ادیب شاعر اور صدر ممنون حسین
اگر کوئی شخص انصاف پسند ہے تو اس کے لیے گورنری کانٹوں کے تاج سے کم نہیں۔
سالہا سال پہلے کی بات ہے جب ممنون صاحب سے میری پہلی ملاقات ایک تقریب میں ہوئی۔ اس کے بعد چند اور ملاقاتیں رہیں، محسوس ہوا کہ شعر و ادب میں دلچسپی رکھنے والے یہ صاحب صنعت و تجارت کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں، درس نظامی کو نامکمل چھوڑ دینے والے ممنون صاحب نے بزنس ایڈمنسٹریشن کو گھول کر پیا ہے۔
وہ خطے اور دنیا کے معاملات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں اور اس بات پر کڑھتے رہتے ہیں کہ ہم تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے اور نہایت ذہین افرادی قوت رکھنے کے باوجود ترقی معکوس کیوں کر رہے ہیں، پھر سنا کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ہیں۔ قدرے حیرت بھی ہوئی لیکن اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ میاں نواز شریف نے انھیں سندھ کی گورنری پر مامور کر دیا ہے۔
سندھ آج سے نہیں کئی دہائیوں سے ایک نہایت مشکل صوبہ ہے۔ اگر کوئی شخص انصاف پسند ہے تو اس کے لیے گورنری کانٹوں کے تاج سے کم نہیں۔ ممنون صاحب کے بارے میں خبریں آتی رہتی تھیں کہ وہ رات گورنر ہاؤس میں نہیں گزارتے، گھر چلے جاتے ہیں، وہ برنس روڈ کے پرانے باسی رہے ہیں اور ان کے پڑوسی اس بات پر ناز کرتے تھے کہ ہماری گلی میں رہنے والا صوبے کا گورنر ہو گیا ہے۔ کراچی والے بھی خوش ہوئے کہ ہم میں سے ایک ایسا شخص گورنر ہوا ہے جو نسلی یا لسانی تعصبات نہیں رکھتا، اور منصف مزاج ہے۔
کراچی والوں کو یہ خوشی زیادہ دنوں راس نہیں آئی، جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا، جمہوریت کی بساط لپٹ گئی تو اس کے ساتھ ہی ممنون صاحب بھی گورنر ہاؤس سے اٹھ کر اپنے گھر چلے گئے۔ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ان کا پہلے دن سے وہی موقف رہا جو کسی بھی جمہوریت پسند اور اصول پرست فرد کا ہونا چاہیے۔ معزول وزیراعظم نواز شریف اور ان کے گھرانے پر کڑا وقت پڑا تو یہ ببانگ دہل میاں صاحب کے ساتھ رہے۔
پاکستان واپس آنے اور جمہوریت بحال ہو جانے کے بعد اب جب کہ نواز شریف وزیراعظم کے عہدے پر ہیں، انھوں نے قصر صدر میں متمکن ہونے کے لیے ممنون صاحب ایسے شخص کا انتخاب کیا جو نہایت شائستہ اور شستہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی دو ٹوک بات کہنے میں دیر نہیں لگاتا، انھیں اگر کسی مسئلے پر میاں صاحب سے اختلاف ہو تو اس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ایک ''فدوی'' صدر ثابت ہونگے لیکن گزشتہ برسوں کے دوران انھوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کے مختلف مسائل کے بارے میں ایک واضح نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
میں ان کی تقریب حلف برداری میں شریک تھی، اور جب وہ پہلی مرتبہ کراچی تشریف لائے تو انھوں نے ون ٹو ون ملاقات میں علم و ادب کے حوالے سے میری معروضات سنیں۔ ذاتی طور پر میں ان کی ممنون ہوں کہ جب میں نے ان کی توجہ ایک صدی سے زیادہ کی عمر رکھنے والے ایک وقیع جریدے ''عصمت'' کے مسائل کی طرف دلائی تو وہ نہ صرف علامہ راشد الخیری اور مولانا رازق الخیری کے اس رسالے کی تقریب میں تشریف لائے بلکہ اس کی مدیر اور کالم نگار صفورا خیری کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے 10 لاکھ کی خطیر رقم کا چیک بھی عنایت کیا تا کہ وہ اس جریدے کی اشاعت جاری رکھ سکیں۔ ممنون صاحب کا یہ کرم مجھے ہمیشہ یاد رہے گا اور اس کی وجہ ''عصمت'' سے میری گہری جذباتی وابستگی ہے۔
ممنون صاحب کی ادب دوستی کا اندازہ ہوتا رہا ہے لیکن ایوان صدر میں جب ان کی ہدایت پر 23 مارچ کے حوالے سے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تو ان کی یہ بات بہت بھلی محسوس ہوئی کہ وہ سامعین میں تھے اور مشاعرے کی صدارت عطا الحق قاسمی کر رہے تھے۔ ممنون صاحب اور بیگم محمودہ ممنون حسین خوش ہو کر داد دیتے رہے۔
بدعنوانی سے ممنون صاحب کو بغض اور بیر ہے۔ وہ بجا طور پر بدعنوانی کو پاکستانی سماج کے تمام مسائل کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ مشاعرہ ختم ہوا اور وہ کچھ کہنے کے لیے کھڑے ہوئے تو انھوں نے کہا کہ بدعنوانی ہمیں دیمک کی طرح چاٹ گئی۔ پہلے کوئی شخص بدعنوان ہوتا تھا اور اس کے پاس ناجائز ذرائع سے دولت آ جاتی تھی تو لوگ ایسے شخص سے ربط ضبط رکھنا اپنی توہین سمجھتے تھے لیکن آج صورتحال اس کے برعکس ہے۔
اس مشاعرے میں برادرم رسا چغتائی، انور شعور، انور مسعود، خورشید رضوی، انعام الحق جاوید، امجد اسلام امجد، فاطمہ حسن اور کئی دوسری شاعرات اور شاعر موجود تھے جن سے ممنون صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ اپنے اشعار سے معاشرے کی اصلاح کریں۔ ان کی یہ بات اتنی معصومانہ تھی کہ جب کھانے کی محفل برخاست ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کی یہ بات سن کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے آپ ان سب لوگوں سے ''مسدس حالی'' لکھنے کی فرمائش کر رہے ہیں۔ اس جملے پر وہ مسکرائے اور شاعروں نے ایک قہقہہ لگایا۔
کراچی کے ناصر الدین محمود بھی وہاں موجود تھے جو یوں تو ایک بینک سے وابستہ ہیں لیکن انھیں شعر و ادب اور سیاست سے ایسا گہرا لگاؤ ہے کہ جب بھی انھیں بینک کے معاملات سے ذرا سی فرصت ملے تو وہ کسی شاعر، کسی ادیب سے کراچی کی ادبی محفلوں کے بارے میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، فاروق عادل جو اس وقت صدر محترم کے کنسلٹنٹ ہیں، ان سے ناصر میاں کے پرانے روابط ہیں اور دونوں علمی اور ادبی معاملات میں یک خیال ہیں۔
مشاعرے کے اگلے روز فاروق عادل اور راؤ فضل الرحمن نے گنے چنے ادیبوں، دانشوروں اور کالم نگاروں کو اسلام آباد مدعو کیا تھا تا کہ ادب اور فکر و دانش کے حوالے سے ان سب لوگوں کے درمیان ایک مکالمہ ممکن ہو سکے۔
اس شام مارگلہ کی پہاڑیوں سے آنے والی خنک ہوائیں بدن میں کپکپی دوڑا رہی تھیں۔ دور دور تک پھیلا ہوا سبزہ اور اس کے حاشیے پر جھومتے ہوئے پودوں اور ان پر کھلے ہوئے پھولوں سے ہوا معطر تھی۔ بلند و بالا پیٹروں کی شاخوں میں ہوا سرسرا رہی تھی اور ان کی بلندی کو چومتے ہوئے فواروں کی آواز مدھم راگنی سے کم نہ تھی۔
اس شام ایوان صدر کے سبزہ زار پر ہونے والی گفتگو تقریباً2 گھنٹے جاری رہی اور اس میں شریک لوگوں نے پاکستان کے مسائل کے بارے میں کھل کر اپنی اپنی معروضات پیش کیں۔ ممنون صاحب نے سب کا مؤقف توجہ اور تحمل سے سنا۔ بات چیت کچھ یوں شروع ہوئی کہ عالمی ثقافتی یلغار کے زیر اثر بدلتے ہوئے رسوم و رواج اور بدعنوانی جیسی صورت حال کے خلاف عوامی شعور کی بیداری میں ادب کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔
عالمی ثقافتی یلغار کے بارے میں میرا موقف ہے کہ اس اصطلاح کا استعمال دراصل ہمارے اندر موجود احساس کمتری کا اظہار کرتا ہے، انٹرنیٹ اور تیز رفتار ڈیجیٹل دور میں کوئی چیز کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ متنوع اور رنگارنگ ایسی ثقافت جس میں بدلتے ہوئے وقت سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت ہو وہ باقی رہے گی۔ بند باندھنے سے اطلاعات اور معلومات کا یہ سمندر رکنے والا نہیں۔
پاکستانی ادب کی صورت حال، موضوعات، عام آدمی اور ادب کا باہمی تعلق اور مطالعے کے بدلتے ہوئے رجحانات کا جائزہ اور عالمی ادب میں پاکستانی ادب کا کیا مقام ہے۔ اس کے ساتھ ہی جدید تعلیم کے بڑھتے ہوئے مواقع کے باوجود نئی نسل کی اقدار سے لاتعلقی اور تربیت کے مسائل پر گفتگو ہوئی اور یہ نہایت اہم نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ پاکستانی سماج کے فطری طور پر معتدل اور روشن خیال ہونے کے باوجود عدم برداشت کے مظاہر کیوں سامنے آ رہے ہیں اور اس عدم رواداری سے نجات میں ادب کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔
یہ اتنے اہم موضوعات تھے جن پر گفتگو کے لیے دو گھنٹے یقیناً ناکافی تھے۔ اس بات کا احساس سب ہی کو تھا اور شاید ہم سے زیادہ اس بات کی ضرورت ممنون صاحب محسوس کر رہے تھے، تب ہی انھوں نے محفل کے اختتام پر گفتگو کو سمیٹتے ہوئے جہاں ایک بار پھر بدعنوانی کے ناسور کا ذکر کیا، وہیں انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ آج ہمیں دہشت گردی کے جس عفریت کا سامنا ہے، اس کی ذمے داری ہم صرف بیرونی عناصر پر ڈال کر اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔
ہمیں اپنی کوتاہیوں پر نظر کرنی ہو گی اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ کون سے رویے اختیار کیے گئے جن کی وجہ سے ہم میں سے اکثر نے عدم رواداری اختیار کی۔ اس سلسلے میں علماء اور مشائخ کو بھی اپنی ذمے داریاں محسوس کرنی چاہییں۔ انھوں نے سابق چیف سیکریٹری اور انگریزی کے شاعر اور کالم نگار اعجاز رحیم صاحب کی اس تجویز سے اتفاق کیا کہ نیشنل کونسل فار ایجوکیشن آف ہیومن ویلیوز کو قائم کرنا چاہیے تا کہ اس کے تحت ملکی مسائل پر زیادہ بڑے دائرے میں گفتگو ہو۔ تعلیم بہ طور خاص ابتدائی تعلیم کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے تب ہی ہمارا ملک ناخواندگی کی دلدل سے نکل سکتا ہے۔ اس روز بھی محفل کا اختتام عشائیے پر ہوا جس میں بیگم محمودہ ممنون حسین اور ان کی بہو بھی شریک تھیں۔
کھانے کی میز پر محمودہ صاحبہ مجھے بتاتی رہیں کہ جب سے وہ ایوان صدر میں ہیں تو وہ اپنا وقت پنڈی اور اسلام آباد کی غریب بستیوں میں رہنے والوں کے دکھوں کا مداوا کرنے میں صرف کرتی ہیں۔ کسی کی تعلیم اور کسی کے علاج کا مسئلہ ہے اور کوئی کسی قانونی الجھن میں گرفتار ہے۔ وہ ایک سادہ مزاج اور سادہ لباس خاتون ہیں، برابر میں بیٹھی ہوں تو کسی کو گمان بھی نہ ہو کہ یہ پاکستان کی فرسٹ لیڈی ہیں۔
اس رات رخصت ہوتے ہوئے خوشی اس بات کی تھی کہ ایوان صدر میں ایک ایسا جوڑا رہتا ہے جو اپنے عہدے کی ذمے داریوں سے واقف ہے، جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور جسے پاکستان کی نئی نسل کی تعلیم اور تربیت دونوں کی فکر ہے کیوں کہ یہی وہ بات ہے جس سے دہشت گردی، انتہا پسندی اور بدعنوانی کو شکست دی جا سکتی ہے۔