ادبی مجلہ جس نے لمبی عمر پائی

مگر یہ بھی تو دیکھو کو اس ادبی مجلہ نے کس زمانے میں ظہور کیا تھا۔ تب سے اب تک کتنے زمانے آئے اور گزر گئے۔

rmvsyndlcate@gmail.com

ISLAMABAD:
ابھی دو ڈھائی مہینے پہلے ''سویرا'' کا نیا شمارہ نمودار ہوا تھا جسے ہم نے بڑے ذوق و شوق سے پڑھا اور اس میں چھپنے والی مختلف تحریروں پر داد دی۔ اے لو، یہ تو پھر اس کا نیا شمارہ نمودار ہو گیا۔ سویرا کتنے زمانے سے اپنی بے قاعدگی کی روایت کو نباہتا چلا آ رہا تھا۔ یہ کیا ہوا کہ اپنی دیرینہ بے قاعدگی چھوڑ کر وہ اب باقاعدگی سے شایع ہونے لگا ہے۔

مگر یہ بھی تو دیکھو کو اس ادبی مجلہ نے کس زمانے میں ظہور کیا تھا۔ تب سے اب تک کتنے زمانے آئے اور گزر گئے۔ کتنے ادبی رسالے جاری ہوئے اور بند ہو گئے مگر سویرا وقتاً فوقتاً بند ہونے کا تاثر دیتا رہا ہے۔ بند کبھی نہیں ہوا۔ ہاں زمانے کے ساتھ اس کا رنگ بدلتا رہا ہے۔ تقسیم سے ذرا تھوڑا پہلے وہ بڑی شان سے نمودار ہوا تھا۔ ایک تو شکل و صورت کے اعتبار سے وہ بہت خوبصورت مجلہ نظر آ رہا تھا۔ پھر ترقی پسند تحریک کے گلیمر نے بھی اسے چار چاند لگا دیے تھے۔ وہ اس تحریک کے عروج کا زمانہ تھا اور سویرا ترقی پسند ادب کے ترجمان کے طور پر نمودار ہوا تھا۔

اس کے بعد اس کا دوسرا شاندار دور وہ ہے جب حنیف رامے نے اس کی ادارت سنبھالی تھی۔ حنیف رامے خود بھی تو نئے نئے نمودار ہوئے تھے۔ ایک نئے مصور کے طور پر یعنی تجریدی مصوری جو پاکستان میں نئی نئی نمودار ہوئی تھی اس کے جلو میں حنیف رامے بھی نمودار ہوئے۔ اور جب سویرا ان کی ادارت میں نمودار ہوا تو وہ بھی اب نئے ادب کے ساتھ نئی مصوری کا بھی ترجمان بنا نظر آ رہا تھا۔ رامے کی رخصتی کے بعد اس کی ادارت کا قرعہ محمد سلیم الرحمن کے نام کا نکلا۔ خیر وہ تو اب تک اس کے مدیر چلے آتے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ پہلے نیا ادارہ اور اس رسالے کے مالک و مہتمم نذیر چوہدری کے ساتھ ان کی سنگت تھی۔ اب ان کی آنکھ بند ہونے کے بعد ان کے صاحبزادے ریاض احمد کے ساتھ ان کی سنگت ہے۔

ویسے تو 'ادب لطیف' بھی پرانا پرچہ ہے بلکہ اس کی عمر 'سویرا' سے زیادہ ہے مگر تب سے اب تک اس کی ادارت ادلتی بدلتی رہی۔ رنگ رنگ کے ایڈیٹر آتے رہے جاتے رہے۔ سو اس چکر میں وہ اپنا معیار برقرار نہ رکھ سکا۔ 'سویرا' کا معیار اگر گرا نہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی ادارت میں نشیب و فراز بہت کم آئے۔ اس وقت پچھلا پرچہ اور حالیہ شمارہ دونوں ہمارے سامنے ہیں اور دونوں میں ایسے مندرجات ہیں بالخصوص مضامین کے شعبہ میں جو داد کے مستحق ہیں۔ او تو اس پرچے کو ایک معتبر و مستند محقق کا مستقل تعاون حاصل ہے یعنی ڈاکٹر خورشید رضوی جو عربی ادب کی تاریخ مرتب کر رہے ہیں۔ ان کے مضامین جو زیر ترتیب تاریخ کی کڑیاں ہیں تسلسل کے ساتھ اس میں شایع ہو رہے ہیں۔ اس مرتبہ بھی اس بیان کی نئی قسط اس میں شامل ہے۔

دوسرا مضمون آصف فرخی کا ہے۔ انھوں نے پریم چند کے افسانے 'شطرنج کے کھلاڑی' کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اس جائزے میں آصف فرخی نے اس افسانے کے بیان کے بارے میں دو سوال اٹھائے ہیں۔ ایک تو یہ کہ افسانہ نگار بیچ بیچ میں خود بہت بولتا نظر آتا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ پریم چند نے لکھنؤ کے اس بیان پر اعتبار کیا ہے جو انگریزوں نے اپنے سامراجی مقاصد کے تحت پیش کیا تھا۔

یہ دوسرا اعتراض پہلے اعتراض سے بڑھ کر قابل توجہ ہے۔ اس کے بارے میں چند باتیں ہم بھی کہنے کی جرأت کریں گے۔ اول تو اس بیان میں ایک تاریخی غلطی ہے۔ افسانے میں دکھایا گیا ہے کہ 1557ء کے ہنگامے کے دوران انگریزوں نے جب لکھنؤ پر چڑھائی کی تو واجد علی شاہ کو گرفتار کیا۔ غلط۔ واجد علی شاہ کو ایک سال پہلے انھوں نے معزول کیا اور گرفتار کر کے کلکتہ روانہ کر دیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ کہاں کی شطرنج؟ کہاں کی مرغ بازی۔ اس وقت تو پورا شہر بغاوت کی آگ میں جل رہا تھا۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ دلی سے بڑھ کر جس محاذ پر انگریزوں کے خلاف معرکہ آرائی ہوئی ہے وہ لکھنؤ کا محاذ ہے۔ تعجب ہے کہ اس ہنگام میں پریم چند کو شطرنج کے کھلاڑی تو نظر آ گئے نواب حضرت محل نظر نہیں آئی۔ ستاون کے معرکے میں سب سے بڑھ کر دو عورتوں نے مزاحمت کا حق ادا کیا تھا۔

رانی جھانسی نے اور حضرت محل نے۔ جب لکھنؤ کے محاذ پر شکست کے آثار نمودار ہوئے تو دلی کے محاذ کے برخلاف حضرت محل نے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ اپنے لشکر کے ساتھ لڑتی ہوئی لکھنؤ سے نکل گئیں۔ بلکہ یہاں تک ہوا کہ جب ملکہ وکٹوریہ نے عام معافی کا اعلان کیا تو حضرت محل نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا اور ملکہ کے بیان کے جواب میں اپنا بیان جاری کیا۔ لڑائی میں جب پیچھے ہٹنا پڑا تو یہ خاتون اپنے بچے کھچے ساتھیوں کے ہمراہ ترائی کے جنگلوں میں نکل گئی۔ وہاں سے نیپال کی راہ لی۔ آخری ایام کٹھمنڈو میں گزارے۔ وہیں اس کا انتقال ہوا۔ کٹھمنڈو میں اس کا مزار خستہ حالت میں ابھی موجود ہے۔

یہاں تیسرا مضمون ناصر عباس نیئر کا ہے جو ہمارے نئے نقادوں میں سب سے بڑھ کر ہیں۔


تنقیدی مضامین سے ہٹ کر جو مضامین ہیں ان میں ایک مضمون بلکہ اسے خاکہ کہئے عرفان جاوید کا ہے 'بارش، خوشبو اور سماوار'۔ یہ اس رومانی روح کا تذکرہ ہے جس کا نام اے حمید تھا۔ اور خوب تذکرہ ہے۔ اے حمید اپنے سارے رومانی مزاج کے ساتھ یہاں چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔

افسانوں میں ایک افسانے نے ہمیں خاص طور پر متوجہ کیا۔ خاص طور پر اس واسطے سے کہ یہاں ایک لوک کہانی کا بہت سلیقہ سے استعمال کیا گیا ہے۔ ''ماسی ستو چارخانہ کھیس میں لپٹی ٹھنڈے فرش پر اکڑوں بیٹھی کہانی کہہ رہی تھی... ناگ شہزادے کی کہانی... سنہرے سانپ نے اپنی ناگن سے کہا کہ اگر تم اجازت دو تو میں شہزادے کا روپ دھار کر ڈولی میں بیٹھ جاؤں۔'' ایسی ان گنت کہانیاں اس برصغیر کی فضا میں صدیوں سے منڈلا رہی تھیں۔ گھروں میں کوئی نانی، کوئی دادی، کوئی ماسی جاڑوں کی لمبی راتوں میں گرم دہکتی انگیٹھی کے گرد جمع بچوں کے بیچ بیٹھ کر کوئی ایسی ہی کہانی شروع کرتی کہانیوں کی یہ روایت نانیوں دادیوں اور ماسیوں کے واسطے سے خاص طور پر رات کے اوقات میں اپنا جادو جگاتی تھی۔ یہاں نئی افسانہ نگار نے اس قدیم روایت سے استفادہ کر کے اپنی نئی کہانی لکھی ہے۔

شاعری کے ذیل میں پہلے تو ایک نئی غزل گو کے یہ شعر سنئے۔ نیا رنگ، نیا لہجہ:

امن لکھنا نہیں سیکھے جنھیں پڑھ کر بچے
ان کتابوں پہ کسی کی بھی سند ہو، رد ہے

اپنی سرحد کی حفاظت پہ ہے ایمان مگر
زندگی اور محبت پہ جو حد ہے، رد ہے
.........
میرے پنجرے میں آؤ تو میں تم کو سنواؤں
ایک پرندہ، ایک ہی نغمہ، ساتوں سر میں گائے

سب کے اپنے اپنے کانٹے، اپنی اپنی ٹھوکر
میں نے اپنے سارے حصے تیرے ہاتھوں پائے
Load Next Story