نیکوکارہ… پولیس گناہوں کا کفارہ
میں پولیس کے ان افسران بالا سے گہری ہمدردی رکھتا ہوں جو کسی نہ کسی وجہ سے خود نیکوکارہ نہ بن سکے
اگرچہ پولیس کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا کسی تھانے میں حاضری سے زیادہ مشکل کام ہے لیکن پھر بھی اگر خود کوئی پولیس والا ہمت کر کے اپنے ساتھیوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کرے تو اسے رد نہیں کرنا چاہیے اور عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی اسے قبول کر لے کہ ولی اللہ اور صوفیوں سے منسوب واقعات میں بڑے بڑے گنہ گاروں کو نہ صرف معافی ملی ہے بلکہ انھیں ولایت بھی عطا ہوئی ہے۔
چند سطروں میں بیان کی جانے والی یہ بات چند لفظوں میں بھی بیان ہو سکتی تھی اور بات بنیادی طور پر صرف اتنی تھی کہ ایک پولیس افسر نے اپنے بڑوں سے فرض شناسی اور حب الوطنی کے جرم میں نوکری سے برطرفی کی علانیہ سزا پائی ہے۔ سزا دینے اور اسے بھگتنے والے زندہ باد، یہ مجرم ہیں سب کے محترم اور قوم کے مکرم جناب محمد علی نیکوکارہ جو کبھی اسلام آباد کے ایس ایس پی تھے ان کے زمانے میں اسلام آباد میں دو لیڈروں نے دھرنا بازی شروع کی جو بعد میں مہینوں تک جاری رہی اور قوم کے حافظے میں اب تک اس کے دلچسپ اور روح افزا بلکہ ولولہ خیز اور خوشنما منظر زندہ ہیں۔
اب تو معلوم ہو چکا ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف ایک سازش تھی لیکن اس وقت جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو لگتا تھا کچھ لوگ ملک کی سلامتی اور بقاء کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔ خوفزدہ حکمرانوں کے لیے یہ دھرنے جو جدید و قدیم دونوں طرز کے لیڈروں کی طرف سے دیے گئے کسی خطرے کی بہت بڑی اور بلند آہنگ گھنٹی تھی جس سے ان کے اقتدار پر کپکپی طاری ہو گئی تھی۔
ان سیاسی دھرنوں کا ان کے پاس کوئی سیاسی توڑ موجود نہیں تھا صرف ایک حکومتی قسم کا توڑ موجود تھا چنانچہ اسلام آباد کے ایس ایس پی کو حکم ملا کہ ان باغی اور گستاخ دھرنانچیوں پر چڑھ دوڑو ان پر گولی چلاؤ تا کہ یہ خوفزدہ ہو کر واپس چلے جائیں۔ ایس ایس پی، جو امن و امان کے میدان میں پولیس کا سب سے بڑا افسر تھا، معلوم ہوا کہ حکمرانوں کے برعکس تھوڑی سی عقل بھی رکھتا تھا چنانچہ اس نے مشورہ دیا کہ ان لاتعداد لوگوں پر اس طرح کی سختی ایک مصیبت بن جائے گی۔
اس کا نتیجہ بے حد خوفناک ہو گا اور میں نہیں سمجھتا کہ ایسی کوئی کارروائی کرنی چاہیے اس لیے میں اس سے باز رہنے کا مشورہ دوں گا لیکن حکمران ان بے پناہ قسم کے دھرنوں کے سامنے اپنے آپ کو سخت خطرے میں دیکھ رہے تھے سخت گھبرائے ہوئے تھے جب کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اور اب جب یہ دھرنے محض ایک سیاسی دلچسپ واقعہ بن چکے ہیں حکمرانوں کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہ کر سکے۔
ایک دھرنے والا مک مکا کر گیا یا تھک گیا دوسرا اب اس طویل دھرنے کی سیاسی برکات کو اپنی نئی نویلی جماعت اور وغیرہ پر نچھاور کر رہا ہے اس لیے آج ہمیں یقین ہو رہا ہے کہ اس وقت اگر کوئی صحیح الدماغ تھا اور جس کی سوچ درست تھی تو وہ نیکوکارہ ہی تھا۔ اگر وہ حکمرانوں کی خواہش یا خوف کو مان لیتا تو پھر میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ حکمران آج موجود نہ ہوتے اور ملک کو نہ جانے کیا صدمہ دے کر رخصت ہوتے۔
ایس ایس پی نیکوکارہ کی جب بات نہ مانی گئی تو اس نے کہا کہ میں محض زبانی کلامی کسی حکم پر اتنی بڑی کارروائی نہیں کر سکتا اگر آپ بضد ہیں تو پھر مجھے تحریری حکم دیں لیکن کسی نے تحریری حکم نہ دیا البتہ نیکوکارہ کو نوکری سے الگ کر دیا کہ اس نے حکم ماننے سے انکار کیا ہے جس کی سزا ملازمت سے برطرفی ہے۔
اب حکم تحریری صورت میں برطرفی کا حکم بن گیا ہے اور کمال ہے ان افسروں کی جرأت کا جنھوں نے ایک انتہائی فرض شناس اور نوکری تک کی قربانی پر آمادہ افسر کو پولیس سے باہر کر دیا ہے اور پولیس کو اس سے محروم کر دیا ہے۔ بدعنوانی اور نالائقی کی بنیاد پر پولیس میں برطرفیاں ہوتی رہتی ہیں۔
اتنے بڑے محکمے میں ایسے واقعات کوئی عجیب بات نہیں پھر وہ محکمہ جس کا دن رات واسطہ عوام سے پڑتا ہے اور جو بے پناہ اختیار بھی رکھتا ہے مثلاً کسی بھی شخص کو وہ آوارہ گرد قرار دے کر گرفتار کر سکتا ہے۔
یہ فیصلہ بعد میں ہو گا کہ وہ کون تھا آوارہ گرد یا امن پسند شہری لیکن اس گرفتاری میں اس مبینہ آوارہ گرد کی زندگی آوارہ ہو جاتی اور وہ اس زخم کو کبھی فراموش نہ کر سکتا چنانچہ ایسے بااختیار اور ہردم عوام سے متعلق سرکاری محکمے میں کسی کو سزا ملنی کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن ایک ایسا محکمہ جس میں نیکوکارہ خال خال ہی ہوا کرتے ہیں اسے اس نعمت سے محروم کر دینا کہاں کی پولیس پسندی اور خدمت ہے پھر ملک کو ایسے لوگوں سے محروم کر دینا کہاں کی حب الوطنی ہے۔
میں پولیس کے ان افسران بالا سے گہری ہمدردی رکھتا ہوں جو کسی نہ کسی وجہ سے خود نیکوکارہ نہ بن سکے اور جو کوئی ایسا موجود تھا اس کو بھی اپنی نظروں سے دور کر دیا۔ ایسے بااختیار افسران بالا پر خدا رحم کرے جن کی افسری کسی فرض شناس پاکستانی سے زیادہ قیمتی ہے۔ مجھے تو یہ افسران بالا کسی تھانے کے رشوت خور محرر دکھائی دے رہے ہیں۔
خبر ہے محمد علی نیکوکارہ اس حکم کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔ وہ ضرور اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن جہاں تک عوام کی عدالت کا تعلق ہے اس نے ازخود ہی اس مقدمے کی سماعت کر لی ہے اور بے انصافی کرنے والوں کو سخت سزا دے دی ہے کیونکہ نیکوکارہ افسران بالا کا نہیں عوام کے زیردست اور کمزور لوگوں کا افسر تھا اس نے دھرنے کے وقت جس بالغ نظری کا ثبوت دیا وہی اس کی صفائی ہے۔
اس نے حکمرانوں کو بھی بچا لیا تھا، نوکری رہے یا چلی جائے اس کا ضمیر کبھی بے روزگار نہیں ہو گا اور یہی سب سے بڑی نوکری ہے۔ کمزور لوگوں کو انصاف دینا اور زبردست لوگوں کے سامنے حق کی بات کرنا سب سے بڑی نیکی ہے جس کا اجر ضایع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چنانچہ میرے جیسے ایک گنہ گار پاکستانی کا یہی فیصلہ ہے کہ نیکوکارہ نے اپنے محکمے کا جو کفارہ ادا کیا ہے وہ قبول کر لیا گیا ہے۔ اللہ اس پر رحمت کرے اور اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اس خدمت کا اجر دے۔