چہرے پر تھیں۔
''ارے یہ سامنے کے فلیٹ والی!''
''اچھا۔۔۔سعید کی بیوہ۔۔۔ وہ تو ایسی نہیں تھی۔''
''آپ کو کیا پتا؟ آپ تو دن بھر کمرے میں بیٹھے ٹی وی دیکھتے یااخبار پڑھتے رہتے ہیں۔ میں تو روز یہ تماشے دیکھتی ہوں۔ کل تو نیچے والوں کا لڑکا ۔۔۔کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔رضا۔۔۔۔۔رات دو بجے چُپکے سے اس کے فلیٹ سے نکل کر جارہا تھا۔''
حامد حسین کی سوچتی آنکھیں بے ساختہ دائیں طرف اُٹھ گئیں۔ دروازے کے اس طرف ثوبیہ اور شازیہ سورہی تھیں۔
''عورتیں تو شکی ہوتی ہی ہیں۔'' انھیں اپنی بیوی کے بہتان پر مکمل اعتبار نہیں تھا، لیکن گل ناز کے فلیٹ میں پروجیکٹ کے کئی نوجوانوں کا آناجانا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے، البتہ وہ ان مناظر سے سرسری گزرے تھے، کوئی معنیٰ مطلب لیے بغیر، مگر آج بیوی کے انکشاف نے ان مناظر کا منظر نامہ لکھ دیا تھا، موٹے موٹے سیاہ حروف سے!
تحقیق کا آغاز ہوا۔ گُل ناز کے فلیٹ پر کڑی نظر رکھی گئی۔ ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والوں سے سُن گُن لی گئی۔ آخر کار حامد حسین کو کوئی شبہہ نہ رہا کہ سعید کی موت کئی اہلِ محلہ لڑکوں کی زندگی رنگین بنا گئی ہے۔ سو، دن کے اوقات میں جب گُل ناز کے دونوں بچے اسکول گئے ہوتے، اور بڑھتی رات، جب وہ سوچکے ہوتے، سکندر کی پشاوری سینڈل کی پٹاپٹ، رضا کے جوگرز کی دھب دھب اور شاہد اور مُرتضیٰ کے جوتوں کی کھٹا کھٹ، میں سے کوئی ایک آواز گل ناز کے دروازے تک آکر خاموش ہوجاتی۔
''بیٹا! کچھ خیال کرو، تمھاری بھی جوان بہنیں ہیں۔'' حامد حسین نے ان چاروں میں، اپنے نزدیک، سب سے سُدھرے سکندر کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ جانے کب سے اس کے گل ناز کدے سے نکلنے کا انتظار کررہے تھے۔
''انکل! آپ اپنے کام سے کام رکھو۔'' لب ولہجے کی تلخی سگریٹ کے اس دھوئیں کی کڑواہٹ سے کہیں شدید تھی جو ان کی آنکھوں میں بھردیا گیا تھا۔
''آج چل کے اس سے بات کرتے ہیں کہ بی بی! یہاں رہنا ہے تو شرافت سے رہو، ورنہ کوئی اور گھر دیکھو۔'' حامد حسین کے جواب میں ان کے ارد گرد بیٹھے گِنے چُنے اہل محلہ نے ''ہاں ہاں، بالکل بالکل'' کی صدائیں بلند کیں، اور پھر گل ناز کو الٹی میٹم دینے کے لیے ''عشا کے بعد'' کا وقت طے ہوا۔ لیکن حامد حسین جب ''انتباہی وفد'' کی تشکیل کے لیے نکلے تو کوئی گھر سے نہ نکلا۔ کہیں ''ابو'' گھر پر نہیں تھے، کہیں ''پاپا'' سوچکے تھے اور کسی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی۔ بس صغیرالدین معذرت اور وضاحت کے لیے دروازے تک آئے:''حامد صاحب! جانے دیں۔ آپ مرتضیٰ اور شاہد کو نہیں جانتے۔ چِھٹے ہوئے بدمعاش ہیں۔ شاہد تو لڑائی جھگڑے میں ایک دوبار جیل بھی جاچکا ہے۔ اور مرتضیٰ کس پارٹی کا ورکر ہے، آپ کو پتا ہی ہوگا۔''
''سالے بُزدل لوگ!'' وہ بڑبڑاتے ہوئے گھر پہنچے اور ''ایسی کی تیسی'' کہہ کر درخواست لکھنے بیٹھ گئے۔
ٹریڈ یونینسٹ کے طور پر سیاسی لوگوں میں بیٹھنا کام آیا۔ پولیس نے سُن لی۔ جس وقت ایک اے ایس آئی دو کانسٹیبلوں کے ساتھ گل ناز کے فلیٹ پر پہنچا، وہ اپنی بہن کے ہاں گئی ہوئی تھی۔ اسے موبائل فون پر پولیس کی آمد کو چھاپا بتایا گیا۔ کچھ خوف اور کچھ شرمندگی، وہ پلٹ کر نہیں آئی۔
حامد حسین آتے جاتے گل ناز کے فلیٹ پر پڑا تالا دیکھتے اور ایک نرم و سُبک رو کا جھونکا تن من میں لہرا کر انھیں مطمئن اور سرشار کرجاتا۔
اس روز بھی وہ اس تالے کو دیکھ کر اپنے دل کا بوجھ یاد کرتے اور سکون کا سانس لیتے اپنے فلیٹ کی بیل بجانے ہی والے تھے کہ ایک آواز نے ان کا بڑھا ہاتھ گرفت میں لے لیا۔
''بھائی! چھوڑو ناں، میں ایسی نئیں ہوں۔'' نوجوان ماسی پروین کی سرائیکی مہکاتی آواز میں ڈر اور درشتی لرز رہی تھی۔ پروین مردوں سے مکالمے میں لفظ ''بھائی'' کی جو فصیل کھڑی کرتی تھی، آج وہ ڈھے رہی تھی۔ وہ تیزی سے اوپر کی منزل کی طرف بڑھے۔
''۔۔۔۔۔سمجھی، ورنہ تجھے اس پروجیکٹ میں کام نہیں کرنے دوں گا۔'' دبی دبی مردانہ آواز رضا کی تھی، جو انھیں دیکھ کر تیزی سے سیڑھیاں اُترگیا۔ حامد حسین کچھ دیر بُت بنے پروین کو اوپر جاتا دیکھتے رہے، پھر تھکے تھکے قدموں سے پلٹ آئے۔
اور دو دن بعد وہ کھڑکی میں کھڑے فلیٹوں سے اُتر کر پروجیکٹ کے فرش پر پھیلی دھوپ کے نظارے میں محو تھے، جو ان کے فلیٹ سے دور دور ہی رہتی تھی، کہ انھیں ثوبیہ آتی دکھائی دی۔ دھوپ کی سفیدی سفید یونیفارم پہنے ان کی بیٹی کی پاکیزگی کچھ اور بڑھا رہی تھی، مگر یہ تو باپ کی نظر تھی۔ ثوبیہ دو اور آنکھوں میں بھی منعکس تھی۔ یکایک سامنے دیکھ کر چلتی ثوبیہ کی آنکھیں جُھک گئیں اور دھیمی رفتار تیزگامی میں بدل گئی۔ باپ کی حساسیت اس تبدیلی کو نظر انداز نہ کرسکی۔ ان کی نکتے میں سمٹی نگاہ پھیلی تو کھڑکی کے عین نیچے مرتضیٰ کو کھڑے پایا، جس کی نظریں ثوبیہ کو اس کے چہرے کے سوا دیکھ رہی تھیں۔ ہونٹوں پر پھیلی مکروہ مسکراہٹ قہقہوں کی منزل کا پہلا قدم لگ رہی تھی۔ حامد حسین کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اتنی تیزی سے کہ کوئی نہیں بتاسکتا یہ چہرہ سرخ ہوا تھا، زرد یا سیاہ!
اگلے دن شام کے ساتھ پروجیکٹ میں اُترتی گل ناز کو دیکھ کر مین گیٹ پر کھڑے لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا:''یہ تو آگئی۔''
ایک باخبر آواز نے انکشاف کیا:''حامد صاحب نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔''
حامد حسین، وہی، ابھی چند سال پہلے کا دَبنگ اور سرگرم ٹریڈ یونینسٹ، جس نے ریلوے افسران کی ناک میں دَم کررکھا تھا۔ محلہ ہو یا محکمہ، وہ دوسروں کے پھڈے میں ٹانگ اَڑانا فرض سمجھتے تھے۔ کسی ملازم سے زیادتی کا معاملہ ہو، یا کسی ریٹائر ہونے والے کے بقایاجات ملنے میں تاخیر کا مسئلہ، ریلوے کالونی کے کوارٹروں کی خستہ حالی ہو یا کسی محلے دار کے حقوق کی پامالی، ''درخواست گزار حامد حسین'' کی تحریری شکایت یا استدعا سرکاری دفاتر میں رینگ رہی ہوتی اور وہ خود اس کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے۔
انصاف طلبی اور داد رسی کی یہ اکثر رائیگاں کوششیں حامد حسین کے اُن آسمان سے خوابوں اور سمندر سے آدرشوں کی باقیات تھیں، جو سفید سَر اور زرد چہرے والے سُرخوں نے ان کی آنکھوں میں چبھو اور سر پر لاد دیے تھے۔ پھر خاکسار تحریک کے بیلچہ بردار اور جلیانوالہ باغ کے قتل عام میں زخمی ہونے والے دادا ابا کی کانپتی آواز میں تیرتے منظر۔۔۔۔۔۔جن میں کہیں پَھندے پر جھولتا بھگت سنگھ نظر آتا، کبھی انگریز راج سے ٹکراتا سبھاش چندر بوس دکھائی دیتا، اور کہیں کوئی تین صدی قبل سندھ کی دھرتی پر کسانوں کی مشترکہ کھیتی کا تصور اپنے لہو سے سینچنے والے شاہ عنایت پر یلغار کا نظارہ ہوتا!
ان دنوں جب پاکستان میں کمیونسٹ بہ یک وقت غدار، کافر اور فتنہ پرداز تھے، دادا ابا کے ساتھ نشست جمائے سفید سر اور زرد چہرے والوں کی دمے سے بوجھل سانسیں ''استحصال سے پاک نظام'' جیسے بھاری بھرکم الفاظ اُٹھائے تھک تھک جاتی تھیں، نوجوان حامد حسین کی نگاہوں میں یہ نظام چاندنی اوڑھے سمندر کی طرح جھلملانے لگتا تھا اور پورے ملک کے ''پرولتاریا'' کے لیے جدوجہد وہ اپنے ذمے لے لیتا۔ پھر باپ کی اچانک موت وقت کا فرمان بن کر نازل ہوئی اور حامد حسین کو حالات کے چرواہے نے روزگار کی چراگاہ کی طرف ہانک دیا۔ بہنوں کی شادی، ماں کی بیماری، اپنی شادی، بچیوں کی ولادت۔۔۔۔۔ خوابوں کا آسمان چھٹ چھٹا کر ریلوے کے چھوٹے سے کوارٹر کے صحن میں آپھنسا تھا اور سمندر جیسے آدرش بالٹی بھر رہ گئے تھے۔
سو اب انقلاب کی جدوجہد گھس پِٹ کر ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں اور دوسروں کا درد سر اپنے دل میں بسانے تک رہ گئی تھی۔ یہ معصوم سی ''جدوجہد'' بھی کبھی کبھی انھیں ایسے خطرات سے دوچار کردیتی کہ وہ خود کو ''چے گویرا'' سمجھ بیٹھتے۔ جیسے پچھلی گلی کے کوارٹر میں بھینسوں کا باڑا کھلنے پر ان کی درخواست کے بعد انھیں قتل کی دھمکیاں ملی تھیں، اور علاقہ کونسلر رشید خان عرف بِِلّابدمعاش کی عدم کارکردگی اور بدعنوانیوں کے خلاف مُہم چلاتے ہوئے تو وہ ایک حملے میں اچھے خاصے زخمی بھی ہوگئے تھے۔ مگر اب وہ دو جوان بیٹیوں کے باپ تھے۔
ریلوے سے ملنے والے واجبات اور کچھ جمع پونجی نے انھیں فلیٹ کا مالک بنادیا تھا، جس کے دروازے پر کھڑے وہ تلملارہے تھے۔
جب غصہ بے قابو ہونے لگا تو وہ اسے دونوں مٹھیوں میں بھینچے دروازہ بند کرکے اندر آگئے۔
''بے غیرتی کی انتہا ہے۔۔۔۔ بے شرم کو اتنا ہی شوق ہے تو کہیں جاکر بیٹھ کیوں نہیں جاتی۔''
''ارے چھوڑیے! کیوں اپنی زبان خراب کررہے ہیں۔ جب کسی کو تکلیف نہیں تو آپ کیوں اپنا خون کھولا رہے ہیں؟'' حامد حسین کی بیگم ان کے قریب آکر بیٹھ گئیں۔ انھیں یاد نہیں تھا کہ خون کھولانے کی ابتدا خود انھوں نے کی تھی۔
''کچھ پتا بھی ہے یہاں کیا ڈرامے چل رہے ہیں۔''
کوئی ایک ماہ پہلے شاکرہ حامد نے اخبار میں کھوئے اپنے شوہر کی بے خبری دور کرنے کے لیے تمہید باندھی تھی۔
''ہوں۔'' وہ بہ دستور خبروں میں منہمک رہے۔
''گُل ناز نے تو شوہر کے مرنے کے بعد وہ رنگ بدلا ہے کہ اﷲ کی پناہ! برقعے کے ساتھ شرم بھی اُتار کر ایک طرف رکھ دی ہے۔ اب تو ایک لڑکا فلیٹ میں آرہا ہے دوسرا جارہا ہے۔''
''کون گُل ناز؟'' حامد حسین چونکے۔ نظریں اخبار سے ہٹ کے بیوی کے چہرے پر تھیں۔
''ارے یہ سامنے کے فلیٹ والی!''
''اچھا۔۔۔سعید کی بیوہ۔۔۔ وہ تو ایسی نہیں تھی۔''
''آپ کو کیا پتا؟ آپ تو دن بھر کمرے میں بیٹھے ٹی وی دیکھتے یااخبار پڑھتے رہتے ہیں۔ میں تو روز یہ تماشے دیکھتی ہوں۔ کل تو نیچے والوں کا لڑکا ۔۔۔کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔رضا۔۔۔۔۔رات دو بجے چُپکے سے اس کے فلیٹ سے نکل کر جارہا تھا۔''
حامد حسین کی سوچتی آنکھیں بے ساختہ دائیں طرف اُٹھ گئیں۔ دروازے کے اس طرف ثوبیہ اور شازیہ سورہی تھیں۔
''عورتیں تو شکی ہوتی ہی ہیں۔'' انھیں اپنی بیوی کے بہتان پر مکمل اعتبار نہیں تھا، لیکن گل ناز کے فلیٹ میں پروجیکٹ کے کئی نوجوانوں کا آناجانا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے، البتہ وہ ان مناظر سے سرسری گزرے تھے، کوئی معنیٰ مطلب لیے بغیر، مگر آج بیوی کے انکشاف نے ان مناظر کا منظر نامہ لکھ دیا تھا، موٹے موٹے سیاہ حروف سے!
تحقیق کا آغاز ہوا۔ گُل ناز کے فلیٹ پر کڑی نظر رکھی گئی۔ ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والوں سے سُن گُن لی گئی۔ آخر کار حامد حسین کو کوئی شبہہ نہ رہا کہ سعید کی موت کئی اہلِ محلہ لڑکوں کی زندگی رنگین بنا گئی ہے۔ سو، دن کے اوقات میں جب گُل ناز کے دونوں بچے اسکول گئے ہوتے، اور بڑھتی رات، جب وہ سوچکے ہوتے، سکندر کی پشاوری سینڈل کی پٹاپٹ، رضا کے جوگرز کی دھب دھب اور شاہد اور مُرتضیٰ کے جوتوں کی کھٹا کھٹ، میں سے کوئی ایک آواز گل ناز کے دروازے تک آکر خاموش ہوجاتی۔
''بیٹا! کچھ خیال کرو، تمھاری بھی جوان بہنیں ہیں۔'' حامد حسین نے ان چاروں میں، اپنے نزدیک، سب سے سُدھرے سکندر کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ جانے کب سے اس کے گل ناز کدے سے نکلنے کا انتظار کررہے تھے۔
''انکل! آپ اپنے کام سے کام رکھو۔'' لب ولہجے کی تلخی سگریٹ کے اس دھوئیں کی کڑواہٹ سے کہیں شدید تھی جو ان کی آنکھوں میں بھردیا گیا تھا۔
''آج چل کے اس سے بات کرتے ہیں کہ بی بی! یہاں رہنا ہے تو شرافت سے رہو، ورنہ کوئی اور گھر دیکھو۔'' حامد حسین کے جواب میں ان کے ارد گرد بیٹھے گِنے چُنے اہل محلہ نے ''ہاں ہاں، بالکل بالکل'' کی صدائیں بلند کیں، اور پھر گل ناز کو الٹی میٹم دینے کے لیے ''عشا کے بعد'' کا وقت طے ہوا۔ لیکن حامد حسین جب ''انتباہی وفد'' کی تشکیل کے لیے نکلے تو کوئی گھر سے نہ نکلا۔ کہیں ''ابو'' گھر پر نہیں تھے، کہیں ''پاپا'' سوچکے تھے اور کسی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی۔ بس صغیرالدین معذرت اور وضاحت کے لیے دروازے تک آئے:''حامد صاحب! جانے دیں۔ آپ مرتضیٰ اور شاہد کو نہیں جانتے۔ چِھٹے ہوئے بدمعاش ہیں۔ شاہد تو لڑائی جھگڑے میں ایک دوبار جیل بھی جاچکا ہے۔ اور مرتضیٰ کس پارٹی کا ورکر ہے، آپ کو پتا ہی ہوگا۔''
''سالے بُزدل لوگ!'' وہ بڑبڑاتے ہوئے گھر پہنچے اور ''ایسی کی تیسی'' کہہ کر درخواست لکھنے بیٹھ گئے۔
ٹریڈ یونینسٹ کے طور پر سیاسی لوگوں میں بیٹھنا کام آیا۔ پولیس نے سُن لی۔ جس وقت ایک اے ایس آئی دو کانسٹیبلوں کے ساتھ گل ناز کے فلیٹ پر پہنچا، وہ اپنی بہن کے ہاں گئی ہوئی تھی۔ اسے موبائل فون پر پولیس کی آمد کو چھاپا بتایا گیا۔ کچھ خوف اور کچھ شرمندگی، وہ پلٹ کر نہیں آئی۔
حامد حسین آتے جاتے گل ناز کے فلیٹ پر پڑا تالا دیکھتے اور ایک نرم و سُبک رو کا جھونکا تن من میں لہرا کر انھیں مطمئن اور سرشار کرجاتا۔
اس روز بھی وہ اس تالے کو دیکھ کر اپنے دل کا بوجھ یاد کرتے اور سکون کا سانس لیتے اپنے فلیٹ کی بیل بجانے ہی والے تھے کہ ایک آواز نے ان کا بڑھا ہاتھ گرفت میں لے لیا۔
''بھائی! چھوڑو ناں، میں ایسی نئیں ہوں۔'' نوجوان ماسی پروین کی سرائیکی مہکاتی آواز میں ڈر اور درشتی لرز رہی تھی۔ پروین مردوں سے مکالمے میں لفظ ''بھائی'' کی جو فصیل کھڑی کرتی تھی، آج وہ ڈھے رہی تھی۔ وہ تیزی سے اوپر کی منزل کی طرف بڑھے۔
''۔۔۔۔۔سمجھی، ورنہ تجھے اس پروجیکٹ میں کام نہیں کرنے دوں گا۔'' دبی دبی مردانہ آواز رضا کی تھی، جو انھیں دیکھ کر تیزی سے سیڑھیاں اُترگیا۔ حامد حسین کچھ دیر بُت بنے پروین کو اوپر جاتا دیکھتے رہے، پھر تھکے تھکے قدموں سے پلٹ آئے۔
اور دو دن بعد وہ کھڑکی میں کھڑے فلیٹوں سے اُتر کر پروجیکٹ کے فرش پر پھیلی دھوپ کے نظارے میں محو تھے، جو ان کے فلیٹ سے دور دور ہی رہتی تھی، کہ انھیں ثوبیہ آتی دکھائی دی۔ دھوپ کی سفیدی سفید یونیفارم پہنے ان کی بیٹی کی پاکیزگی کچھ اور بڑھا رہی تھی، مگر یہ تو باپ کی نظر تھی۔ ثوبیہ دو اور آنکھوں میں بھی منعکس تھی۔ یکایک سامنے دیکھ کر چلتی ثوبیہ کی آنکھیں جُھک گئیں اور دھیمی رفتار تیزگامی میں بدل گئی۔ باپ کی حساسیت اس تبدیلی کو نظر انداز نہ کرسکی۔ ان کی نکتے میں سمٹی نگاہ پھیلی تو کھڑکی کے عین نیچے مرتضیٰ کو کھڑے پایا، جس کی نظریں ثوبیہ کو اس کے چہرے کے سوا دیکھ رہی تھیں۔ ہونٹوں پر پھیلی مکروہ مسکراہٹ قہقہوں کی منزل کا پہلا قدم لگ رہی تھی۔ حامد حسین کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اتنی تیزی سے کہ کوئی نہیں بتاسکتا یہ چہرہ سرخ ہوا تھا، زرد یا سیاہ!
اگلے دن شام کے ساتھ پروجیکٹ میں اُترتی گل ناز کو دیکھ کر مین گیٹ پر کھڑے لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا:''یہ تو آگئی۔''
ایک باخبر آواز نے انکشاف کیا:''حامد صاحب نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔''