پاکستان میں ہُوا اضافہ

ممکنہ تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے طویل المدت حکمت عملی اور موثر حکمت عملی درکار ہوگی

ہماری سمندری حدود اور وسائل کا بڑھنا ساحلوں کا منظرنامہ بدلے گا؟۔ فوٹو: فائل

دہشت گردی، سیاسی انتشار اورابتر معیشت کے ملکی منظرنامے سے ایک خوب صورت خبر سامنے آئی ہے، جسے ذرائع ابلاغ میں زیادہ اہمیت نہیں مل سکی۔۔۔۔ہم بات کررہے ہیں اپنے وطن پاکستان کی حدود میں توسیع کی۔

اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری حدود نے پاکستان کے سمندری حدود میں اضافے کا پاکستانی دعویٰ تسلیم کرلیا ہے جس کے تحت اب پاکستانی سمندری حدود 200 ناٹیکل میل سے بڑھ کر 350 ناٹیکل میل ہوگئی ہیں۔ اس طرح پاکستان کے موجودہ 240,000 مربع کلومیٹر خصوصی اقتصادی زون ( Exclusive Economics Zone) کے علاوہ پچاس ہزار کلومیٹر کا اضافی کانٹی نینٹل شیلف پاکستان کے زیرانتظام آگیا ہے۔

یہ خبراپنی نوعیت کے اعتبار سے اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کا صرف قومی سلامتی کے اداروں سے ہی نہیں، بل کہ ماحولیات اور معیشت سے بھی براہ راست تعلق بنتا ہے کیوںکہ اس اضافی کوننٹی نینٹل شیلف کے رقبے کے ساتھ ہی اس علاقے سے حاصل ہونے والے وسائل میں بھی اضافہ ہوگا، جس میں سمندری حیات اور تیل اور گیس کے وسائل سرفہرست ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک قابل فخر لمحہ اور طرۂ امتیاز بھی ہے کہ پاکستان ٹھوس بنیادوں پر اپنے دعوے کو ثابت کرکے والا اس خطے کا پہلا ملک بن چکا ہے۔

اقوام متحدہ کا کنونشن برائے سی لاز (UNCLOS) کسی ملک کی سمندری حدود کو کئی حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ہر حصے کے حقوق اور قوانین مختلف ہیں۔ کانٹی نینٹل شیلف میں ملک کو معدنیات کے تلاش کے حقوق بھی حاصل جاتے ہیں۔ اگرچہ بین الاقوامی سمندری قوانین کاآرٹیکل 76 ساحلی ممالک کو کانٹی نینٹل شیلف 200 ناٹیکل میل سے بڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم ساحلی ممالک کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری حدود کے سامنے تیکنیکی اعدادوشمار اور مواد کے ذریعے اپنا دعویٰ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ یہ کمیشن اوشینوگرافی، جیوفزکس، جیولوجی، اور دیگر متعلقہ شعبہ جات کے 21 ماہرین پر مشتمل ہوتا ہے۔ پاکستان کو بھی اس تنظیم میں نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔

پاکستان کی سمندری حدود میں اضافے کا منصوبہ 2005 میں پاک بحریہ اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشینو گرافی نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی سرپرستی میں کے ساتھ مشترکہ طور پر شروع کیا۔ 4 سال کی انتھک محنت اور ضخیم اعدادوشمار جمع کرنے اور ان کی جانچ پڑتال کے بعد 30اپریل 2009 کو یہ کیس اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری حدود کو باقاعدہ پیش کیا گیا۔ پاکستان کی باری آنے پر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری حدود کے ایک 7 رکنی سب کمیشن وفد نے پاکستان کی درخواست کا باقاعدہ جائزہ لیا اور ایک سال تک مسلسل تجزیے اور تحقیق کے بعد آخرکار اقوام متحدہ کے کمیشن نے پاکستان کے کانٹی نینٹل شیلف کی حد 200 سے بڑھا کر 350 ناٹیکل میل کرنے کی سفارشات منظور کرلیں۔

صد شکر کہ ہمارا سمند اور ساحل وسائل سے مالامال ہیں۔ قدرت نے ایک ہزار کلومیٹر کے لگ بھگ ایک طویل ساحلی پٹی پاکستان کو عطا کی ہے۔ کیٹی بندر سے جیونی تک پھیلی ہوئی یہ طویل ساحلی پٹی اپنی مثال آپ ہے ۔ اپنے فطری حسن اور قدیم تاریخی و تہذیبی ورثے کی امین ہونے کے ناتے یہ ساحلی علاقے اپنی ایک علیحدہ پہچان رکھتے ہیں۔ یہ جہاں ایک طرف ماہی گیری کے بھرپور مواقع مہیا کرتے ہیں تو دوسری جانب تیمر کے جنگلات کی خوب صورتی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ یہاں پر جہازرانی کے بہترین مواقع موجود ہیں تو ساتھ ہی گرم پانیوں میں مونگے کی نودریافت شدہ چٹانیں بھی چونکادینے والی ہیں۔ گویا کہ حیاتی تنوع کے اعتبار سے ہم اپنی ساحلی پٹی اور سمندری پانی کو بڑا زرخیز اور اسے ایک مکمل لائف سپورٹ سسٹم قرار دے سکتے ہیں۔

ماہر ماحولیات رفیع الحق سمندری حدود میں اضافے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری ساحلی پٹی اور سمندری حدودانتہائی زرخیز انڈس ڈیلٹا کی وجہ سے بے پناہ وسائل کی حامل یعنی High Productive Zone تصور کی جاتی ہے۔ یہ علاقہ حیاتیاتی تنوع کی رنگارنگی کے اعتبار سے بھی بہت زرخیز ہے اور جہاں حیاتیاتی تنوع کی بہتات ہو وہاں یقیناً زیرزمین تیل اور دیگر معدنی وسائل کی موجودگی کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ انڈس ڈیلٹا کا شماردنیا کے انتہائی زرخیزڈیلٹاؤں میں کیا جاتا ہے۔

دنیا کے بڑے دریاؤں میں 'دریائے نیل' اور 'دریائے سندھ' قابل ذکر ہیں، جو اپنے پانی کے بہاؤ کے ساتھ بڑی مقدار میں ریت اور مٹی لاتے ہیں۔ جب اس پانی کا اخراج بحیرۂ عرب میں ہوتا تھا تودریائی پانی کے منہ زور تھپیڑوں سے سمندری روئیں ساحل سے 5 سو کلو میٹر دور تک اثر انداز ہوتی تھیں اور دریا کا میٹھا پانی سمندر کے نیلگوں کھارے پانی کو کئی کلو میٹر دور تک سرمئی کر ڈالتا تھا۔ سمندر اور دریا کی اس کشمکش کے نتیجے میں ہزاروں سال میں دریائے سندھ کا ڈیلٹا وجود میں آیا اور اسے انڈس ڈیلٹا کہا جانے لگا۔ قدیم نقشوں کے مطابق ہاتھ کی ہتھیلی اور انگلیوں کی شکل والے اس ڈیلٹا سے سترہ کھاڑیاں نکلتی تھیں۔ یہ کھاڑیاں کراچی سے لے کر بھارتی سرحد رن آف کچھ تک پھیلی ہوئی تھیں۔



دریائے سندھ کے پانی میں ریت اور مٹی کی مقدار دریائے نیل سے تین گنا زیادہ ہے۔ یہ ریکارڈ بھی موجود ہے کہ 1873ء تک دریا نے تقریباً 97 مربع میل نئی زمین بنائی تھی۔ اچھے دنوں میں ڈیلٹا سالانہ اپنے ساتھ40 بلین ٹن مٹی بہا کر لاتا تھا۔ زرخیزی کا ایک سبب یہاں لاکھوں ایکڑ رقبے پر موجود تیمر کے جنگلات بھی تھے جو میٹھے پانی کی کمی سے ناپید ہوتے چلے گئے۔ 1998 میں سیٹلائٹ کی مدد سے کیے گئے مشاہدے کے مطابق ڈیلٹا کے جنگلات کم ہوکر صرف 4لاکھ ایکڑ پر باقی رہ گئے ہیں۔ ان میں سے بھی صرف ایک لاکھ 25ہزار ایکڑ پر واقع درخت اچھی حالت میں موجود ہیں جب کہ مزید ایک لاکھ 25ہزار ایکڑ پر مشتمل جنگلات تباہ حالی کا شکار ہیں۔

ماہرین کے مطابق 1999 میں آنے والا سمندری طوفان جس نے دیگر ساحلی شہروں میں تباہی مچادی تھی۔ صرف تیمر کے جنگلات کے باعث کراچی تک نہیں پہنچ پایا تھا۔تیمر کے ساحلی جنگلات کو مچھلیوں اور جھینگوں کی 'افزائش نسل' کی نرسری کہا جاتا ہے۔ ماہرین ماحولیات کا اس پر اتفاق ہے کہ تیمر کی موجودگی ساحلوں کو سمندری طوفان اور زمین کو ہوائی کٹاؤ اور زمین بردگی سے بچاتی ہے۔ سمندر کے کنارے ساحلوں پر اُگے جھاڑ جھنکاڑنما تیمر کے درخت اگرچہ نظرفریب نہیں ہوتے، لیکن اپنے کام کے باعث یہ یقیناً دیگر درختوں سے منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ ماہرین نے ان درختوں کی انجذابی صلاحیت کے باعث انہیں زمین کے پھیپڑوں کا نام دیا ہے، لیکن نئی تحقیق بتاتی ہے کہ کارخانۂ قدرت میں ان کا مقام اور کام کچھ اور بڑھ کر ہے۔


حالیہ منظرعام پر آنے والا کرۂ ارض پر موجود تیمر کے جنگلات کا تفصیلی نقشہ اور رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ تیمر(Mangroves) کے درختوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت دیگر درختوں سے زیادہ ہے۔ سائنس دانوں نے نہ صرف تیمر کے جنگلات کا نقشہ تیار کیا بل کہ اپنی تحقیق سے وہ ان مقامات کی نشان دہی کرنے میں بھی کام یاب ہوگئے جہاں تیمر کے درختوں میں کاربن زیادہ جمع تھا۔ گویا تیمر کے درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب تو کرتے ہیں لیکن جذب کرنے کی صلاحیت مختلف ہے اور اس کا انحصار متعلقہ جنگلات کی آب و ہوا، ماحول اور انواع پر منحصر ہے۔ گویا کلائمیٹ چینج یا بدلتے موسموں سے نمٹنے کا ایک سادہ اور آسان حل زیادہ سے زیادہ تیمر کی شجرکاری اور پہلے سے موجود درختوں کی برقراری ہے۔

اگر سمندری حیات سے متعلق وسائل پر بات کی جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فش انڈسٹری ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں ایک فی صد روزگار ماہی گیری اور افزائش آبی حیات کی وجہ سے ہے، ملک میں چالیس لاکھ افراد ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ پاکستان میں سمندری ماہی گیری سے سالانہ ساڑھے چھ لاکھ ٹن سے زاید مچھلی پکڑی جاتی ہے، جب کہ مچھلی سالانہ 12 ارب روپے کی مچھلی اور سمندری خوراک مختلف ممالک جن میں امریکا، جاپان، سری لنکا، سنگاپور، یورپی یونین اور خلیجی ریاستیں ہیں کو بھیجی جاتی ہے۔

ملک میں 29 فش پروسیسنگ یونٹ قائم ہیں، جن میں 10 ہزار ٹن مچھلی محفوظ کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے ساحلوں اور آبی ذخیروں میں دنیا کے دیگر ساحلوں اور سمندروں کے مقابلے میں مچھلیوں اور جھینگوں کی پیداوار دس گنا اور بحیرۂ ہند کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ قومی ماہی گیری کی قومی پالیسی کے مطابق پاکستان مچھلی اور جھینگے کی پیداوار میں اٹھائیس ویں نمبر پر اور مچھلی برآمد کرنے والے ممالک میں50 نمبر پر ہے۔

ملک میں ماہی گیری کی ترقی کیلئے قومی فشریز پالیسی کا اعلان ہوچکا ہے، پالیسی کے تحت قومی معاشی ترقی، غربت کے خاتمے اور خوراک کی فراہمی میں فشریز کے شعبے کی شرکت کو بڑھایا جائے گا۔ حالیہ سمندی حدود میں اضافہ فشنگ انڈسٹری پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سمند اور ڈیلٹا کے باعث قدرتی آبی چکر (Water cycle) اور بارشوں کا نظام برقرار رہتا ہے۔ فطری نظام کی برقراری ہی دراصل زمین پر زندگی کی ضمانت ہے۔ اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج(IPCC) کی جاری کردہ 2013 کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زمین، ہوا اور سمندر میں عالمی سطح پر درجۂ حرارت کے اضافے میں اب کوئی شک نہیں رہا ہے۔



سائنس دانوں نے مزید خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماحول میں تپش پیدا کرنے والی گیسیں درجۂ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی نظام کے ہر پہلو کو تہہ و بالا کردیں گی۔ اسٹاک ہوم میں آئی پی سی سی کے ورکنگ گروپ کے شریک چیئر مین پروفیسر ٹامس اسٹوکر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی ''انسان'' اور ماحولیاتی نظام کے دو بڑے اور مرکزی وسائل ''زمین اور پانی'' کو چیلینج کرتی ہے۔ لہٰذا سمندری وسائل کا احتیاط سے استعمال اور ڈیلٹا کی برقراری ضروری ہے، تاکہ ساحلوں کے ماحولیاتی نظام کا توازن برقرار رہے۔

دیگر وسائل کے علاوہ پاکستان کو اس حصے میں پائپ لائن بچھانے، انٹرنیٹ کیبل نصب کرنے اور تیل و گیس کی تلاش کا حق مل رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 90 فی صد تجارت سمندر کے ذریعے ہوتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی سمندری حدود میں پچاس ہزار مربع کلومیٹر اضافہ ہونے سے ملک میں 7 سے 8 ارب کا سالانہ تیل حاصل کیا جاسکے گا، جب کہ اس وقت ملک میں تیل کی سالانہ 20 ارب روپے کی کھپت میں سے پاکستان صرف 2 ارب روپے سالانہ کا تیل خود پیدا کررہا ہے۔ لیکن اسے ہم تصویر کا ایک رخ کہہ سکتے ہیں۔ اگر دوسرے رخ کا جائزہ لیں تو سب کچھ مختلف دکھائی دیتا ہے۔

بیشتر ساحلی بستیاں اجڑے دیار کا منظر پیش کرتی ہیں۔ جہاں بھوک، افلاس تنگ دستی اور جہالت کا راج ہے۔ تیمر کے جنگلات بے رحمانہ برتاؤ کا شکار ہیں۔ بے تحاشہ ماہی گیری اور ممنوع جال کا کھلے عام استعمال، ساحلی کٹاؤ کے باعث زمین کی بردگی کا جاری عمل ، بڑھتی ہوئی صنعتی اور شہری سرگرمیوں کے سبب ناقابل بیان آلودگی سے ساحل سمندر کی ابتر حالت اور گلوبل وارمنگ کے ممکنہ خطرات سے متعلق خدشات۔ یہ سب بڑے چیلینج بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ لیکن کیا ہم مقابلے کے لیے تیار ہیں؟

محکمۂ موسمیات کے اگر گذشتہ دس سالہ اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ساحل مختلف شدت کے سمندری طوفانوں کی گزرگاہ بنتے رہتے ہیں اور آئندہ برسوں میں ایسے کئی طوفان ہمارے کوسٹل ایریاز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ ان ممکنہ تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں ہمہ وقت تیاری کی ضرورت ہوگی اور اس کے لیے طویل المدت حکمت عملی اور موثر حکمت عملی درکار ہوگی۔ اگر ہم اپنی ساحلی پٹی پر نظر دوڑائیں تو ہر طرف بے شمار سرگرمیوں کا طوفان دکھائی دے گا، لیکن بدقسمتی سے وہ سرگرمیاں بہت کم کم نظر آئیں گی جو حقیقی معنوں میں مثبت تبدیلی کے زمرے میں آئیں گی۔

اس کی ایک بڑی وجہ غالبا مختلف اداروں اور تنظیموں کے مابین کمزور روابط اور ساحل کے ساتھ آباد لوگوں سے عدم تعلق بھی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان عوامل پر بھرپور توجہ کے بغیر پاکستان کے ساحل اور سمندر سے متعلق قدرتی ماحول اور بے پناہ وسائل کا تحفظ اور اس سے وابستہ ترقی کا خواب ادھورا ہی دکھائی دیتا ہے۔ آپ کو پاکستان کے ان پسماندہ اور زوال پزیر علاقوں سے متعلق مختلف نوع کی دستاویزات کا ایک جنگل نظر آئے گا، لیکن ان میں سے بہت کم ایسی ہوں گی جو کہ نہ صرف حکمت سے بھرپور اور کسی حد تک قابل عمل بھی ہوں۔

بہت ضروری ہے کہ اب ایک موثر اور مربوط ساحلی انتظام کے ذریعے ماحول دوست سازگار حالات برپا کیے جائیں، جن میں ماہی گیری، تیمر کے جنگلات، سمندری کچھووں سمیت دیگر آبی حیات، مونگے کی چٹانیں، ساحلی سیاحت اور محفوظ علاقے، آلودگی کی روک تھام اور گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں سطح سمندر میں ممکنہ اضافے جیسے کثیر الجہتی شعبوں کو بیک وقت دیکھا جاسکتا ہے لیکن اس نظام اور انتظام کی کام یابی مقامی لوگوں کی ہر سطح پر شمولیت اور تعاون کے بغیر قطعی ممکن نہیں۔ آج اس کا ادراک موجود ہے اور ضروری عزم بھی۔ کیا ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہم اپنے ساحلی وسائل کو پائے دار بنیادوں پر ایک مربوط نظام کے تحت استوار کرتے ہوئے آئندہ کے خطرات سے موثر انداز میں نمٹنے کی صلاحیت حاصل کرلیں گے؟

یہ وہ ون ملین سوال ہے جواس خوش آئند خبر کے ساتھ ہی ارباب اختیار کی بصیرت اور حکمت کے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہے!
Load Next Story