قابل ستائش فیصلے کی ضرورت
جنگ میں ہماری شمولیت ہمارے ملک میں فرقہ واریت کو اور زیادہ ہوا دے گی۔
ISLAMABAD:
کہتے ہیں حالات کسی وقت بھی پلٹا کھا سکتے ہیں۔ حالات نے یمن میں اچانک پلٹا کھایا اور بین الاقوامی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اُن ملکوں کو ضرورت پڑگئی جو اسے امداد دیتے جا رہے ہیں۔
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ جب کسی چھوٹے آدمی کو بڑے آدمی کی طرح عزت دی جانے لگے تو فوری طور پر ایسے آدمی کا ردعمل حیرت انگیز ہوتا ہے۔ہمارے کرتا دھرتا بھی اس بات پر اترانے لگ گئے ہیں ۔ہم بھی اپنی اِس عزت افزائی کے باعث حیران کن حرکتیں کر رہے ہیں اور ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ حرمین شریفین کے لیے ہماری جانیں حاضر ہیں ، کوئی کہہ رہا ہے کہ ہمارا پرائی جنگ میں کودنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔کوئی کہہ رہا ہے کہ جنگ میں ہماری شمولیت ہمارے ملک میں فرقہ واریت کو اور زیادہ ہوا دے گی۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ امریکا کی لگائی ہوئی آگ ہے جس کا مقصد مسلم اُمّہ کو منتشر اور پارہ پارہ کرنا ہے تاکہ یہودیت اور اسرائیل مستحکم ہوسکے۔ مسلمان ممالک اور زیادہ کمزور پڑ جائیں اور ان کی متحدہ قوت پاش پاش ہوجائے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔ چونکہ اچانک ملنے والی عزت ہضم نہیں ہورہی اس لیے ہر قابل ذکر سیاسی و مذہبی ہستی اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے خود کو کوئی بڑی شے ثابت کر رہی ہے۔
منتخب اراکین حضرات کورس میں یا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مشورہ دے رہے ہیں اور اپوزیشن کے ایک اجلاس میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی تجویز بھی دی گئی ہے تاکہ مل جل کر باہمی مشاورت اور بقائم ہوش وحواس فیصلہ کیا جاس کے کہ امداد پر چلنے والے اس عزت افزائی کا جواب کس طرح اور کس انداز میں دیں۔ غریب آدمی کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کو مشکل میں دیکھ کر اپنی مشکلات بھول جاتا ہے اور دوسرے کی مشکل دُور کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردیتا ہے یہی خلوص اس کا مضحکہ خیز عمل بن جاتاہے کیونکہ مشکل میں گرفتار اس کا امیر دوست یا بھائی اُس کے خلوص کو اس کا فرض سمجھتا ہے جسے اس غریب نے اپنے امیر بھائی کے احسانوں کا بدلہ چکانے کے لیے نبھانا ہوتاہے۔
فرض نبھانے کا یہ بوجھ غریب آدمی کی باقی تمام فکرات اور ترجیحات پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ ان تمام گھمبیر اور تباہ کن مسائل اور مشکلات سے جن میں وہ گھرا ہوتا ہے لاتعلق ہوجاتا ہے۔ پوری یکسوئی کے ساتھ کوشش کرتاہے کہ ان تمام احسانات اور کرم فرمائیوں کا بدلہ چکا دے چاہے اس کے نتیجے میں بالکل ہی نیست ونابود ہو جائے۔ غریب آدمی کے اندر ایسے موقعوں پر جن چیزوں کی کمی رہ جاتی ہے وہ ہوش وحواس قائم رکھنا اور اعتماد کا فقدان ہوتا ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ غربت دو قسم کی ہوتی ہے ایک معاشی غربت اور دوسری ذہنی غربت۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان دونوں قسم کی غربت کا شکارہے۔ فرمایا گیا کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔ اپنے ملک کی مفلسی کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اپنے بھی اس کے دوست نہیں ہیں۔
ذرا اندازہ لگائیں ہماری بے بسی اور غربت کا کہ پوری دنیا جس ملک کے ایٹمی پروگرام سے خوف زدہ ہے، جس نے اسرائیل کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں وہ ملک جو باقاعدہ طور پر ایک جوہری قوت بن چکا ہے اُسے اتنی اہمیت بھی نہ دی جائے جتنی اہمیت ایک خوش قسمت کامیاب وکامران چھوٹا بھائی اپنے مفلس بڑے بھا ئی کو محض عمر کا خیال کرتے ہوئے اہمیت دیتاہے۔کیا یمن پر بمباری کرنے سے پہلے کسی امیر چھوٹے بھائی نے مفلس بڑے بھائی سے پوچھا کہ بھائی میںیہ حملہ کرنے لگا ہوں تم کیا کہتے ہو۔ یمنمیں ہونے والی لڑائی اس کی اندرونی شورش ہے جو اپنے ملک کی حدود کے اندر ہے۔
ایران اورعراق کی جنگ کے دوران پڑوسی ہونے کے باوجود اور اس بات کے باوجود کہ عراق اُس جنگ کا جارح تھا پاکستان نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا کیونکہ یہ دو برادر اسلامی ملکوں کے درمیان جنگ تھی ۔پاکستان کی فوج پاکستان کے اندر دہشت گرودں کے خلاف انتہائی کامیابی اور عوام کی بھر پور حمایت کے ساتھ برسرپیکار ہے، پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر اُسے اپنی ازلی اور مکار دشمن کا مقابلہ ہے جس کا عزم وہمت سے سامنا کیا جارہا ہے پاکستان اس وقت غریب ہونے کے علاوہ یتیم بھی ہے کیونکہ اُسے کوئی لیڈر میسر نہیں جو قوم اور ملک کا باپ ہوتاہے پاکستان کے مائی باپ اس وقت اللے تللوں میں مصروف ہیں اور انتہائی گھمبیر سنجیدہ اور فیصلہ کن حالات کے بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں ۔
لوگ اس وقت حکمرانوں کی طرف دیکھنے کی بجائے اس فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں جو ا نگنت چیلنجوں میں گھری ہوئی ہے کیونکہ انھیں اس فوج پر اعتماد ہے اس کی صلاحتیوں پر اعتماد ہے اور اس کی قیادت کے خلوص اور پاکستان کے مفادات کے ساتھ وابستگی پر اعتماد ہے۔ پورے اعتماد اور وثوق کے ساتھ امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اس خلیجی تنازعے میں پاکستان اور عالم اسلام کے بہترین مفاد میں قابل ستائش اور اطمینان بخش فیصلے کریگی ۔ اپنی بساط اور کارکردگی پر اعتماد کے ساتھ فیصلہ کرے گی ۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین
کہتے ہیں حالات کسی وقت بھی پلٹا کھا سکتے ہیں۔ حالات نے یمن میں اچانک پلٹا کھایا اور بین الاقوامی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اُن ملکوں کو ضرورت پڑگئی جو اسے امداد دیتے جا رہے ہیں۔
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ جب کسی چھوٹے آدمی کو بڑے آدمی کی طرح عزت دی جانے لگے تو فوری طور پر ایسے آدمی کا ردعمل حیرت انگیز ہوتا ہے۔ہمارے کرتا دھرتا بھی اس بات پر اترانے لگ گئے ہیں ۔ہم بھی اپنی اِس عزت افزائی کے باعث حیران کن حرکتیں کر رہے ہیں اور ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ حرمین شریفین کے لیے ہماری جانیں حاضر ہیں ، کوئی کہہ رہا ہے کہ ہمارا پرائی جنگ میں کودنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔کوئی کہہ رہا ہے کہ جنگ میں ہماری شمولیت ہمارے ملک میں فرقہ واریت کو اور زیادہ ہوا دے گی۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ امریکا کی لگائی ہوئی آگ ہے جس کا مقصد مسلم اُمّہ کو منتشر اور پارہ پارہ کرنا ہے تاکہ یہودیت اور اسرائیل مستحکم ہوسکے۔ مسلمان ممالک اور زیادہ کمزور پڑ جائیں اور ان کی متحدہ قوت پاش پاش ہوجائے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔ چونکہ اچانک ملنے والی عزت ہضم نہیں ہورہی اس لیے ہر قابل ذکر سیاسی و مذہبی ہستی اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے خود کو کوئی بڑی شے ثابت کر رہی ہے۔
منتخب اراکین حضرات کورس میں یا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مشورہ دے رہے ہیں اور اپوزیشن کے ایک اجلاس میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی تجویز بھی دی گئی ہے تاکہ مل جل کر باہمی مشاورت اور بقائم ہوش وحواس فیصلہ کیا جاس کے کہ امداد پر چلنے والے اس عزت افزائی کا جواب کس طرح اور کس انداز میں دیں۔ غریب آدمی کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کو مشکل میں دیکھ کر اپنی مشکلات بھول جاتا ہے اور دوسرے کی مشکل دُور کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردیتا ہے یہی خلوص اس کا مضحکہ خیز عمل بن جاتاہے کیونکہ مشکل میں گرفتار اس کا امیر دوست یا بھائی اُس کے خلوص کو اس کا فرض سمجھتا ہے جسے اس غریب نے اپنے امیر بھائی کے احسانوں کا بدلہ چکانے کے لیے نبھانا ہوتاہے۔
فرض نبھانے کا یہ بوجھ غریب آدمی کی باقی تمام فکرات اور ترجیحات پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ ان تمام گھمبیر اور تباہ کن مسائل اور مشکلات سے جن میں وہ گھرا ہوتا ہے لاتعلق ہوجاتا ہے۔ پوری یکسوئی کے ساتھ کوشش کرتاہے کہ ان تمام احسانات اور کرم فرمائیوں کا بدلہ چکا دے چاہے اس کے نتیجے میں بالکل ہی نیست ونابود ہو جائے۔ غریب آدمی کے اندر ایسے موقعوں پر جن چیزوں کی کمی رہ جاتی ہے وہ ہوش وحواس قائم رکھنا اور اعتماد کا فقدان ہوتا ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ غربت دو قسم کی ہوتی ہے ایک معاشی غربت اور دوسری ذہنی غربت۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان دونوں قسم کی غربت کا شکارہے۔ فرمایا گیا کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔ اپنے ملک کی مفلسی کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اپنے بھی اس کے دوست نہیں ہیں۔
ذرا اندازہ لگائیں ہماری بے بسی اور غربت کا کہ پوری دنیا جس ملک کے ایٹمی پروگرام سے خوف زدہ ہے، جس نے اسرائیل کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں وہ ملک جو باقاعدہ طور پر ایک جوہری قوت بن چکا ہے اُسے اتنی اہمیت بھی نہ دی جائے جتنی اہمیت ایک خوش قسمت کامیاب وکامران چھوٹا بھائی اپنے مفلس بڑے بھا ئی کو محض عمر کا خیال کرتے ہوئے اہمیت دیتاہے۔کیا یمن پر بمباری کرنے سے پہلے کسی امیر چھوٹے بھائی نے مفلس بڑے بھائی سے پوچھا کہ بھائی میںیہ حملہ کرنے لگا ہوں تم کیا کہتے ہو۔ یمنمیں ہونے والی لڑائی اس کی اندرونی شورش ہے جو اپنے ملک کی حدود کے اندر ہے۔
ایران اورعراق کی جنگ کے دوران پڑوسی ہونے کے باوجود اور اس بات کے باوجود کہ عراق اُس جنگ کا جارح تھا پاکستان نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا کیونکہ یہ دو برادر اسلامی ملکوں کے درمیان جنگ تھی ۔پاکستان کی فوج پاکستان کے اندر دہشت گرودں کے خلاف انتہائی کامیابی اور عوام کی بھر پور حمایت کے ساتھ برسرپیکار ہے، پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر اُسے اپنی ازلی اور مکار دشمن کا مقابلہ ہے جس کا عزم وہمت سے سامنا کیا جارہا ہے پاکستان اس وقت غریب ہونے کے علاوہ یتیم بھی ہے کیونکہ اُسے کوئی لیڈر میسر نہیں جو قوم اور ملک کا باپ ہوتاہے پاکستان کے مائی باپ اس وقت اللے تللوں میں مصروف ہیں اور انتہائی گھمبیر سنجیدہ اور فیصلہ کن حالات کے بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں ۔
لوگ اس وقت حکمرانوں کی طرف دیکھنے کی بجائے اس فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں جو ا نگنت چیلنجوں میں گھری ہوئی ہے کیونکہ انھیں اس فوج پر اعتماد ہے اس کی صلاحتیوں پر اعتماد ہے اور اس کی قیادت کے خلوص اور پاکستان کے مفادات کے ساتھ وابستگی پر اعتماد ہے۔ پورے اعتماد اور وثوق کے ساتھ امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اس خلیجی تنازعے میں پاکستان اور عالم اسلام کے بہترین مفاد میں قابل ستائش اور اطمینان بخش فیصلے کریگی ۔ اپنی بساط اور کارکردگی پر اعتماد کے ساتھ فیصلہ کرے گی ۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین