ایم کیو ایم کے آٹھ نئے مسائل
الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کو پچھلے کئی ماہ سے نت نئے مسائل سے سابقہ پیش آرہا ہے۔
الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کو پچھلے کئی ماہ سے نت نئے مسائل سے سابقہ پیش آرہا ہے۔ ایک دریا عبور کرتے ہیں تو دوسرا دریا بپھری موجود کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔ ایک کے بعد ایک نئی مشکل نے متحدہ کو مسلسل میڈیا کے رو برو رکھا ہوا ہے۔ منظم پارٹی اور ذہین لوگ ہونے کے باوجود پے در پے مشکلات نے قیادت کو جھنجھوڑ سا دیا ہے۔ ایسے انوکھے معاملات جو تیس برسوں میں کبھی پیش نہیں آئے تھے۔
پہلا مسئلہ الیکشن 2013 میں پیش آیا۔ کئی انتخابات میں کامیابی کے باوجود متحدہ کو ایسی مشکل کبھی پیش نہ آئی تھی۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے ایم کیو ایم کے بغیر وفاق اور صوبے میں حکومتیں بنالیں، پچھلے پچیس برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ پیپلزپارٹی کو وفاق میں کم سیٹیں ہونے کے سبب نائن زیرو آنا پڑتا ۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اسلام آباد میں مسلم لیگ ن نے، تو سندھ میں پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کے بغیر حکومتیں بنا لی ہیں۔ دونوں نے متحد ہوکر متحدہ کی اہمیت کو کم کردیا ہے۔ ہر انتخابات کے فوراً بعد اسلام آباد اور کراچی کی تقریبات حلف برداری میں شرکت کرنیوالے اب اقتدار کی غلام گردشوں سے دور ہیں۔دوسرا مسئلہ قائم علی شاہ کی سات برسوں سے قائم حکومت کا بلدیاتی انتخابات سے گریز ہے۔
کراچی میں جماعت اسلامی کے ستار افغانی اور نعمت اﷲ خان کے علاوہ متحدہ کے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال شہر قائد کی بلدیات کے قائد رہ چکے ہیں، ان انتخابات نے متحدہ کو عوام تک رسائی کا موقع دیا۔ نئی صدی کے دونوں ناظمین نے پہلے عشرے میں کراچی کو بنایا، سنوارا اور نکھارا، مصطفی کمال کو اپنی میعاد مکمل کیے چھ برس ہوچکے ہیں۔ دو مرتبہ انتخابات منعقد ہوجانے کے بجائے ابھی حلقہ بندیاں ہی ہورہی ہیں۔ مرکز اور صوبے کی حکومتوں میں عدم شمولیت کے علاوہ بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا الطاف حسین کے حامیوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ سندھ کے شہری حلقوں سے بڑا مینڈیٹ دینے والے متحدہ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے کام کیوں کر ہوں گے؟ لوکل باڈیز کے انتخابات کسی حد تک ایم کیو ایم کی شکایات کا ازالہ کردیتے۔ مسلسل ٹال مٹول متحدہ کے لیے نئی درد سر رہے۔
عمران خان کا انتخابات میں کراچی سے آٹھ لاکھ ووٹ لے جانا ایم کیو ایم کے لیے نئی تشویش ہے۔ نتیجتاً غیر معروف امیدواروں اور کمزور تنظیم کے باوجود شہر قائد کے لاکھوں ووٹرز نے بلے پر مہر لگاکر متحدہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی، ایم کیو ایم کا مقابلہ کرتی تھی، ملکی سطح پر مقبولیت نہ ہونے کے سبب جماعت سے نمٹنا آسان ہوتا تھا۔ بھٹو اور نواز شریف کے ماننے والوں کو اہل کراچی نے ووٹ نہیں دیے یا انھوں نے توجہ نہیں دی۔ بات کچھ بھی ہو، اب تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ملک گیر پارٹی کو شہر قائد نے ووٹ دیے ہیں۔ تحریک انصاف تو پہلی مرتبہ کراچی کی دوسری مقبول ترین پارٹی بننے کا موقع ملا ہے، اسی حوالے سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران نے ایم کیو ایم کے قائد پر لگاتار لفظی حملوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
زرداری، نواز، فضل الرحمن اور اسفندیار کے بعد اب کپتان کے جملوں کا نشانہ متحدہ کے قائد ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قومی سطح کے لیڈر نے ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت سے اس لہجے میں بات کی ہو۔ متحدہ کی میڈیا پر جواب دینے والی ٹیم کے لیے یہ ایک نئی آزمائش ہے۔ اس سے قبل ذوالفقار مرزا اور بلاول بھٹو نے الزامات کی جنگ شروع کی تھی۔ ایک کو مقامی لیڈر اور ایک کو بچہ سمجھ کر نظر انداز کردیاگیا۔ آصف زرداری نے مفاہمت کی بات کرکے دونوں کو چپ کروا دیا۔ اب تحریک انصاف کی کراچی میں مقبولیت اور عمران کی لفظی بوچھاڑ ایم کیو ایم کے لیے تیسرا بڑا مسئلہ ہے۔ ایسا مسئلہ جس سے ان کا پہلے کبھی سابقہ نہیں پڑا۔
ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کئی برسوں سے مسئلہ ہے لیکن اس میں شدت حالیہ دنوں میں آئی ہے، برطانیہ کی حکومت پاکستان سے دو قیدیوں تک رسائی چاہتی تھی۔ قتل کی واردات کے بعد لندن سے سری لنکا اور پھر پاکستان آنے والے دو ملزمان حکومت کی تحویل میں ہیں۔ پہلی مرتبہ چوہدری نثار نے برطانوی سفیر سے ملاقات کرکے ان کے انٹرویو پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ دو حکومتوں کا یکجا ہوجانا ایم کیو ایم کے لیے نیا مسئلہ ہے۔ ایسا مسئلہ جو اس سے قبل پیش نہیں آیا۔ لندن ہی میں منی لانڈرنگ کے الزامات پر اسکاٹ لینڈ یارڈ نے متحدہ کا جینا دوبھر کردیا ہے۔
مہاجروں اور اردو بولنے والوں کے نام سے سیاست کرنے والی ایم کیو ایم پانچویں مسئلے سے بھی دوچار ہے۔ یہ اچانک تو پیش نہیں آیا لیکن اس کا ذکر ان دنوں کچھ زیادہ ہی ہورہاہے۔ پچیس تیس سال قبل کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ وہ شہر قائد کی سب سے بڑی اکائی اور پچاس فیصد سے زیادہ تھے۔ اب ملک اور صوبے کے دوسرے شہروں سے آنے والوں نے آبادی کے تناسب کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ مہاجر سے متحدہ بننے والی اور پٹھانوں و پنجابیوں کے لیے اپنے در کھولنے والی دونوں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک نہیں بناسکی ہے۔ کراچی و حیدرآباد پر انحصار کرنے والی ایم کیو ایم جانتی ہے کہ صورت حال 90 کے عشرے والی نہیں رہی، کراچی کی دیگر لسانی اکائیاں اپنا وزن ایک پلڑے میں ڈال کر متحدہ کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ پتنگ، تیر، ترازو اور شیر کو ووٹ دینے والے اردو بولنے والوں نے اپنا وزن بھی ایک جانب کرلیا تو مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔
صولت مرزا وہ چھٹا مسئلہ ہے جس سے متحدہ کو حالیہ دنوں میں سابقہ پیش آیا۔ سترہ سال تک جیل میں رہنا کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے برصغیر میں سب سے بڑی مدت ہے۔ گاندھی جی، حسرت موہانی اور ابوالکلام آزاد صف اول کے قائدین تھے۔ پچیس سال کے ہیں۔ ہینڈسم نوجوان کے مقابل ایک بیالیس سال کے ادھیڑ عمر کی تصویر اصل فرق پیدا کررہی ہے۔ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھانے کی کوشش کی تو متحدہ نے پوچھا کہ پھانسی سے چند گھنٹے قبل ویڈیو کیسے ریکارڈ کی گئی اور یہ کیونکر باہر آگئی۔
پے در پے سوالات اور مخالف سیاسی پارٹیوں کے اٹھائے گئے نکات کا جواب ایم کیو ایم بمشکل دے پا رہی تھی۔ ابھی یہ سلسلہ تھما ہی تھا کہ صولت مرزا کی اہلیہ کے بیانات نے نیا بھونچال پیدا کردیا۔ پارٹی کے مرکز چھاپے، ایف آئی آر کے اندراج، قیادت و کارکنوں کی گرفتاریوں، میڈیا ٹرائل کے الزامات اور آخر میں مسٹر و مسز صولت مرزا۔ ان پے در پے نصف درجن مسائل نے ایم کیو ایم کی قیادت کو ذہنی طور پر تھکا دیا ہے، تھوڑے غیر نمایاں و غیر فعال ہوکر سنبھلا جاسکتا تھا لیکن ایک اور مسئلے نے آرام کے ایک موقعے کو گنوا دیا۔ نبیل گبول کے عزیز آباد والی سیٹ سے استعفے نے ایک نئی انتخابی مہم میں جھونک دیا ہے۔
ایم کیو ایم کے قائدین کی بڑھتی عمریں ساتواں مسئلہ ہے۔ 80 کی دھائی میں پچیس تیس سال کی اوسط عمر والے قائدین اب مختلف صورتحال سے دوچار ہیں، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سیاسی میدان میں بھرپور کامیابی نے بوڑھوں کی پارٹیوں کو سندھ کے شہری علاقوں سے آؤٹ کردیا تھا، وہ نئی صدی کے دوسرے عشرے میں پچپن ساٹھ سال کی عمر کو چھو رہے ہیں، اب عمران جیسے اسپورٹس مین اور سراج الحق جیسے کم عمر سے سابقہ ہے، ممکن ہے کل بلاول اور حمزہ سے بھی معرکہ آرائی ہو، تعلیم اور مقبولیت کے ساتھ توانائی کی جو برتری متحدہ کو حاصل تھی وہ اب دوسری جانب بڑھ رہی ہے۔
الطاف حسین پارٹی پر اپنی کمزور گرفت کا اعتراف کرچکے ہیں، یہ آٹھواں مسئلہ ہے جو حالیہ دنوں میں سامنے آیا ہے۔ ربع صدی سے ہزاروں میل دور سے پارٹی کنٹرول کرنا قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔ پارٹیاں وراثت سے کنٹرول ہوتی ہیں یا انتخابات سے پاکستان میں دونوں سے دوری ایک بڑا مسئلہ ہے جس کا متحدہ کو سامنا ہے۔
دھیمے سروں اور ہلکی آنچ پر ہولے ہولے قدم بڑھائے تو قابو پاسکتی ہے، اپنی تمام مشکلات پر اور ذہانت سے حل کرسکتی ہے جو درپیش ہے، ایم کیو ایم کو آٹھ نئے مسائل۔
پہلا مسئلہ الیکشن 2013 میں پیش آیا۔ کئی انتخابات میں کامیابی کے باوجود متحدہ کو ایسی مشکل کبھی پیش نہ آئی تھی۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے ایم کیو ایم کے بغیر وفاق اور صوبے میں حکومتیں بنالیں، پچھلے پچیس برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ پیپلزپارٹی کو وفاق میں کم سیٹیں ہونے کے سبب نائن زیرو آنا پڑتا ۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اسلام آباد میں مسلم لیگ ن نے، تو سندھ میں پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کے بغیر حکومتیں بنا لی ہیں۔ دونوں نے متحد ہوکر متحدہ کی اہمیت کو کم کردیا ہے۔ ہر انتخابات کے فوراً بعد اسلام آباد اور کراچی کی تقریبات حلف برداری میں شرکت کرنیوالے اب اقتدار کی غلام گردشوں سے دور ہیں۔دوسرا مسئلہ قائم علی شاہ کی سات برسوں سے قائم حکومت کا بلدیاتی انتخابات سے گریز ہے۔
کراچی میں جماعت اسلامی کے ستار افغانی اور نعمت اﷲ خان کے علاوہ متحدہ کے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال شہر قائد کی بلدیات کے قائد رہ چکے ہیں، ان انتخابات نے متحدہ کو عوام تک رسائی کا موقع دیا۔ نئی صدی کے دونوں ناظمین نے پہلے عشرے میں کراچی کو بنایا، سنوارا اور نکھارا، مصطفی کمال کو اپنی میعاد مکمل کیے چھ برس ہوچکے ہیں۔ دو مرتبہ انتخابات منعقد ہوجانے کے بجائے ابھی حلقہ بندیاں ہی ہورہی ہیں۔ مرکز اور صوبے کی حکومتوں میں عدم شمولیت کے علاوہ بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا الطاف حسین کے حامیوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ سندھ کے شہری حلقوں سے بڑا مینڈیٹ دینے والے متحدہ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے کام کیوں کر ہوں گے؟ لوکل باڈیز کے انتخابات کسی حد تک ایم کیو ایم کی شکایات کا ازالہ کردیتے۔ مسلسل ٹال مٹول متحدہ کے لیے نئی درد سر رہے۔
عمران خان کا انتخابات میں کراچی سے آٹھ لاکھ ووٹ لے جانا ایم کیو ایم کے لیے نئی تشویش ہے۔ نتیجتاً غیر معروف امیدواروں اور کمزور تنظیم کے باوجود شہر قائد کے لاکھوں ووٹرز نے بلے پر مہر لگاکر متحدہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی، ایم کیو ایم کا مقابلہ کرتی تھی، ملکی سطح پر مقبولیت نہ ہونے کے سبب جماعت سے نمٹنا آسان ہوتا تھا۔ بھٹو اور نواز شریف کے ماننے والوں کو اہل کراچی نے ووٹ نہیں دیے یا انھوں نے توجہ نہیں دی۔ بات کچھ بھی ہو، اب تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ملک گیر پارٹی کو شہر قائد نے ووٹ دیے ہیں۔ تحریک انصاف تو پہلی مرتبہ کراچی کی دوسری مقبول ترین پارٹی بننے کا موقع ملا ہے، اسی حوالے سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران نے ایم کیو ایم کے قائد پر لگاتار لفظی حملوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
زرداری، نواز، فضل الرحمن اور اسفندیار کے بعد اب کپتان کے جملوں کا نشانہ متحدہ کے قائد ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قومی سطح کے لیڈر نے ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت سے اس لہجے میں بات کی ہو۔ متحدہ کی میڈیا پر جواب دینے والی ٹیم کے لیے یہ ایک نئی آزمائش ہے۔ اس سے قبل ذوالفقار مرزا اور بلاول بھٹو نے الزامات کی جنگ شروع کی تھی۔ ایک کو مقامی لیڈر اور ایک کو بچہ سمجھ کر نظر انداز کردیاگیا۔ آصف زرداری نے مفاہمت کی بات کرکے دونوں کو چپ کروا دیا۔ اب تحریک انصاف کی کراچی میں مقبولیت اور عمران کی لفظی بوچھاڑ ایم کیو ایم کے لیے تیسرا بڑا مسئلہ ہے۔ ایسا مسئلہ جس سے ان کا پہلے کبھی سابقہ نہیں پڑا۔
ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کئی برسوں سے مسئلہ ہے لیکن اس میں شدت حالیہ دنوں میں آئی ہے، برطانیہ کی حکومت پاکستان سے دو قیدیوں تک رسائی چاہتی تھی۔ قتل کی واردات کے بعد لندن سے سری لنکا اور پھر پاکستان آنے والے دو ملزمان حکومت کی تحویل میں ہیں۔ پہلی مرتبہ چوہدری نثار نے برطانوی سفیر سے ملاقات کرکے ان کے انٹرویو پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ دو حکومتوں کا یکجا ہوجانا ایم کیو ایم کے لیے نیا مسئلہ ہے۔ ایسا مسئلہ جو اس سے قبل پیش نہیں آیا۔ لندن ہی میں منی لانڈرنگ کے الزامات پر اسکاٹ لینڈ یارڈ نے متحدہ کا جینا دوبھر کردیا ہے۔
مہاجروں اور اردو بولنے والوں کے نام سے سیاست کرنے والی ایم کیو ایم پانچویں مسئلے سے بھی دوچار ہے۔ یہ اچانک تو پیش نہیں آیا لیکن اس کا ذکر ان دنوں کچھ زیادہ ہی ہورہاہے۔ پچیس تیس سال قبل کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ وہ شہر قائد کی سب سے بڑی اکائی اور پچاس فیصد سے زیادہ تھے۔ اب ملک اور صوبے کے دوسرے شہروں سے آنے والوں نے آبادی کے تناسب کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ مہاجر سے متحدہ بننے والی اور پٹھانوں و پنجابیوں کے لیے اپنے در کھولنے والی دونوں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک نہیں بناسکی ہے۔ کراچی و حیدرآباد پر انحصار کرنے والی ایم کیو ایم جانتی ہے کہ صورت حال 90 کے عشرے والی نہیں رہی، کراچی کی دیگر لسانی اکائیاں اپنا وزن ایک پلڑے میں ڈال کر متحدہ کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ پتنگ، تیر، ترازو اور شیر کو ووٹ دینے والے اردو بولنے والوں نے اپنا وزن بھی ایک جانب کرلیا تو مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔
صولت مرزا وہ چھٹا مسئلہ ہے جس سے متحدہ کو حالیہ دنوں میں سابقہ پیش آیا۔ سترہ سال تک جیل میں رہنا کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے برصغیر میں سب سے بڑی مدت ہے۔ گاندھی جی، حسرت موہانی اور ابوالکلام آزاد صف اول کے قائدین تھے۔ پچیس سال کے ہیں۔ ہینڈسم نوجوان کے مقابل ایک بیالیس سال کے ادھیڑ عمر کی تصویر اصل فرق پیدا کررہی ہے۔ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھانے کی کوشش کی تو متحدہ نے پوچھا کہ پھانسی سے چند گھنٹے قبل ویڈیو کیسے ریکارڈ کی گئی اور یہ کیونکر باہر آگئی۔
پے در پے سوالات اور مخالف سیاسی پارٹیوں کے اٹھائے گئے نکات کا جواب ایم کیو ایم بمشکل دے پا رہی تھی۔ ابھی یہ سلسلہ تھما ہی تھا کہ صولت مرزا کی اہلیہ کے بیانات نے نیا بھونچال پیدا کردیا۔ پارٹی کے مرکز چھاپے، ایف آئی آر کے اندراج، قیادت و کارکنوں کی گرفتاریوں، میڈیا ٹرائل کے الزامات اور آخر میں مسٹر و مسز صولت مرزا۔ ان پے در پے نصف درجن مسائل نے ایم کیو ایم کی قیادت کو ذہنی طور پر تھکا دیا ہے، تھوڑے غیر نمایاں و غیر فعال ہوکر سنبھلا جاسکتا تھا لیکن ایک اور مسئلے نے آرام کے ایک موقعے کو گنوا دیا۔ نبیل گبول کے عزیز آباد والی سیٹ سے استعفے نے ایک نئی انتخابی مہم میں جھونک دیا ہے۔
ایم کیو ایم کے قائدین کی بڑھتی عمریں ساتواں مسئلہ ہے۔ 80 کی دھائی میں پچیس تیس سال کی اوسط عمر والے قائدین اب مختلف صورتحال سے دوچار ہیں، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سیاسی میدان میں بھرپور کامیابی نے بوڑھوں کی پارٹیوں کو سندھ کے شہری علاقوں سے آؤٹ کردیا تھا، وہ نئی صدی کے دوسرے عشرے میں پچپن ساٹھ سال کی عمر کو چھو رہے ہیں، اب عمران جیسے اسپورٹس مین اور سراج الحق جیسے کم عمر سے سابقہ ہے، ممکن ہے کل بلاول اور حمزہ سے بھی معرکہ آرائی ہو، تعلیم اور مقبولیت کے ساتھ توانائی کی جو برتری متحدہ کو حاصل تھی وہ اب دوسری جانب بڑھ رہی ہے۔
الطاف حسین پارٹی پر اپنی کمزور گرفت کا اعتراف کرچکے ہیں، یہ آٹھواں مسئلہ ہے جو حالیہ دنوں میں سامنے آیا ہے۔ ربع صدی سے ہزاروں میل دور سے پارٹی کنٹرول کرنا قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔ پارٹیاں وراثت سے کنٹرول ہوتی ہیں یا انتخابات سے پاکستان میں دونوں سے دوری ایک بڑا مسئلہ ہے جس کا متحدہ کو سامنا ہے۔
دھیمے سروں اور ہلکی آنچ پر ہولے ہولے قدم بڑھائے تو قابو پاسکتی ہے، اپنی تمام مشکلات پر اور ذہانت سے حل کرسکتی ہے جو درپیش ہے، ایم کیو ایم کو آٹھ نئے مسائل۔