ایجوکیشنل چینل وقت کی اہم ترین ضرورت
مجھے ان سینکڑوں چینلز کے ہونے کے باوجود بھی کچھ تشنگی سی محسوس ہوتی ہے۔
آج کل ایک جملہ تقریباً روز ہی کہیں نہ کہیں سنائی دیتا ہے کہ ''جناب میڈیا کا دور ہے'' اور نظر بھی کچھ ایسا ہی آتا ہے کہ معاشرے کا ہر طبقہ میڈیا پر چلنے والی خبروں سے نہ صرف آگاہ رہتا ہے بلکہ بعض اوقات تو حکومت مسائل کے حل کے لیے بھی میڈیا پر چلنے والی خبروں کا سہارا لیتی ہے۔
اب معاملہ تو یہ ہے کہ ٹی وی آن کرتے ہی سمجھ ہی نہیں آتا کہ کس چینل پر ٹہرا جائے، کسے دیکھا جائے اور کسے چھوڑا جائے، بس اِدھر اُدھر چینلز تبدیل کرنے میں ہی سارا ٹائم گزر جاتا ہے۔ کیبل پر انٹرٹینمٹ، خبروں، اسلامی چینلز، ملکی اور غیر ملکی فلموں، ڈراموں، موسیقی، بزنس اور کھیلوں کے سینکڑوں چینلز کی بھرمار ہے۔
میں اکثر اوقات اپنے میڈیا سے منسلک دوستوں سے یہ ذکر کرتا ہوں کہ جناب یہ کیا ماجرہ ہے کہ مجھے تو ان سینکڑوں چینلز کے ہونے کے باوجود بھی کچھ تشنگی سی محسوس ہوتی ہے، تو مجھے برجستہ جواب ملتا ہے کہ جناب چینلز پر وہی آتا ہے جو پبلک دیکھنا چاہتی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ جناب آپ کی تشنگی ختم ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ چینل خود ہی شروع کردیں۔ اگرچہ یہ جواب تکلیف دہ تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس جواب نے سوچنے پر بھی مجبور کردیا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ کاش میرے پاس اتنے وسائل ہوتے تو میں نہ صرف اپنی تشنگی ختم کرلیتا بلکہ کروڑوں لوگوں کو بھی سیراب کرتا ۔
دراصل بات یہ ہے کہ مجھے ان چینلوں کی دنیا میں کوئی بھی تعلیمی چینلز نظر نہیں آتا، اگر کوئی ایک آدھ پروگرام نظر آ بھی جائے تو اس کا تعلق ہمارے تعلیمی نظام سے نہیں ہوتا، یوں کہیں کہ اس وقت ہمارے پاس کوئی ملکی تعلیمی چینل نہیں ہے، جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے اور اس کے لئے نہ صرف حکومت کو سوچنا ہوگا بلکہ تمام ٹی وی چینل مالکان اور سرمایہ داروں کو بھی سوچنا چاہیئے۔
جب حکومت بچوں کے لئے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے قیام میں تاخیر سے کام لیتی ہے تو کوئی بجی حیثیت میں آگے بڑھ کر اس کار خیر کا ذمہ خود اٹھالیتا ہے، اگر اسی طرح تعلیمی چینلز کے لئے بھی سوچا جائے تو اس کے نہ صرف ہمارے تعلیمی نظام پر مثبت اور دور رس اثرات مرتب ہونگے بلکہ شرح خواندگی کے بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہونگے۔
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ایک سیمینار میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 18 کروڑ آبادی والے اس ملک میں تقریباً 60 فیصد نوجوان ہیں، جنِ کی عمریں 15 سے 24 سال کے درمیان ہیں جبکہ 18 سے 29 سال کی عمر والے 5 کروڑ نوجوانوں میں 55 فیصد شہروں میں رہتے ہیں اور ان میں سے پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد تقریباً 58 سے 60 فیصد ہیں۔ اِس ضمن میں شاید ایک مفروضہ یہ پیش کیا جائے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد، بالخصوص شہروں میں رہنے والے نوجوان، ٹیلی ویژن کے مقابلے میں انٹرنیٹ پر وقت بتانے کو ترجیح دیتی ہے، لیکن پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (پی ڈی ایچ ایس) کی ایک ریسرچ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ 87 فیصد گھروں میں ٹیلی ویژن جبکہ صرف 17 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔
دنیا بھر میں تعلیمی چینلز براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشنز کے توسّط سے پیش کیے جاتے ہیں یا پھر پرائیوٹ یونیورسٹیاں مقامی اور ادارتی سطح پر ایسے چینلز نشر کر رہی ہیں۔ تعلیمی معاونت کے علاوہ تعلیمی چینلز پر ایسے نوجوانوں کو جو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے کے خواہش مند ہیں اور وقت کی قلّت یا وسائل کی کمیابی کے باعث اِس خواہش کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، مختلف ٹیکنیکل اور ووکیشنل کورسز بھی سکھائے جاسکتے ہیں تاکہ وہ خود کفیل ہوسکیں اور اپنا بھرپور کردار پوری مستعدی کے ساتھ نبھا سکیں۔
چینلز کی آن لائن اسٹریمنگ، لائیو اور دوبارہ ٹیلی کاسٹ اور پروگرام کے دوران لائیو کالز کی سہولت ایک پروگرام کو باآسانی الیکٹرونک کلاس روم میں تبدیل کرسکتی ہے۔ نیز طلباء کے لیے ایسے پروگرامز سے بوقتِ ضرورت استفادہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے لیے بھی یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ثابت ہوسکتا ہے جہاں وہ اپنی تعلیمی سہولتوں کی نہ صرف مناسب تشہیر کرسکیں گے بلکہ طلباء کے لیے بہتر گائیڈنس بھی فراہم کرسکیں گے۔
اگر آج پاکستان کے کسی بھی شہر میں حالات خراب ہوں تو طلباء تیزی سے چینل بدلتے نظر آتے ہیں کہ کل تعلیمی ادارے کھلیں گے یا نہیں؟ امتحانات ہونگے یا نہیں ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ، لیکن اگر اِس میڈیا کے دور میں کوئی ایک تعلیمی چینل شروع کردیا جائے جس میں صرف اور صرف تعلیم اور تعلیمی اداروں سے متعلق خبریں اور پروگرام نشر کیئے جائیں، طلباء کی تعلیم کے بارے میں تعلیمی ماہرین کے ذریعہ رہنمائی فراہم کی جائے، دنیا پھر میں موجود مختلف تعلیمی اداروں میں پاکستانی طلباء کے لئے اسکالرشپ کے طریقہ کار سے آگاہی دی جائے تو یقینی طور پر ایسا چینل طلباء کے لیئے بہت سود مند ثابت ہوگا۔
میں سمجھتا ہوں ایسا تعلیمی چینل شروع ہونے کے بعد ہر تعلیمی ادارہ اپنے طالبعلموں کی آگاہی کے لئے اپنے تمام اعلانات ان چینل کے ذریعے نشر کرسکے گا جس سے طلباء کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ شاید اسی طرح وطن عزیز سے جہالت کے اندھیرے ختم ہوجائیں اور ہماری آنے والی نسلیں دنیا کے ہر کونے میں ملک کا نام روشن کرنے میں اہم کردار ادا کرسکے۔
[poll id="336"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب معاملہ تو یہ ہے کہ ٹی وی آن کرتے ہی سمجھ ہی نہیں آتا کہ کس چینل پر ٹہرا جائے، کسے دیکھا جائے اور کسے چھوڑا جائے، بس اِدھر اُدھر چینلز تبدیل کرنے میں ہی سارا ٹائم گزر جاتا ہے۔ کیبل پر انٹرٹینمٹ، خبروں، اسلامی چینلز، ملکی اور غیر ملکی فلموں، ڈراموں، موسیقی، بزنس اور کھیلوں کے سینکڑوں چینلز کی بھرمار ہے۔
میں اکثر اوقات اپنے میڈیا سے منسلک دوستوں سے یہ ذکر کرتا ہوں کہ جناب یہ کیا ماجرہ ہے کہ مجھے تو ان سینکڑوں چینلز کے ہونے کے باوجود بھی کچھ تشنگی سی محسوس ہوتی ہے، تو مجھے برجستہ جواب ملتا ہے کہ جناب چینلز پر وہی آتا ہے جو پبلک دیکھنا چاہتی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ جناب آپ کی تشنگی ختم ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ چینل خود ہی شروع کردیں۔ اگرچہ یہ جواب تکلیف دہ تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس جواب نے سوچنے پر بھی مجبور کردیا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ کاش میرے پاس اتنے وسائل ہوتے تو میں نہ صرف اپنی تشنگی ختم کرلیتا بلکہ کروڑوں لوگوں کو بھی سیراب کرتا ۔
دراصل بات یہ ہے کہ مجھے ان چینلوں کی دنیا میں کوئی بھی تعلیمی چینلز نظر نہیں آتا، اگر کوئی ایک آدھ پروگرام نظر آ بھی جائے تو اس کا تعلق ہمارے تعلیمی نظام سے نہیں ہوتا، یوں کہیں کہ اس وقت ہمارے پاس کوئی ملکی تعلیمی چینل نہیں ہے، جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے اور اس کے لئے نہ صرف حکومت کو سوچنا ہوگا بلکہ تمام ٹی وی چینل مالکان اور سرمایہ داروں کو بھی سوچنا چاہیئے۔
جب حکومت بچوں کے لئے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے قیام میں تاخیر سے کام لیتی ہے تو کوئی بجی حیثیت میں آگے بڑھ کر اس کار خیر کا ذمہ خود اٹھالیتا ہے، اگر اسی طرح تعلیمی چینلز کے لئے بھی سوچا جائے تو اس کے نہ صرف ہمارے تعلیمی نظام پر مثبت اور دور رس اثرات مرتب ہونگے بلکہ شرح خواندگی کے بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہونگے۔
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ایک سیمینار میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 18 کروڑ آبادی والے اس ملک میں تقریباً 60 فیصد نوجوان ہیں، جنِ کی عمریں 15 سے 24 سال کے درمیان ہیں جبکہ 18 سے 29 سال کی عمر والے 5 کروڑ نوجوانوں میں 55 فیصد شہروں میں رہتے ہیں اور ان میں سے پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد تقریباً 58 سے 60 فیصد ہیں۔ اِس ضمن میں شاید ایک مفروضہ یہ پیش کیا جائے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد، بالخصوص شہروں میں رہنے والے نوجوان، ٹیلی ویژن کے مقابلے میں انٹرنیٹ پر وقت بتانے کو ترجیح دیتی ہے، لیکن پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (پی ڈی ایچ ایس) کی ایک ریسرچ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ 87 فیصد گھروں میں ٹیلی ویژن جبکہ صرف 17 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔
دنیا بھر میں تعلیمی چینلز براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشنز کے توسّط سے پیش کیے جاتے ہیں یا پھر پرائیوٹ یونیورسٹیاں مقامی اور ادارتی سطح پر ایسے چینلز نشر کر رہی ہیں۔ تعلیمی معاونت کے علاوہ تعلیمی چینلز پر ایسے نوجوانوں کو جو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے کے خواہش مند ہیں اور وقت کی قلّت یا وسائل کی کمیابی کے باعث اِس خواہش کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، مختلف ٹیکنیکل اور ووکیشنل کورسز بھی سکھائے جاسکتے ہیں تاکہ وہ خود کفیل ہوسکیں اور اپنا بھرپور کردار پوری مستعدی کے ساتھ نبھا سکیں۔
چینلز کی آن لائن اسٹریمنگ، لائیو اور دوبارہ ٹیلی کاسٹ اور پروگرام کے دوران لائیو کالز کی سہولت ایک پروگرام کو باآسانی الیکٹرونک کلاس روم میں تبدیل کرسکتی ہے۔ نیز طلباء کے لیے ایسے پروگرامز سے بوقتِ ضرورت استفادہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے لیے بھی یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ثابت ہوسکتا ہے جہاں وہ اپنی تعلیمی سہولتوں کی نہ صرف مناسب تشہیر کرسکیں گے بلکہ طلباء کے لیے بہتر گائیڈنس بھی فراہم کرسکیں گے۔
اگر آج پاکستان کے کسی بھی شہر میں حالات خراب ہوں تو طلباء تیزی سے چینل بدلتے نظر آتے ہیں کہ کل تعلیمی ادارے کھلیں گے یا نہیں؟ امتحانات ہونگے یا نہیں ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ، لیکن اگر اِس میڈیا کے دور میں کوئی ایک تعلیمی چینل شروع کردیا جائے جس میں صرف اور صرف تعلیم اور تعلیمی اداروں سے متعلق خبریں اور پروگرام نشر کیئے جائیں، طلباء کی تعلیم کے بارے میں تعلیمی ماہرین کے ذریعہ رہنمائی فراہم کی جائے، دنیا پھر میں موجود مختلف تعلیمی اداروں میں پاکستانی طلباء کے لئے اسکالرشپ کے طریقہ کار سے آگاہی دی جائے تو یقینی طور پر ایسا چینل طلباء کے لیئے بہت سود مند ثابت ہوگا۔
میں سمجھتا ہوں ایسا تعلیمی چینل شروع ہونے کے بعد ہر تعلیمی ادارہ اپنے طالبعلموں کی آگاہی کے لئے اپنے تمام اعلانات ان چینل کے ذریعے نشر کرسکے گا جس سے طلباء کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ شاید اسی طرح وطن عزیز سے جہالت کے اندھیرے ختم ہوجائیں اور ہماری آنے والی نسلیں دنیا کے ہر کونے میں ملک کا نام روشن کرنے میں اہم کردار ادا کرسکے۔
[poll id="336"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔