آج کا پاکستان
ہماری کتاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہم اکیلے تھے اس آزادی کی جنگ میں، شروع سے ہی ہندو اور برطانوی ہمارے خلاف تھے،
RAWALPINDI:
قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے گیارہ اگست 1947 کے خطاب میں کہا تھا کہ ہم ایک ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں صرف مسلمان نہیں بلکہ ہر مذہب ہر کلچر کے لوگ آزادی سے زندگی گزار پائیں گے۔ وہ پاکستان کا نظریہ جو اب دور دور ہمارے پاکستان میں نظر نہیں آتا۔
دوسری قوموں کو اپنے ملک میں رہنے کے لیے آمادہ کرنا تو دور کی بات ہم تو اس بات میں ناکام ہو رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو سمجھا سکیں کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟
آج پاکستان کے بارے میں سن کر کسی بھی عام شخص کو جو پاکستان سے باہر ہے کیا تصور ذہن میں آتا ہے؟ وہ جگہ جہاں بم بلاسٹ ہوتے ہیں، جہاں اسامہ بن لادن کو دس برس سے زیادہ پناہ دی جاتی ہے، جہاں ملالہ جیسی لڑکیوں کو صرف اس لیے گولی مار دی جاتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں اور باقی دنیا اس لیے ڈرتی ہے کہ ہم نیوکلیئر پاور ہیں اور کبھی بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
دنیا آج پاکستان کو ویسا ہی سمجھتی ہے جیسا اس وقت کسی حد تک افغانستان ہے لیکن حقیقت میں ہم کلچر اور سوچ میں افغانستان کے مقابلے میں انڈیا سے قریب ہیں۔ وہ انڈیا جس کے ساتھ ہماری سیکڑوں سال کی تاریخ ہے۔ہم اپنے بچوں کو ٹیکسٹ بکس میں شروع سے ہی سکھاتے ہیں کہ ہم انڈیا سے بالکل مختلف ہیں، وہ دشمن ہیں ہمارے اور بس اس لیے وہاں کے کلچر طور طریقے کی کوئی جان کاری نہیں، مغلوں سے سیدھا انگریزوں کی ناانصافی اور پھر آزادی کی تحریک۔
ٹیکسٹ بک کہتی ہیں ہم صدیوں سے ساتھ رہے لیکن اس کے باوجود ہم ہمیشہ سے دو قومیں تھے، ہر چیز الگ وہ ہندو ہم مسلمان جب کہ یہ بات پوری طرح صحیح نہیں ہے، 1881 میں انگریزوں نے پہلی بار ساؤتھ ایشیا میں مردم شماری کروائی تھی، اس سے پہلے کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ برصغیر میں کتنے ہندو اور کتنے مسلمان رہتے ہیں؟ نہ ہی اس بات سے کسی کو فرق پڑتا تھا، ساتھ مل کر کام کرتے، اٹھتے بیٹھتے ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے مذہب درمیان میں نہیں آتا تھا۔
ہم ابتدائی جماعتوں سے اپنے بچوں کو ان فریڈم فائٹرز کے بارے میں بتاتے ہیں جو مسلمان تھے کسی ہندو یا سکھ کا دور دور ذکر نہیں، نہ صرف یہ بلکہ ان مغلوں کا بھی ذکر بہت کم ملتا ہے جنھوں نے اپنے دور میں ہندوؤں کو بہتر پوزیشن دی جیسے اکبر بادشاہ جنھوں نے ہندوستان پر 1556 سے 1605 تک حکمرانی کی لیکن ان کا ذکر ٹیکسٹ بکس میں باقی بادشاہوں کی نسبت سب سے کم ہوتا ہے۔بھگت سنگھ جو برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے ابتدائی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کا کوئی ذکر ہماری کتابوں میں نہیں یہاں تک کہ لاہور میں وہ جگہ جہاں انھیں 1931 میں پھانسی دی گئی تھی اس جگہ پر ان کے نام کا ٹریفک سگنل بنانے کی کچھ ایکٹیوسٹ گروپس کی کوششیں ناکام ہوئیں۔
ہماری کتاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہم اکیلے تھے اس آزادی کی جنگ میں، شروع سے ہی ہندو اور برطانوی ہمارے خلاف تھے، جب کہ سچ یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہجرت کے وقت ہندو مسلم سکھ فسادات شروع ہوئے ورنہ آزادی کی موومنٹ کے وقت کوئی جھگڑا نہیں تھا، تاریخ گواہ ہے کہ تحریک کے وقت ایک بھی مسلمان جلسہ ایسا نہیں ہوا تھا کہ جس پر ہندوؤں نے حملہ کیا ہو اور نہ ہی کبھی مسلمانوں نے ہندوؤں پر وار کیا، چاہے وہاں کسی کی بھی اکثریت ہو۔
اگر ہندوؤں سے نفرت کو کتابوں سے کم کیا جائے تو اس سے ہم اپنے بچوں کو بہتر مائنڈ بنانے میں مدد دیں گے، یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ جو قتل و غارت بٹوارے کے وقت ہوا وہ دنیا کا سب سے تاریک واقعہ تھا، لیکن جو بات سمجھنا ضروری ہے وہ یہ کہ چھ سال کے ننھے بچے کو ہم آزادی کی یکطرفہ کہانی سناکر اس کے ذہن کی کس طرح نشوونما کر رہے ہیں۔
ایک چھ سال کا ننھا ذہن یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک دنیا تھی اور ہم کو صرف اس لیے خون بہانا پڑا کہ ہم مسلمان تھے، کیوں؟ کیا؟ کس لیے؟ ایک چھ سات سال کے کچے ذہن کے بچے کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔
ہم آج بار بار امریکا کا اعلان سنتے ہیں کہ کوئی بھی امریکی شہری پاکستان نہ جائے کیونکہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان محفوظ نہیں ہے لیکن یہی حال پاکستان کا آج سے بیس سال پہلے بھی تھا، گورے اس وقت بھی پاکستان جانے سے ڈرتے تھے کیونکہ انھیں اغوا اور قتل کے لیے زیادہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے، باہر رہنے والوں میں پاکستان سے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہاں غیر مسلموں کو ویلکم نہیں کیا جاتا۔
آج دنیا میں کہیں بھی پاکستانی قونصلیٹ جاکر ویزہ کے لیے اپلائی کرتا ہے تو کھڑکی پر بیٹھا پاکستانی ہی اسے اوپر سے نیچے اتنی حیرت سے دیکھتا ہے کہ کوئی گورا پاکستان کیوں جانا چاہتا ہے۔پاکستان میں آج سب سے آسان الزام اسلام کی بے حرمتی کا ہے، ہم مسلمان ہیں اور اسلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے پھر بھی۔ یہ جانتے ہیں کہ اس الزام کے لگ جانے کے بعد سزا ہونا بہت آسان ہے چاہے قصور ثابت ہو کہ نہیں۔1987 سے آج تک 1335 لوگوں کو سزا ہوچکی ہے، اس الزام کے تحت اور ان میں سے بیشتر غیر مسلم تھے اور پھر انٹرنیشنل میڈیا ان خبروں کو بہت اچھالتا ہے، ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ وہی ملک ہے جہاں پچھلے 68 سال میں کسی شخص کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے پر سزا ہوئی ہو۔
اس وقت ضروری ہے کہ مغرب کو یہ بتائیں کہ ہمارا ملک زرخیز کلچر ہے اور ہم غیر مسلموں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ رہنے کی سیکڑوں سال کی تاریخ رکھتے ہیں، وہ کلچر جو افغانستان جیسا نہیں ہے اسی لیے ضرورت ہے کہ ہم خود بھی اس بات کو سمجھیں اپنے بچوں کو وہ سکھائیں جو سچ ہے، ہم سیکڑوں سال سے اکیلے نہیں دوسری قوموں کے ساتھ مل کر رہے ہیں، آج ہمارے یہاں بچوں کو بڑے ہوتے وقت کوئی بھی نصابی کتاب یہ نہیں بتاتی کہ گاندھی جی کون تھے جب کہ تقسیم کے وقت لاکھوں مسلمان ان کی قدر کرتے تھے۔
ہم اپنے بچوں کے ذہنوں کو Isolation میں ڈال رہے ہیں۔ جو یہ بتاتی ہے کہ ہم اکیلے ہیں کیونکہ ہم ایک الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔آج دنیا میں گلوبلائزیشن کا دور ہے، اس کی وجہ سے کئی ممالک اپنی معیشت اور ٹورزم کو فائدہ پہنچا رہے ہیں سری لنکا بیس سال پہلے دنیا کے سب سے خطرناک ملکوں میں سے تھا لیکن آج دنیا کے ٹاپ ٹین اکنامیکل مقامات میں سے ہے، ہم کو اپنے دماغ کھولنے کی ضرورت ہے، دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لیے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے گیارہ اگست 1947 کے خطاب میں کہا تھا کہ ہم ایک ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں صرف مسلمان نہیں بلکہ ہر مذہب ہر کلچر کے لوگ آزادی سے زندگی گزار پائیں گے۔ وہ پاکستان کا نظریہ جو اب دور دور ہمارے پاکستان میں نظر نہیں آتا۔
دوسری قوموں کو اپنے ملک میں رہنے کے لیے آمادہ کرنا تو دور کی بات ہم تو اس بات میں ناکام ہو رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو سمجھا سکیں کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟
آج پاکستان کے بارے میں سن کر کسی بھی عام شخص کو جو پاکستان سے باہر ہے کیا تصور ذہن میں آتا ہے؟ وہ جگہ جہاں بم بلاسٹ ہوتے ہیں، جہاں اسامہ بن لادن کو دس برس سے زیادہ پناہ دی جاتی ہے، جہاں ملالہ جیسی لڑکیوں کو صرف اس لیے گولی مار دی جاتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں اور باقی دنیا اس لیے ڈرتی ہے کہ ہم نیوکلیئر پاور ہیں اور کبھی بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
دنیا آج پاکستان کو ویسا ہی سمجھتی ہے جیسا اس وقت کسی حد تک افغانستان ہے لیکن حقیقت میں ہم کلچر اور سوچ میں افغانستان کے مقابلے میں انڈیا سے قریب ہیں۔ وہ انڈیا جس کے ساتھ ہماری سیکڑوں سال کی تاریخ ہے۔ہم اپنے بچوں کو ٹیکسٹ بکس میں شروع سے ہی سکھاتے ہیں کہ ہم انڈیا سے بالکل مختلف ہیں، وہ دشمن ہیں ہمارے اور بس اس لیے وہاں کے کلچر طور طریقے کی کوئی جان کاری نہیں، مغلوں سے سیدھا انگریزوں کی ناانصافی اور پھر آزادی کی تحریک۔
ٹیکسٹ بک کہتی ہیں ہم صدیوں سے ساتھ رہے لیکن اس کے باوجود ہم ہمیشہ سے دو قومیں تھے، ہر چیز الگ وہ ہندو ہم مسلمان جب کہ یہ بات پوری طرح صحیح نہیں ہے، 1881 میں انگریزوں نے پہلی بار ساؤتھ ایشیا میں مردم شماری کروائی تھی، اس سے پہلے کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ برصغیر میں کتنے ہندو اور کتنے مسلمان رہتے ہیں؟ نہ ہی اس بات سے کسی کو فرق پڑتا تھا، ساتھ مل کر کام کرتے، اٹھتے بیٹھتے ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے مذہب درمیان میں نہیں آتا تھا۔
ہم ابتدائی جماعتوں سے اپنے بچوں کو ان فریڈم فائٹرز کے بارے میں بتاتے ہیں جو مسلمان تھے کسی ہندو یا سکھ کا دور دور ذکر نہیں، نہ صرف یہ بلکہ ان مغلوں کا بھی ذکر بہت کم ملتا ہے جنھوں نے اپنے دور میں ہندوؤں کو بہتر پوزیشن دی جیسے اکبر بادشاہ جنھوں نے ہندوستان پر 1556 سے 1605 تک حکمرانی کی لیکن ان کا ذکر ٹیکسٹ بکس میں باقی بادشاہوں کی نسبت سب سے کم ہوتا ہے۔بھگت سنگھ جو برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے ابتدائی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کا کوئی ذکر ہماری کتابوں میں نہیں یہاں تک کہ لاہور میں وہ جگہ جہاں انھیں 1931 میں پھانسی دی گئی تھی اس جگہ پر ان کے نام کا ٹریفک سگنل بنانے کی کچھ ایکٹیوسٹ گروپس کی کوششیں ناکام ہوئیں۔
ہماری کتاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہم اکیلے تھے اس آزادی کی جنگ میں، شروع سے ہی ہندو اور برطانوی ہمارے خلاف تھے، جب کہ سچ یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہجرت کے وقت ہندو مسلم سکھ فسادات شروع ہوئے ورنہ آزادی کی موومنٹ کے وقت کوئی جھگڑا نہیں تھا، تاریخ گواہ ہے کہ تحریک کے وقت ایک بھی مسلمان جلسہ ایسا نہیں ہوا تھا کہ جس پر ہندوؤں نے حملہ کیا ہو اور نہ ہی کبھی مسلمانوں نے ہندوؤں پر وار کیا، چاہے وہاں کسی کی بھی اکثریت ہو۔
اگر ہندوؤں سے نفرت کو کتابوں سے کم کیا جائے تو اس سے ہم اپنے بچوں کو بہتر مائنڈ بنانے میں مدد دیں گے، یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ جو قتل و غارت بٹوارے کے وقت ہوا وہ دنیا کا سب سے تاریک واقعہ تھا، لیکن جو بات سمجھنا ضروری ہے وہ یہ کہ چھ سال کے ننھے بچے کو ہم آزادی کی یکطرفہ کہانی سناکر اس کے ذہن کی کس طرح نشوونما کر رہے ہیں۔
ایک چھ سال کا ننھا ذہن یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک دنیا تھی اور ہم کو صرف اس لیے خون بہانا پڑا کہ ہم مسلمان تھے، کیوں؟ کیا؟ کس لیے؟ ایک چھ سات سال کے کچے ذہن کے بچے کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔
ہم آج بار بار امریکا کا اعلان سنتے ہیں کہ کوئی بھی امریکی شہری پاکستان نہ جائے کیونکہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان محفوظ نہیں ہے لیکن یہی حال پاکستان کا آج سے بیس سال پہلے بھی تھا، گورے اس وقت بھی پاکستان جانے سے ڈرتے تھے کیونکہ انھیں اغوا اور قتل کے لیے زیادہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے، باہر رہنے والوں میں پاکستان سے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہاں غیر مسلموں کو ویلکم نہیں کیا جاتا۔
آج دنیا میں کہیں بھی پاکستانی قونصلیٹ جاکر ویزہ کے لیے اپلائی کرتا ہے تو کھڑکی پر بیٹھا پاکستانی ہی اسے اوپر سے نیچے اتنی حیرت سے دیکھتا ہے کہ کوئی گورا پاکستان کیوں جانا چاہتا ہے۔پاکستان میں آج سب سے آسان الزام اسلام کی بے حرمتی کا ہے، ہم مسلمان ہیں اور اسلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے پھر بھی۔ یہ جانتے ہیں کہ اس الزام کے لگ جانے کے بعد سزا ہونا بہت آسان ہے چاہے قصور ثابت ہو کہ نہیں۔1987 سے آج تک 1335 لوگوں کو سزا ہوچکی ہے، اس الزام کے تحت اور ان میں سے بیشتر غیر مسلم تھے اور پھر انٹرنیشنل میڈیا ان خبروں کو بہت اچھالتا ہے، ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ وہی ملک ہے جہاں پچھلے 68 سال میں کسی شخص کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے پر سزا ہوئی ہو۔
اس وقت ضروری ہے کہ مغرب کو یہ بتائیں کہ ہمارا ملک زرخیز کلچر ہے اور ہم غیر مسلموں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ رہنے کی سیکڑوں سال کی تاریخ رکھتے ہیں، وہ کلچر جو افغانستان جیسا نہیں ہے اسی لیے ضرورت ہے کہ ہم خود بھی اس بات کو سمجھیں اپنے بچوں کو وہ سکھائیں جو سچ ہے، ہم سیکڑوں سال سے اکیلے نہیں دوسری قوموں کے ساتھ مل کر رہے ہیں، آج ہمارے یہاں بچوں کو بڑے ہوتے وقت کوئی بھی نصابی کتاب یہ نہیں بتاتی کہ گاندھی جی کون تھے جب کہ تقسیم کے وقت لاکھوں مسلمان ان کی قدر کرتے تھے۔
ہم اپنے بچوں کے ذہنوں کو Isolation میں ڈال رہے ہیں۔ جو یہ بتاتی ہے کہ ہم اکیلے ہیں کیونکہ ہم ایک الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔آج دنیا میں گلوبلائزیشن کا دور ہے، اس کی وجہ سے کئی ممالک اپنی معیشت اور ٹورزم کو فائدہ پہنچا رہے ہیں سری لنکا بیس سال پہلے دنیا کے سب سے خطرناک ملکوں میں سے تھا لیکن آج دنیا کے ٹاپ ٹین اکنامیکل مقامات میں سے ہے، ہم کو اپنے دماغ کھولنے کی ضرورت ہے، دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لیے۔