چھوٹی کلاسوں میں شاندار نتائج دینے والے طلبہ کالجوں میں فیل کیوں ہوتے ہیں
صرف کالج میں داخل کرادینا،یونیفارم، ٹرانسپورٹ کاانتظام،لیپ ٹاپ دلانا،اورکتابوں کاانتظام کردینا ہی والدین کا فرض نہیں
PESHAWAR:
طلبہ کے بعض اوقات سکولوں میں شاندارنتائج آرہے ہوتے ہیں، لیکن جونہی وہ کالجوں میں پہنچتے ہیں، یہ برے رزلٹ دکھانا شروع کردیتے ہیں، جس پر والدین حیران کم اور پریشان زیادہ ہوتے ہیں، جس کی کئی وجوہات اور ان کے حل ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کے فیل ہونے کی ایک بڑی وجہ آزادی ہے۔ سکولوں میں بچے استاد،استانی کے خوف سے پڑھتے ہیں اور جوں ہی یہ کالجوں میں پہنچتے ہیں، انہیں ایک آزادی کا احساس ہوتاہے،کیوں کہ اب انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کہاں یہ کہ سکول میں صبح سات بجے گئے تو پھر سہ پہر چار بجے ہی گھر لوٹیں گے۔کلاسیں، کتابیں اور اساتذہ کی کڑی نگرانی اورکہاں یہ کہ کالج میں کوئی پوچھنے والا ہی نہ ہو۔ زیادہ تر اساتذہ کو اپنا مضمون پڑھانے میں دلچسپی ہوتی ہے، لیکن طلباء و طالبات کی شخصیت سازی کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔
اسا تذہ سمجھتے ہیں کہ میں نے اپنا مضمون پڑھا لیا، بس! میرے ذمہ یہی تھا، حا لاں کہ استاد نے تو ایک قوم تعمیر کرنی ہے نہ کہ اس نے ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ یاد کروانے ہیں۔ اس آزادی اور کھل کا لڑکے اور لڑکیاںخوب استعمال کرتے ہیں۔ ان کے دل میں ایک خیال جڑ پکڑ لیتا ہے کہ ہمیں کون پکڑنے والا ہے؟ ابھی توزندگی کامزہ آنے لگا ہے، ساری عمر پڑی ہے پڑھنے کے لئے۔
کالجوں میںفیل ہونے والے بچوں کی شرح میںاضافے کی دوسری وجہ بچوں میں پائی جا نے والی بے مقصدیت ہے۔ لڑکے، لڑکیوں کا کوئی مقصد (Goal) نہیں ہوتا یا پھرایک ہی ہوتا ہے ڈاکٹر یا انجئنیر،انہیں یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ اگر وہ ڈاکٹر یا انجئنیر نہ بن پائے تو کن کن شعبوں میں جا کر نام اور پیسہ کما سکتے ہیں۔ فرسٹ ائیر میں بچہ آرٹس پڑھ رہا ہوتا ہے اور خواب پائلٹ بننے کے دیکھ رہا ہوتا ہے۔
سنجیدہ والدین یا باشعوراساتذہ جہاں بچوں کے دل میں علم اور منزل کے جنون کی آگ روشن کرتے ہیں، وہاں وہ انہیں مختلف منزلوں، شعبوں کا راستہ بھی بتاتے ہیں۔ اب ایک بچے سے یہ کہہ دینا کہ اگرتم ایف ایس سی نہیں کر سکتے تو دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے، کتنی بڑی زیادتی کی بات ہے۔
بچے کے دل میں تعلیم کی لگن اس وقت پیدا ہوگی جب وہ اسے کسی خواب سے جوڑکر دیکھے گا۔ بچوں کو بے مقصدیت سے بچانا، انہیں خواب دکھانا اور ان خوابوں کے حصول کے لیے انہیں کمربستہ کرنا اچھے والدین اوراچھے اساتذہ دونوں کا فرض ہے۔
پرانے زمانے کے والدین اپنے دوستوں میں بیٹھے گپ شپ لگا رہے ہوتے ہیں اور اپنی خوبی بتا رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے بس ایک دفعہ اپنے بچے کو پہلی کلاس میں داخل کروایا تھا پھر پتہ نہیں وہ کیسے پڑھا؟اصل یہ اس والدین کی خوبی نہیں بلکہ بچے کی خوبی ہے۔
ایسے والدین بچے کو ایک بے رحم دنیا کے حوالے کر کے اپنے کاروبار یا دیگر مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ فقرہ انہیں بڑامرغوب ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہم بچوں کے لیے تو کر رہے ہیں لیکن بچے سے انہوں نے کبھی یہ نہیں پوچھا ہوتا کہ وہ کون سی کلاس میں پڑھ رہا ہے؟خیر یہ ذرا زیادہ پرانے زمانے کی بات ہے۔
آج کل زیادہ تر والدین بچوں کو اتنا نواز دیتے ہیں،کہ یہ پھر ایک غلط قدم کے طور پر سامنے آتا ہے۔ بچے کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتاکہ اس کے لیے اس کے والدین کس قدرشدید محنت کرتے ہیں۔
بچوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ انگریزی ہے۔ ایف اے/ایف ایس سی میں انگریزی ایک بڑے مضمون کی حیثیت سے سامنے آتی ہے، اب جوتو انگلش میڈیم ہیں، وہ تو کالجوں میں چل پڑتے ہیں اور جو اردو میڈیم میں پڑھے وہ پھنس جاتے ہیں۔ جب تک ہم دنیا کے اہم علوم کی کتابیں اردو میں ترجمہ کر نے کی صلاحیت اختیار نہیں کر پاتے تب تک ہمیں اپنا ذریعہ تعلیم انگریزی کر دینا چاہیے۔
بڑے بڑے دانشور،لکھاری اردو کی حمایت میں بڑ ے بڑے کالم لکھنے والے (استثنی کے ساتھ) اپنے بچوں کو او لیول کراتے ہیں اور پھر بیرون ملک سے اعلی تعلیم دلواتے ہیں۔ میٹرک سائنس کے ساتھ کرنے والے بڑے ذہین بچے جب وہی سائنسی مضامین ایف ایس سی میں انگریزی میں پڑھتے ہیں توبمشکل سیکنڈڈویژن ہی لے پاتے ہیں،اور اسطرح کمزورانگریزی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں لاکھوں بچے کالجوں میں فیل ہو جاتے ہیں۔
کالجوں میں بچوں کے فیل ہونے کی ایک اور وجہ سائینسی مضامین ہیں، ان مضامین کی تفہیم درست طریقے سے نہیں کی جاتی بلکہ بچوں کوان مضامین کا رٹا لگوایا جاتا ہے، جس سے یہ سائینسی مضامین اور ان کے بنیادی نظریات بچوں کے اندراترکران کے شعورکاحصہ نہیں بن پاتے اور نتیجتاً بچوں کی اکثریت اچھے نمبرنہیں حاصل کر پاتی۔ کالجوں میں بچوں کے فیل ہونے کی ایک وجہ کسی ٹائم ٹیبل کے بغیرسٹڈی ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں امتحان کے دنوں میں پورا زور لگا کرتیاری کرتے ہیں جبکہ پورا سمیسٹر اس مضمون کے بنیادی نکات سے بھی بے خبر رہتے ہیں۔ جبکہ سالانہ سسٹم میں امتحان دینے والوں کی حالت اوربھی پتلی ہوتی ہے۔ وہ پوراسال تیاری کرنے کے بجائے بس آخری ایک دوہفتوں میں کتابیں لے کربیٹھ جاتے ہیں اور وہ بھی بغیرکسی ٹائم ٹیبل کے، پرھ اس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتاہے۔
والدین کی بچوں پرکمزورگرفت بھی ان کے فیل ہونے کی وجہ بنتی ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ بچوں کی تربیت میں ''کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیرکی آنکھ سے'' والے مقولے کوسامنے رکھناچاہئیے۔گھر میں والدین، بڑا بھائی، بہن اور مشترکہ خاندانی نظام میں چچا، تایا،ماموں آہستہ آہستہ تعلیم کوصرف سکول،کالج اوراستادکی ذمے داری سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔
لڑکا کالج میں سات گھنٹے گزارتاہے، جبکہ باقی کے سترہ گھنٹے وہ گھرمیں سماج کے بنائے دوسرے اداروں یعنی، کلب،کھیل کامیدان، اکیڈمی،لائیبریری، انٹرنیٹ کلب،سینما یا رشتے داروں کے گھرگزارتاہے۔
ماں باپ کاروزانہ کی بنیادپرفرض بنتاہے کہ وہ لڑکوں، لڑکیوں کوبٹھائیں اوران سے کالج کاکام کرائیں۔ صرف کالج میں داخل کرادینا،یونیفارم، ٹرانسپورٹ کاانتظام،لیپ ٹاپ لے دینا،اورکتابوں کاانتظام کردینا ہی والدین کا فرض نہیں بلکہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر بچوں سے پوچھناہوگا۔
طلبہ کے بعض اوقات سکولوں میں شاندارنتائج آرہے ہوتے ہیں، لیکن جونہی وہ کالجوں میں پہنچتے ہیں، یہ برے رزلٹ دکھانا شروع کردیتے ہیں، جس پر والدین حیران کم اور پریشان زیادہ ہوتے ہیں، جس کی کئی وجوہات اور ان کے حل ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کے فیل ہونے کی ایک بڑی وجہ آزادی ہے۔ سکولوں میں بچے استاد،استانی کے خوف سے پڑھتے ہیں اور جوں ہی یہ کالجوں میں پہنچتے ہیں، انہیں ایک آزادی کا احساس ہوتاہے،کیوں کہ اب انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کہاں یہ کہ سکول میں صبح سات بجے گئے تو پھر سہ پہر چار بجے ہی گھر لوٹیں گے۔کلاسیں، کتابیں اور اساتذہ کی کڑی نگرانی اورکہاں یہ کہ کالج میں کوئی پوچھنے والا ہی نہ ہو۔ زیادہ تر اساتذہ کو اپنا مضمون پڑھانے میں دلچسپی ہوتی ہے، لیکن طلباء و طالبات کی شخصیت سازی کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔
اسا تذہ سمجھتے ہیں کہ میں نے اپنا مضمون پڑھا لیا، بس! میرے ذمہ یہی تھا، حا لاں کہ استاد نے تو ایک قوم تعمیر کرنی ہے نہ کہ اس نے ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ یاد کروانے ہیں۔ اس آزادی اور کھل کا لڑکے اور لڑکیاںخوب استعمال کرتے ہیں۔ ان کے دل میں ایک خیال جڑ پکڑ لیتا ہے کہ ہمیں کون پکڑنے والا ہے؟ ابھی توزندگی کامزہ آنے لگا ہے، ساری عمر پڑی ہے پڑھنے کے لئے۔
کالجوں میںفیل ہونے والے بچوں کی شرح میںاضافے کی دوسری وجہ بچوں میں پائی جا نے والی بے مقصدیت ہے۔ لڑکے، لڑکیوں کا کوئی مقصد (Goal) نہیں ہوتا یا پھرایک ہی ہوتا ہے ڈاکٹر یا انجئنیر،انہیں یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ اگر وہ ڈاکٹر یا انجئنیر نہ بن پائے تو کن کن شعبوں میں جا کر نام اور پیسہ کما سکتے ہیں۔ فرسٹ ائیر میں بچہ آرٹس پڑھ رہا ہوتا ہے اور خواب پائلٹ بننے کے دیکھ رہا ہوتا ہے۔
سنجیدہ والدین یا باشعوراساتذہ جہاں بچوں کے دل میں علم اور منزل کے جنون کی آگ روشن کرتے ہیں، وہاں وہ انہیں مختلف منزلوں، شعبوں کا راستہ بھی بتاتے ہیں۔ اب ایک بچے سے یہ کہہ دینا کہ اگرتم ایف ایس سی نہیں کر سکتے تو دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے، کتنی بڑی زیادتی کی بات ہے۔
بچے کے دل میں تعلیم کی لگن اس وقت پیدا ہوگی جب وہ اسے کسی خواب سے جوڑکر دیکھے گا۔ بچوں کو بے مقصدیت سے بچانا، انہیں خواب دکھانا اور ان خوابوں کے حصول کے لیے انہیں کمربستہ کرنا اچھے والدین اوراچھے اساتذہ دونوں کا فرض ہے۔
پرانے زمانے کے والدین اپنے دوستوں میں بیٹھے گپ شپ لگا رہے ہوتے ہیں اور اپنی خوبی بتا رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے بس ایک دفعہ اپنے بچے کو پہلی کلاس میں داخل کروایا تھا پھر پتہ نہیں وہ کیسے پڑھا؟اصل یہ اس والدین کی خوبی نہیں بلکہ بچے کی خوبی ہے۔
ایسے والدین بچے کو ایک بے رحم دنیا کے حوالے کر کے اپنے کاروبار یا دیگر مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ فقرہ انہیں بڑامرغوب ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہم بچوں کے لیے تو کر رہے ہیں لیکن بچے سے انہوں نے کبھی یہ نہیں پوچھا ہوتا کہ وہ کون سی کلاس میں پڑھ رہا ہے؟خیر یہ ذرا زیادہ پرانے زمانے کی بات ہے۔
آج کل زیادہ تر والدین بچوں کو اتنا نواز دیتے ہیں،کہ یہ پھر ایک غلط قدم کے طور پر سامنے آتا ہے۔ بچے کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتاکہ اس کے لیے اس کے والدین کس قدرشدید محنت کرتے ہیں۔
بچوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ انگریزی ہے۔ ایف اے/ایف ایس سی میں انگریزی ایک بڑے مضمون کی حیثیت سے سامنے آتی ہے، اب جوتو انگلش میڈیم ہیں، وہ تو کالجوں میں چل پڑتے ہیں اور جو اردو میڈیم میں پڑھے وہ پھنس جاتے ہیں۔ جب تک ہم دنیا کے اہم علوم کی کتابیں اردو میں ترجمہ کر نے کی صلاحیت اختیار نہیں کر پاتے تب تک ہمیں اپنا ذریعہ تعلیم انگریزی کر دینا چاہیے۔
بڑے بڑے دانشور،لکھاری اردو کی حمایت میں بڑ ے بڑے کالم لکھنے والے (استثنی کے ساتھ) اپنے بچوں کو او لیول کراتے ہیں اور پھر بیرون ملک سے اعلی تعلیم دلواتے ہیں۔ میٹرک سائنس کے ساتھ کرنے والے بڑے ذہین بچے جب وہی سائنسی مضامین ایف ایس سی میں انگریزی میں پڑھتے ہیں توبمشکل سیکنڈڈویژن ہی لے پاتے ہیں،اور اسطرح کمزورانگریزی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں لاکھوں بچے کالجوں میں فیل ہو جاتے ہیں۔
کالجوں میں بچوں کے فیل ہونے کی ایک اور وجہ سائینسی مضامین ہیں، ان مضامین کی تفہیم درست طریقے سے نہیں کی جاتی بلکہ بچوں کوان مضامین کا رٹا لگوایا جاتا ہے، جس سے یہ سائینسی مضامین اور ان کے بنیادی نظریات بچوں کے اندراترکران کے شعورکاحصہ نہیں بن پاتے اور نتیجتاً بچوں کی اکثریت اچھے نمبرنہیں حاصل کر پاتی۔ کالجوں میں بچوں کے فیل ہونے کی ایک وجہ کسی ٹائم ٹیبل کے بغیرسٹڈی ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں امتحان کے دنوں میں پورا زور لگا کرتیاری کرتے ہیں جبکہ پورا سمیسٹر اس مضمون کے بنیادی نکات سے بھی بے خبر رہتے ہیں۔ جبکہ سالانہ سسٹم میں امتحان دینے والوں کی حالت اوربھی پتلی ہوتی ہے۔ وہ پوراسال تیاری کرنے کے بجائے بس آخری ایک دوہفتوں میں کتابیں لے کربیٹھ جاتے ہیں اور وہ بھی بغیرکسی ٹائم ٹیبل کے، پرھ اس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتاہے۔
والدین کی بچوں پرکمزورگرفت بھی ان کے فیل ہونے کی وجہ بنتی ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ بچوں کی تربیت میں ''کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیرکی آنکھ سے'' والے مقولے کوسامنے رکھناچاہئیے۔گھر میں والدین، بڑا بھائی، بہن اور مشترکہ خاندانی نظام میں چچا، تایا،ماموں آہستہ آہستہ تعلیم کوصرف سکول،کالج اوراستادکی ذمے داری سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔
لڑکا کالج میں سات گھنٹے گزارتاہے، جبکہ باقی کے سترہ گھنٹے وہ گھرمیں سماج کے بنائے دوسرے اداروں یعنی، کلب،کھیل کامیدان، اکیڈمی،لائیبریری، انٹرنیٹ کلب،سینما یا رشتے داروں کے گھرگزارتاہے۔
ماں باپ کاروزانہ کی بنیادپرفرض بنتاہے کہ وہ لڑکوں، لڑکیوں کوبٹھائیں اوران سے کالج کاکام کرائیں۔ صرف کالج میں داخل کرادینا،یونیفارم، ٹرانسپورٹ کاانتظام،لیپ ٹاپ لے دینا،اورکتابوں کاانتظام کردینا ہی والدین کا فرض نہیں بلکہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر بچوں سے پوچھناہوگا۔