ایک لیڈر کے عوامی خواب

پیپلز پارٹی ہر وہ کام کر گزرنا چاہتی ہے جس سے عوام میں اس کے خلاف نفرت اور اشتعال بڑھتا جائے،

''میں لیاری کو یورپی ممالک کی صف میں لا کھڑا کروں گا''۔ آج جب لیاری آگ وخون کی لپیٹ میں ہے، دہشت گردی و لاقانونیت کی بدترین مثال نظر آتا ہے، تو عوامی لیڈر کا یہ جملہ کانوں میں گونجتا ہے۔ انھوں نے بڑے یقین سے لیاری کے عوام کو خواب دکھائے تھے اور اسی دکھائے گئے خوبصورت خواب کی قیمت کا خراج لیاری کے عوام ادا کررہے ہیں۔

اس لیے کہ انھیں اپنے عوامی لیڈر پر مکمل بھروسہ تھا، اعتماد تھا، انھیں اپنے لیڈر کے جملوں میں سچائی کی بو آتی تھی کہ ان کا لیڈر مر تو سکتا ہے مگر اپنے عوام سے غداری نہیں کرسکتا اور کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ سچ اور سولی کے درمیاں گہرا رشتہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔

اس کے اجزائے ترکیبی میں زہر کا پیالہ، لکڑی کی صلیب اور پھانسی گھاٹ وہ حقیقتیں ہیں جو تاریخ کے ہر دور میں ان لوگوں کا مقدر بنتی ہیں جنھوں نے حق کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا، بنا کسی لالچ و خودغرضی اور ذاتی مفاد کے دنیا کو خوبصورت اور امن کا گہوارہ بنانے کے خواب دیکھے، تو ایسے لوگوں کو غدار، جنونی اور پاگل قرار دیا گیا۔

ان کا قصور تھا کہ انھوں نے حق کا دامن نہ چھوڑا، پاکستان کی 67 سالہ سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو واحد سیاسی لیڈر ہیں جنھوں نے حق بات کی خاطر سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پینا پسند کیا اور عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں انھوں نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں غربت و آلام کا پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا، دولت کی ریل پیل، اعلیٰ تعلیم و تربیت اور بہترین معیار زندگی و روشن مستقبل کے ساتھ زندگی بسر کرتے تو ایک لمبی عمر پاتے، لیکن انھوں نے اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اپنے آس پاس پھیلی غربت، ناانصا فی، جہالت، دکھ اور بیماری کی دیواریں دیکھیں تو وہ ان دو انتہاؤں کے فرق کو برداشت نہ کرپائے۔

انھوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سیاست کے خار زار میں قدم رکھا۔ پاکستان کی تاریخ میں جس جمہوری سیاسی لیڈر کو سب سے زیادہ شہرت، عزت اور پذیرائی حاصل ہوئی وہ بلاشبہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے، ان کی تقریروں میں عوام کو سنہرے مستقبل کی نوید سنائی دیتی تھی۔

وہ پاکستان کے کونے کونے تک سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے دور افتادہ علاقوں تک گئے، جہاں کوئی سیاست داں آج بھی نہ پہنچ سکا ہے۔ عوام کی وارفتگی اور ان کی محبوبیت نے ذوالفقار علی بھٹو کو خواص کے دل فریب حصار کے بجائے عوام کی محبتوں کے حصار میں محفوظ کردیا، انھوں نے غریب عوام کو خواب دکھایا کہ ان کے بچے بھی اسکو لوں اور یورنیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، ان کا بھی حق ہے کہ علاج کے لیے بہتر سہولتیں انھیں دستیاب ہوں۔


ان کے تن پر اچھے کپڑے ہوں، ان کے اردگرد پھیلی بے بسی خوشحالی بن کر ابھرے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مشہور زمانہ نعرہ 'روٹی، کپڑا اور مکان' نے انھیں اقتدار کی مسند پر بٹھایا، پاکستان کے غریب عوام نے انھیں اپنا نجات دہندہ جانا۔مگر بدقسمتی سے بھٹو اقتدار میں زیادہ عرصہ نہ رہ پائے اور 5 جولائی 1977 کو ایک آمر جنرل ضیاء الحق نے عوام کی حکومت پر شب خون مارا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پابند سلاسل کردیا، ڈکٹیٹر کو زندہ بھٹو ان کی آمرانہ خواہش کے آگے دیوار محسوس ہوا اور اس نے یہ دیوار گرانے کا فیصلہ کرلیا، ان پر جھوٹا مقدمہ چلایا گیا اور عدالت نے حکومتی خواہشات کے عین مطابق فیصلہ دے دیا۔

پنجاب کے راولپنڈی جیل میں 4 اپریل 1979 کی درمیانی شب جس کی نحوست سے پاکستانی سیاست آج تک نہیں نکل پائی جب نمود سحر سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی جب ان کی عمر محض 51 برس تھی۔ راویان بتاتے ہیں کہ بھٹو نے اپنی کال کوٹھری سے پھانسی گھاٹ تک کا سفر انتہائی سکون اور برداشت سے طے کیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ مضروب تھے۔

انھیں ضربات اور جسمانی اذیتیں دی گئی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پس زنداں میں لکھا تھا کہ ''مفاد پرستوں کا ٹولہ مجھے اس لیے ناپسند کرتا ہے کہ میں پہلا اور واحد رہنما ہوں جس نے ان کی اجارہ داری کا آہنی حصار توڑا ہے اور میرا عوام سے براہ راست رابطہ ہے ، وہ چاہتے تھے کہ میں ان کی تقلید کروں، میں نے انکار کردیا''۔

ذوالفقار علی بھٹو اس دور حکو مت میں ہم سب کو اس لیے بھی زیادہ یاد آتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں جس پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی وہ آج سندھ میں برسر اقتدار ہے ، بھٹو سے زندگی نے وفا نہ کی مگر ان کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کرنے والی موجودہ حکومت نے ان کے نعرے 'روٹی، کپڑا اور مکان' کو الیکشن میں خوب استعمال کیا، اقتدار کے بعد نعرہ ہی رہا، غریب عوام، غریب ہی رہے، جو کھلے آسمان تلے رہتا تھا، اس کا سر اسی طرح بے سایہ ہی رہا، جس کو تن پر کپڑا میسر نہ تھا، وہ بدستور ننگا ہی رہا، جو بھوکے پیٹ سونے پر مجبور تھا، وہ اسی طرح سونے پر مجبور رہا۔

ہاں! البتہ بھٹو کے جانے کے بعد ان کے نعرے نے ان کی پارٹی کے سیاست دانوں پر کامیابی کے دروازے کھول دیے، انھیں عوام کی دکھتی رگ پر ہا تھ رکھنے کا فن آگیا۔ سو بھٹو کے بعد جو بھی سیاست داں آیا، اس نے عوام کو 'ووٹ دو خواب لو' کے مصداق خوب استعمال کیا، مگر روٹی، کپڑا اور مکان ہر دور کی طرح آج بھی عوام کی پہنچ سے دور ہے۔آج بھی عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، پیپلز پارٹی نے الیکٹ ہونے کے بعد حسب دستور کرپشن لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری اور بے قاعدگی کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ عقل دنگ ہے۔

پیپلز پارٹی ہر وہ کام کر گزرنا چاہتی ہے جس سے عوام میں اس کے خلاف نفرت اور اشتعال بڑھتا جائے، اس کی درجنوں مثالیں اس کے دور حکومت میں منظر عام پر آتی رہی ہیں، پیپلزپارٹی کی حکومت برسر اقتدار آنے سے ہمیں کوئی آئیڈل حکومت کی توقع نہ تھی لیکن اتنی امید ضرور تھی کہ ایک جمہوری پارٹی ہونے کے ناتے اسے عوام کے دکھ درد کا کچھ تو اندازہ ہوگا اور وہ جو کہا جاتا ہے کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت اچھی ہے، مگر آج مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، عوامی مسائل میں ناقابل حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔

اس وقت تمام پاکستانی قوم کے دل میں ایک ہی سوال ہے کہ کوئی ہے جو حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے پوچھ سکے، اس اضافے سے کتنا کمارہی ہے، ان سب کے مفادات کبھی ختم بھی ہوں گے؟ کیا کبھی ان کا پیٹ اور نیت سیر بھی ہوگی یا یوں ہی عوام کی کھال کھینچتے رہیں گے ؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اگر یہی کرتوت جاری رہے تو وہ دن دور نہیں جب غاصب آمر لوگوں کے ہیرو کہلائیں گے اور بھٹو صاحب نے وہ خواب جو روٹی، کپڑا اور مکان کی صورت عوام کو دکھایا تھا اب صرف خواب بن کر رہ جائے گا۔
Load Next Story