ڈے کیئر سینٹرز سے اولڈ ہاؤسز تک
تاریخی طور پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرانس میں سب سے پہلا ڈے کیئر سینٹر 1840 میں قائم ہوا۔
ISLAMABAD:
ہماری گاڑی خراب ہوجائے یا صحت، ہم ایسے مکینک یا ڈاکٹر کو تلاش کرتے ہیں جو کہ تجربہ کار ہو، زندگی کے ہر میدان میں ہم مشورے کے لیے بھی کسی تجربہ کار شخص سے ہی رائے لینے کو ترجیح دیتے ہیں، وجہ اس کی سیدھی سادھی یہ ہے کہ ایک تجربہ کار شخص ان مراحل سے متعدد بار گزر چکا ہوتا ہے کہ جن سے ہمارا سامنا نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ اگر ہم کوئی عملی قدم اٹھانے جائیں تو عقل مندی کا تقاضا ہے کہ اس ضمن میں ہم سے پہلے جن افراد نے اقدام کیے ہیں ان کے تجربات کے نتائج کو دیکھ لیں کہ آیا اس کے فوائد کس قدر ہیں اور نقصانات کس قدر ہیں؟
آج ہمارے ہاں بھی جدید ترقی یافتہ ممالک کی نقالی میں ایک جانب تو خواتین کو گھر سے باہر ملازمت کرنے کو بہتر خیال کیا جارہا ہے اور دوسری جانب اس سلسلے میں ملازمت پیشہ خواتین کو ''ڈے کیئر سینٹر'' کی سہولت فراہم کرنے کو بہتر اقدام تصور کیا جارہا ہے۔
تاریخی طور پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرانس میں سب سے پہلا ڈے کیئر سینٹر 1840 میں قائم ہوا۔ امریکا میں پہلا ڈے کیئر سینٹر 1850 میں، نیو یارک میں ''ڈے نرسری'' کے نام سے وجود میں آیا، ابتدا میں یہ نجی طور پر قائم ہوئے۔ اس وقت امریکا میں صرف ایک کمپنی کی 39 ریاستوں میں کم و بیش 2 ہزار سے زائد سینٹر موجود ہیں، جاپان میں ڈے کیئر سینٹرز کی اربوں روپے کی انڈسٹریز موجود ہیں جن میں 20 لاکھ سے زائد بچے اس مقصد کے لیے داخل ہیں۔ میکسیکو میں حکومت نے سرکاری سطح پر 8 ہزار کے قریب ایسے سینٹرز عوام کی سہولت کے لیے قائم کیے۔
ترقی یافتہ ممالک کی اس حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے ہمارے ہاں بھی ملازمت پیشہ خواتین کو سہولت پہنچانے کے لیے ان سینٹرز کا آغاز ہوا۔ اس وقت پاکستان کے تقریباً سب ہی بڑے شہروں میں ایسے سینٹرز موجود ہیں۔ سب سے زیادہ کراچی میں ہیں، پنجاب حکومت اس سلسلے میں سینٹرز کھولنے والوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے، ایک پرائیویٹ فرم کو 22 لاکھ کے قریب امداد دی گئی، حکومت پنجاب 20 کروڑ روپے اس ضمن میں مختص کرچکی ہے جس سے 60 ڈے کیئر سینٹر کھولے جائیں گے۔ ہماری روشن خیالی کے قوانین کے مطابق پچاس یا اس سے زائد خواتین ورکرز رکھنے والے ادارے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فیکٹری ایکٹ کے تحت ڈے کیئر سینٹر کی سہولت ورکرز کو فراہم کرے، پنجاب اور سندھ کے سرکاری اداروں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اس وقت ایسے کئی سرکاری سینٹرز کام کررہے ہیں۔
مغرب میں دراصل صنعتی انقلاب کے بعد بے شمار تبدیلیاں آئیں جو صرف معاشی سطح پر نہیں بلکہ ریاستی، معاشرتی اور دیگر سطح پر بھی واقع ہوئی جیسا کہ گرانٹ ڈیوڈ اس انقلاب کے بارے میں کہتا ہے کہ اس کے بعد سیاسی، ثقافتی، معاشرتی حتیٰ کہ انسانی رویوں میں تبدیلی آگئی۔ چنانچہ مغرب میں یہ انقلاب آیا تو ایک جانب ملازمت کے مواقع بڑھ گئے بلکہ مشینوں سے تیار ہوکر فروخت ہونے والی اشیا کی مانگ بھی بڑھ گئی اور معیار زندگی کو بلند ظاہر کرنے والی اشیا بازاروں میں آگئیں۔
چنانچہ معیار زندگی کو بلند کرنے کی خواہش لوگوں میں پیدا ہوئی اور اس جستجو میں خواتین نے ملازمت کے لیے اداروں کا رخ کیا اور جب بچے ملازمت میں رکاوٹ محسوس ہوئے تو اس کا آسان حل ڈے کیئر سینٹر کے قیام سے نکالا گیا اور یوں میاں بیوی دن بھر بلکہ اوور ٹائم کرنے کی صورت میں رات تک اپنی ملازمت کو وقت دیتے تو دوسری طرف ان کے بچے ڈے کیئر سینٹر میں وقت گزارتے، اس طرح ایک مشکل کا آسان حل تو نکل آیا مگر جب یہی نسل بڑھ کر جوان ہوئی اور ملازمت پر جانے لگی تو اس نسل کے سامنے پھر وہی مشکل آئی کہ معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے میاں بیوی جب ملازمت پر ڈیوٹی دے رہے ہوں گے تو بچوں کو کس کے حوالے کیا جائے؟
تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے اپنے ماں باپ کی طرح اپنے نومولود بچوں کو ڈے کیئر سینٹرز میں ڈالنے کی روایات کو دوام بخشا مگر ایک مسئلہ اور پیش آیا کہ بچے تو ڈے کیئر سینٹر چلے گئے مگر اب ان بوڑھے والدین کا کیا کیا جائے جو اب کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہے بلکہ ان کی تو اب بچوں کی طرح خدمت کرنے کی ضرورت ہے۔ جب اپنی سگی اولاد کے لیے میاں بیوی کے پاس وقت نہیں تو بھلا بوڑھے والدین کے لیے کہاں سے وقت آئے؟
چنانچہ عقلی بنیادوں پر طے ہوا کہ جس طرح انھیں بچپن میں والدین نے معیار زندگی بلند کرنے یا ملازمت کرنے کے لیے ڈے کیئر سینٹر میں ڈالا تھا بالکل ایسے ہی ان والدین کو اب سینٹرز کے حوالے کردیا جائے اور پھر اس میں برائی کیا ہے کیوں کہ جب معصوم بچے والدین سے دور کسی ڈے کیئر سینٹر میں رہ سکتے ہیں تو یہ والدین بے شک بزرگ ہی سہی ہیں تو بالغ، پھر کیوں نہ انھیں بھی کسی سینٹر میں ڈال کر اس کا نام Old House (اولڈ ہاؤس) رکھ دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس فیصلے سے بچوں اور بزرگ والدین سے وہ نجات مل سکتی ہے کہ جس کے باعث میاں بیوی آرام سے اپنی ملازمت انجام دے سکتے ہیں اور معیار زندگی بلند کرسکتے ہیں۔
چنانچہ حقائق یہی ہیں کہ مغرب میں ڈے کیئر سینٹرز کی کامیابی کے بعد اولڈ ہاؤسز بھی کامیابی کے ساتھ قائم ہوئے اور یوں وہاں پورا معاشرتی نظام تہس نہس ہوگیا، وہ معاشرتی نظام جب کبھی خاندان جڑ کر رہا کرتے تھے اور ماں باپ، اولاد، بھائی بہن میں بھی ایک دوسرے کے لیے محبت اور وقت دونوں ایک ساتھ نظر آتے تھے۔
یہاں راقم کے پاس بے شمار ایسے اعداد و شمار ہیں کہ جن کو یہاں بیان کرکے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے یا اس جانب توجہ دلائی جاسکتی ہے کہ آج مغربی معاشرہ محض خواتین کی ملازمت اور پھر ڈے کیئر سینٹر کے قیام کے بعد کس قسم کے تباہ کن اثرات کا اور مسائل کا سامنا کررہا ہے؟ اپنے گزشتہ کئی کالموں میں اس قسم کے اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں یہاں اعداد و شمار پیش کرنے کے بجائے صرف ایک گزارش ہے کہ آئیے مغرب کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے جن معاملات میں ہم مغرب کی تقلید کرتے جارہے ہیں ذرا سا اس کا جائزہ بھی لے لیں اور اگر واقعی ان کے بعض تجربات کا انجام غلط ثابت ہوا ہے تو پھر ہم بھی غور و فکر کرلیں کہیں ہم بھی تو اس انجام سے ٹکرانے والے تو نہیں ہیں؟
آئیے تھوڑی دیر کو غور کرلیں کہ آج ہم اپنے بچوں کو ڈے کیئر سینٹر میں ڈال دیتے ہیں کل اگر یہی بچے ہمیں بھی ''اولڈ ہاؤسز'' میں داخل کرانے لگیں تو ہمارے پاس ان سے شکایت کرنے کا کیا جواز ہوگا؟ کیا ہم ان سے یہ سوال کرنے کی جرأت کرسکیںگے کہ بیٹا تم آخر کیوں ہمیں اولڈ ہاؤس میں ڈالنا چاہتے ہو؟ اور اگر سامنے سے جواب آئے کہ ''بالکل اس لیے جس کے لیے آپ نے بچپن میں ہمیں ڈے کیئر سینٹر میں ڈالا تھا'' تو پھر ہمارا جواب کیا ہوگا؟مغرب کا تجربہ ثابت کررہا ہے کہ جن معاشروں میں ''ڈے کیئر سینٹر'' رواج پاجائیں وہاں پھر ''اولڈ ہاؤسز'' کے قیام کو کوئی نہیں روک سکتا۔ آئیے غور کریں! کل کے بجائے آج۔
ہماری گاڑی خراب ہوجائے یا صحت، ہم ایسے مکینک یا ڈاکٹر کو تلاش کرتے ہیں جو کہ تجربہ کار ہو، زندگی کے ہر میدان میں ہم مشورے کے لیے بھی کسی تجربہ کار شخص سے ہی رائے لینے کو ترجیح دیتے ہیں، وجہ اس کی سیدھی سادھی یہ ہے کہ ایک تجربہ کار شخص ان مراحل سے متعدد بار گزر چکا ہوتا ہے کہ جن سے ہمارا سامنا نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ اگر ہم کوئی عملی قدم اٹھانے جائیں تو عقل مندی کا تقاضا ہے کہ اس ضمن میں ہم سے پہلے جن افراد نے اقدام کیے ہیں ان کے تجربات کے نتائج کو دیکھ لیں کہ آیا اس کے فوائد کس قدر ہیں اور نقصانات کس قدر ہیں؟
آج ہمارے ہاں بھی جدید ترقی یافتہ ممالک کی نقالی میں ایک جانب تو خواتین کو گھر سے باہر ملازمت کرنے کو بہتر خیال کیا جارہا ہے اور دوسری جانب اس سلسلے میں ملازمت پیشہ خواتین کو ''ڈے کیئر سینٹر'' کی سہولت فراہم کرنے کو بہتر اقدام تصور کیا جارہا ہے۔
تاریخی طور پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرانس میں سب سے پہلا ڈے کیئر سینٹر 1840 میں قائم ہوا۔ امریکا میں پہلا ڈے کیئر سینٹر 1850 میں، نیو یارک میں ''ڈے نرسری'' کے نام سے وجود میں آیا، ابتدا میں یہ نجی طور پر قائم ہوئے۔ اس وقت امریکا میں صرف ایک کمپنی کی 39 ریاستوں میں کم و بیش 2 ہزار سے زائد سینٹر موجود ہیں، جاپان میں ڈے کیئر سینٹرز کی اربوں روپے کی انڈسٹریز موجود ہیں جن میں 20 لاکھ سے زائد بچے اس مقصد کے لیے داخل ہیں۔ میکسیکو میں حکومت نے سرکاری سطح پر 8 ہزار کے قریب ایسے سینٹرز عوام کی سہولت کے لیے قائم کیے۔
ترقی یافتہ ممالک کی اس حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے ہمارے ہاں بھی ملازمت پیشہ خواتین کو سہولت پہنچانے کے لیے ان سینٹرز کا آغاز ہوا۔ اس وقت پاکستان کے تقریباً سب ہی بڑے شہروں میں ایسے سینٹرز موجود ہیں۔ سب سے زیادہ کراچی میں ہیں، پنجاب حکومت اس سلسلے میں سینٹرز کھولنے والوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے، ایک پرائیویٹ فرم کو 22 لاکھ کے قریب امداد دی گئی، حکومت پنجاب 20 کروڑ روپے اس ضمن میں مختص کرچکی ہے جس سے 60 ڈے کیئر سینٹر کھولے جائیں گے۔ ہماری روشن خیالی کے قوانین کے مطابق پچاس یا اس سے زائد خواتین ورکرز رکھنے والے ادارے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فیکٹری ایکٹ کے تحت ڈے کیئر سینٹر کی سہولت ورکرز کو فراہم کرے، پنجاب اور سندھ کے سرکاری اداروں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اس وقت ایسے کئی سرکاری سینٹرز کام کررہے ہیں۔
مغرب میں دراصل صنعتی انقلاب کے بعد بے شمار تبدیلیاں آئیں جو صرف معاشی سطح پر نہیں بلکہ ریاستی، معاشرتی اور دیگر سطح پر بھی واقع ہوئی جیسا کہ گرانٹ ڈیوڈ اس انقلاب کے بارے میں کہتا ہے کہ اس کے بعد سیاسی، ثقافتی، معاشرتی حتیٰ کہ انسانی رویوں میں تبدیلی آگئی۔ چنانچہ مغرب میں یہ انقلاب آیا تو ایک جانب ملازمت کے مواقع بڑھ گئے بلکہ مشینوں سے تیار ہوکر فروخت ہونے والی اشیا کی مانگ بھی بڑھ گئی اور معیار زندگی کو بلند ظاہر کرنے والی اشیا بازاروں میں آگئیں۔
چنانچہ معیار زندگی کو بلند کرنے کی خواہش لوگوں میں پیدا ہوئی اور اس جستجو میں خواتین نے ملازمت کے لیے اداروں کا رخ کیا اور جب بچے ملازمت میں رکاوٹ محسوس ہوئے تو اس کا آسان حل ڈے کیئر سینٹر کے قیام سے نکالا گیا اور یوں میاں بیوی دن بھر بلکہ اوور ٹائم کرنے کی صورت میں رات تک اپنی ملازمت کو وقت دیتے تو دوسری طرف ان کے بچے ڈے کیئر سینٹر میں وقت گزارتے، اس طرح ایک مشکل کا آسان حل تو نکل آیا مگر جب یہی نسل بڑھ کر جوان ہوئی اور ملازمت پر جانے لگی تو اس نسل کے سامنے پھر وہی مشکل آئی کہ معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے میاں بیوی جب ملازمت پر ڈیوٹی دے رہے ہوں گے تو بچوں کو کس کے حوالے کیا جائے؟
تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے اپنے ماں باپ کی طرح اپنے نومولود بچوں کو ڈے کیئر سینٹرز میں ڈالنے کی روایات کو دوام بخشا مگر ایک مسئلہ اور پیش آیا کہ بچے تو ڈے کیئر سینٹر چلے گئے مگر اب ان بوڑھے والدین کا کیا کیا جائے جو اب کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہے بلکہ ان کی تو اب بچوں کی طرح خدمت کرنے کی ضرورت ہے۔ جب اپنی سگی اولاد کے لیے میاں بیوی کے پاس وقت نہیں تو بھلا بوڑھے والدین کے لیے کہاں سے وقت آئے؟
چنانچہ عقلی بنیادوں پر طے ہوا کہ جس طرح انھیں بچپن میں والدین نے معیار زندگی بلند کرنے یا ملازمت کرنے کے لیے ڈے کیئر سینٹر میں ڈالا تھا بالکل ایسے ہی ان والدین کو اب سینٹرز کے حوالے کردیا جائے اور پھر اس میں برائی کیا ہے کیوں کہ جب معصوم بچے والدین سے دور کسی ڈے کیئر سینٹر میں رہ سکتے ہیں تو یہ والدین بے شک بزرگ ہی سہی ہیں تو بالغ، پھر کیوں نہ انھیں بھی کسی سینٹر میں ڈال کر اس کا نام Old House (اولڈ ہاؤس) رکھ دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس فیصلے سے بچوں اور بزرگ والدین سے وہ نجات مل سکتی ہے کہ جس کے باعث میاں بیوی آرام سے اپنی ملازمت انجام دے سکتے ہیں اور معیار زندگی بلند کرسکتے ہیں۔
چنانچہ حقائق یہی ہیں کہ مغرب میں ڈے کیئر سینٹرز کی کامیابی کے بعد اولڈ ہاؤسز بھی کامیابی کے ساتھ قائم ہوئے اور یوں وہاں پورا معاشرتی نظام تہس نہس ہوگیا، وہ معاشرتی نظام جب کبھی خاندان جڑ کر رہا کرتے تھے اور ماں باپ، اولاد، بھائی بہن میں بھی ایک دوسرے کے لیے محبت اور وقت دونوں ایک ساتھ نظر آتے تھے۔
یہاں راقم کے پاس بے شمار ایسے اعداد و شمار ہیں کہ جن کو یہاں بیان کرکے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے یا اس جانب توجہ دلائی جاسکتی ہے کہ آج مغربی معاشرہ محض خواتین کی ملازمت اور پھر ڈے کیئر سینٹر کے قیام کے بعد کس قسم کے تباہ کن اثرات کا اور مسائل کا سامنا کررہا ہے؟ اپنے گزشتہ کئی کالموں میں اس قسم کے اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں یہاں اعداد و شمار پیش کرنے کے بجائے صرف ایک گزارش ہے کہ آئیے مغرب کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے جن معاملات میں ہم مغرب کی تقلید کرتے جارہے ہیں ذرا سا اس کا جائزہ بھی لے لیں اور اگر واقعی ان کے بعض تجربات کا انجام غلط ثابت ہوا ہے تو پھر ہم بھی غور و فکر کرلیں کہیں ہم بھی تو اس انجام سے ٹکرانے والے تو نہیں ہیں؟
آئیے تھوڑی دیر کو غور کرلیں کہ آج ہم اپنے بچوں کو ڈے کیئر سینٹر میں ڈال دیتے ہیں کل اگر یہی بچے ہمیں بھی ''اولڈ ہاؤسز'' میں داخل کرانے لگیں تو ہمارے پاس ان سے شکایت کرنے کا کیا جواز ہوگا؟ کیا ہم ان سے یہ سوال کرنے کی جرأت کرسکیںگے کہ بیٹا تم آخر کیوں ہمیں اولڈ ہاؤس میں ڈالنا چاہتے ہو؟ اور اگر سامنے سے جواب آئے کہ ''بالکل اس لیے جس کے لیے آپ نے بچپن میں ہمیں ڈے کیئر سینٹر میں ڈالا تھا'' تو پھر ہمارا جواب کیا ہوگا؟مغرب کا تجربہ ثابت کررہا ہے کہ جن معاشروں میں ''ڈے کیئر سینٹر'' رواج پاجائیں وہاں پھر ''اولڈ ہاؤسز'' کے قیام کو کوئی نہیں روک سکتا۔ آئیے غور کریں! کل کے بجائے آج۔