تنخواہ میں اضافہ
میری تنخواہ کم ہے، اس میں کم از کم دگنا اضافہ تو فوری طور پر ہونا ہی چاہیے۔
میری تنخواہ کم ہے، اس میں کم از کم دگنا اضافہ تو فوری طور پر ہونا ہی چاہیے۔ میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محنت اور جانفشانی سے کام کرتا ہوں، مجھے اسی کے موافق معاوضہ بھی ملنا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ میں سوچنے لگتا ہوں کہ یہ نظام ٹھیک نہیں، میرا استحصال کیا جارہا ہے۔ مجھے سالانہ بونس کا تمام سال انتظار رہتا ہے۔
میں تنخواہ میں ہونے والے معمولی سے سالانہ اضافے کی امید میں جیتا رہتا ہوں۔ مجھے وہ تمام لیڈران پسند ہیں جو تنخواہوں میں اور مراعات میں اضافے کی بات کرتے ہیں۔ یونین اور ایسوسی ایشنز کے وہ تمام اہلکار جو ہمارے غم میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں، جنھوں نے ہمارے لیے مراعات یافتہ طبقے میں شمولیت تک گوارا کی، وہ سب، ان کی انقلابی تقاریر مجھے بہت پسند ہیں۔ میرے وہ تمام دفتری دوست جن کی تنخواہیں ''پروفیشنل کوالیفکیشن'' یا کسی اور ''کوالیفکیشن'' کے سبب مجھ سے زیادہ ہوگئی ہیں میں انھیں رشک بلکہ سچ کہوں تو حسد سے دیکھتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ میں ایسا کیوں ہوں؟
یوں تو میں بچپن ہی سے سحر خیز ہوں لیکن اب جب کے آثارِ کہن واضح ہو چلے ہیں، آج بہت سویرے اٹھ بیٹھا ہوں اور سوچتا ہوں یہ کیا زندگی ہے؟ بچپن سے جوانی تک ایک اچھی ملازمت کے حصول کے لیے مشقت بھری تعلیم، پھر باقی زندگی تنخواہ میں اضافے کے لیے مالکوں اور ملٹی نیشنلز کے منافعے میں اضافہ کیے جانا۔ ساری زندگی کا احاطہ حرص و حسد کے دو الفاظ میں کیا جاسکتا ہے۔ یہ کیا زندگی ہے؟
میں دیکھتا ہوں کہ جدید انسان جدید جمہوری ریاستوں میں ایک خاص طرز زندگی کا خوگر بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ ایک خاص عقلیت وفکر اختیار کرکے اپنے آپ کو فراموش کردیتا ہے۔ اپنے مقصد وجود کا اسے ادراک ہی نہیں رہتا۔ ہائیڈگر کے الفاظ میں جمہوریت کا پیغام ہی یہ ہے کہ خود کو بھول جاؤ، اپنے جوہر حیات، روح، وجود، حقیقت کو فراموش کردو، انسان کی نہ کوئی خصوصیات ہیں نہ کوئی کردار، ہم صرف سرمایے کے خادم ہیں۔ اسی لیے جمہوری معاشرے جذبات واحساسات سے عاری ہوتے ہیں، یہ صرف بیوروکریسی کے زیر اثر ہوتے ہیں، بیوروکریٹک اسٹرکچر کے تحت ان کے کام چلتے ہیں۔
نارمن آگسٹائن کہتا ہے ''ریاست ہائے متحدہ امریکا میں کئی بہت ہی کامیاب تجار ہیں۔ یہاں کئی کثیر المشاہرہ ''ایگزیکٹیوز'' بھی ہیں۔ پالیسی یہ ہے کہ ان دونوں کو آپس میں خلط ملط نہ کیا جائے۔'' دنیا کے دوسرے امیر ترین فرد اور بفیٹالوجی کے بانی ''وارن بفٹ'' کا کہنا ہے ''طبقاتی کشمکش موجود ہے، لیکن یہ میرا طبقہ ہے، امیروں کا طبقہ جس نے ایک جنگ بپا کر رکھی ہے، اور ہم یہ جنگ جیتے ہوئے ہیں''۔ یہ سچ ہے، وہ یہ جنگ جیتے ہوئے ہیں اور ہم یہ جنگ ہارے ہوئے ہیں۔ غربت میں خاتمے کے نام پر غریبوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔
اس کی تقدیر میں مزید غریب ہونے کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ وہ خوشحالی کی تمنا میں جیے جاتا ہے اور کولہو کا بیل بنا رہتا ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ تنخواہ دینے والوں اور تنخواہ لینے والوں کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ آئندہ برس کے اختتام تک ایک فیصد طبقے کے پاس دنیا کی باقی 99 آبادی سے زیادہ دولت ہوگی۔ یہ ہے جدید معیشت اور سرمایہ داریت۔ ''آکسفام'' ایک برطانوی ادارہ ہے، اس نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2009 میں ایک فیصد افراد کے قبضے میں دنیا کی 44 فیصد دولت تھی۔ 2014 میں یہ دولت 47 فیصد تک جا پہنچی تھی۔ اس متمول طبقے کے برعکس دنیا کی باقی 80 فیصد آبادی کے پاس صرف 5.5 دولت ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان غریبوں کی اس متاع قلیل میں بڑی تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے، یعنی غریب تیزی سے غریب تر ہوتا جارہا ہے۔
آکسفام کے مطابق 2016 یعنی آئندہ برس کے اختتام تک دنیا کی 50 فیصد سے زیادہ دولت صرف اور صرف ایک فیصد امیر و کبیر افراد کے ہاتھوں اور کھاتوں میں جاچکی ہوگی۔ یہ انسانی تاریخ کی انوکھی ترین رہزنی ہے جس میں لٹنے والے بھی خوش ہیں۔ انھیں نہ تو اپنی غلامانہ زندگی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی اس ظالمانہ اور استحصالی معاشیات پر سوال کرنے کی کوئی ہمت یا توفیق ارزاں ہوپاتی ہے۔
آکسفام نے گزشتہ برس بھی اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ گزشتہ برس کی رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ دنیا کے 185 امیر افراد دنیا کی نصف غریب آبادی (ساڑھے تین ارب) کے برابر دولت رکھتے ہیں۔ ادارے کے مطابق اس برس یہ خلیج مزید بڑھ گئی ہے۔ اب دنیا کے 180 امیر ترین افراد کے پاس دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ دولت ہے۔ ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ اب سے کچھ ہی برس قبل یعنی 2010 میں یہ خلیج کم تھی، یعنی دنیا کی نصف آبادی کے بقدر دولت 388 افراد کے پاس تھی۔
یہاں برطانیہ میں معاشی ناہمواری کے خاتمے کے لیے کام کرنیوالے ادارے ''ایکوالٹی ٹرسٹ'' کی ایک تحقیق کا ذکر بے محل نہ ہوگا جس میں بتایا گیا ہے کہ 2008 میں برطانیہ کے 100 امیر ترین خاندانوں کی مجموعی دولت میں کم ازکم 15 ارب پونڈ کا اضافہ ہوا تھا، جب کہ اس عرصے کے دوران ایک عام برطانوی خاندان کی آمدنی میں ہونے والااوسط اضافہ صرف 1200 پونڈ کے لگ بھگ تھا۔
آکسفام کی حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے 80 امیر ترین افراد کے اثاثوں کی مالیت میں 2009 سے 2014 کے دوران دگنا اضافہ ہوا ہے۔یہ ہے ہماری جدید دنیا اور جدید معاشیات کا اصل اور بھیانک رخ۔ یہ دکھاوے کی تمام تر نام نہاد ترقی صرف اور صرف اس لیے ہے کہ ساری دنیا کے انسانوں کو غلام اور کولہو کا بیل بنایا جاسکے۔ کہیں اور نہیں خود امریکا میں ابھی کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ جب کسی سے پوچھا جاتا کہ وہ کس کے لیے کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنی بے عزتی سمجھتا تھا۔
دراصل اس کا مطلب تھا کہ وہ اپنا ذاتی کام کرنے کا اہل نہیں۔ آج جدید تعلیم نے ہماری یہ حالت بنادی ہے کہ ہم معمولی معمولی اجرت پر کام کرنے کو مقصد حیات بنائے ہوئے ہیں۔ آج آزادی کے نام پر غلام بنائے جارہے ہیں۔ آج ایک عام فرد کا دارومدار اداروں پر رہ گیا ہے۔ کیا یہ آزادی ہے یا آزادی کے نام پر دوسروں کی غلامی۔ ہم زندگی بھر دوسروں کے لیے کماتے رہتے ہیں۔ امیروں کو امیر تر کرتے رہتے ہیں۔
بدلے میں تنخواہ کے نام پر ہمیں جو کچھ ملتا ہے وہ کہاں خرچ کرنا ہے، اشتہارات کے ذریعے وہ بھی ہمیں ''وہی'' بتاتے ہیں۔ امریکا میں 37 بینکوں کے انضمام کے بعد صرف چار بڑے بینک بچے ہیں۔ جے پی مارگنز، بینک آف امریکا، ویلز فار گو اور سٹی گروپ۔ اس سب کو دولت کا چند ہاتھوں میں سمٹنا نہیں کہا جائے گا تو کیا کہا جائے گا؟ یہ ہمارے سمجھنے کا مقام ہے کہ یہ نظام اسی مقصد کے تحت بنا ہے نہ کہ غربت کے خاتمے یا دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے۔
یہ سب باتیں اور فلسفے درست ہوں گے لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری تنخواہ کم ہے اور اب پٹرول کے نرخ کم ہونے کی بِنا پر میری تنخواہ اور بھی کم ہوگئی ہے۔ جب کہ میرے ایک ساتھی کی تنخواہ میں چند مراعات مل جانے کی وجہ سے اضافہ ہورہا ہے۔ مجھے یہ ہی فکر تنگ کرتی رہتی ہے۔ میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محنت اور جانفشانی سے کام کرتا ہوں، مجھے ... میں سوچنے لگتا ہوں کہ یہ نظام ٹھیک نہیں... میرا استحصال کیا جارہا ہے۔