حالیہ کسان تحریک
بہرحال وجہ یا مطالبہ کچھ ہی رہاہے، ہزاروں کسان لاہور آئے اور لاہور کی مختلف شاہراہوں پر دھرنا دیا
جب کسانوں کے حوالے سے کسی تحریک یا کسی احتجاج کی خبریں میڈیا میں آتی ہیں، تو ان لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں جو پاکستان کو جاگیردارانہ نظام کے سخت گیر پنجے سے نکال کر اسے صنعتی ترقی کی راہ پر چلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
پچھلے دنوں لاہور میں کسانوں کے احتجاج اور دھرنوں کی خبریں آئیں تو عوام کے باخبر حلقوں نے ان خبروں کا بڑی دلچسپی سے جائزہ لیا۔ میڈیا میں مختلف علاقوں سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لاہور آمد اور مختلف شاہراہوں کو دھرنوں کے ذریعے بند کرنے کی خبریں میڈیا میں جب ''بریکنگ نیوز'' کی ذیل میں آتی رہیں تو جستجو ہوئی کہ کیا کسانوں کا یہ احتجاج زرعی اصلاحات کے لیے ہو رہا ہے یا جاگیرداروں کے روایتی مظالم کے خلاف ہو رہا ہے ۔
معلوم ہوا کہ میڈیا نے جس خبر کو بریکنگ نیوز اور اہم ترین خبر بناکر پیش کیا اس کی حقیقت بس اتنی سی تھی کہ ہزاروں کسانوں نے یہ احتجاج آلو کی قیمت بڑھانے کے لیے کیا تھا کہ اس سال آلو کی فصل بہت اچھی رہی، مارکیٹ میں آلو کے ڈھیر لگ گئے اور منڈی کی معیشت کی رو سے جب رسد بڑھ جاتی ہے تو قیمتیں گر جاتی ہیں۔
بہرحال وجہ یا مطالبہ کچھ ہی رہاہے، ہزاروں کسان لاہور آئے اور لاہور کی مختلف شاہراہوں پر دھرنا دیا۔ یہ احتجاج اگرچہ مارکیٹ کی مندی کی وجہ سے ہوا تھا لیکن محنت کش طبقات میں بہرحال ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا جذبہ ضرور پیدا ہوتا ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اس احتجاج کی قیادت کس نے کی لیکن اس کا ایک مثبت فائدہ یہ ہوا کہ کسانوں کے احتجاج کی خبریں عوام تک پہنچیں تو خود بخود ان کا دھیان جاگیردارانہ نظام کی طرف گیا جس کا ذکر بلکہ جس کے خاتمے کا ذکر سیاسی جماعتیں تواتر سے کرتی رہتی ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی بھی جابرانہ ظالمانہ نظام نہ صرف خواہش کرنے سے ختم ہوا ہے نہ اخباری بیانات سے اس کا خاتمہ ہوا ہے بلکہ اس کے خلاف ایک منظم اور تحریک کی ضرورت رہی۔
جاگیردارانہ نظام کی مخالفت کئی حوالوں سے کی جا رہی ہے، ایک حوالہ سیاسی نعرے بازی ہے جس کا مقصد عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں، نظام کی تبدیلی کے نعرے اور خواہش یقیناً ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن جو لوگ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ معاشی معاشرتی اور سیاسی پیش رفت کے تناظر میں کرنے کے خواہش مند ہیں۔
وہ صرف آلو کی قیمت میں اضافے کے بعد اپنا احتجاج ختم نہیں کرتے کیونکہ اس قسم کے عناصر کو یہ علم ہوتا ہے کہ صنعتی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی نظام ہے اور صنعتی ترقی کے بغیر نہ عوام کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے نہ ملک سیاسی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہ کوئی پیچیدہ اور مشکل تھیوری نہیں بلکہ بار بار آزمایا ہوا نسخہ ہے۔
بھارت میں جاگیردارانہ نظام ختم کیا گیا تو ہی صنعتی ترقی کا راستہ کھلا اور آج بھارت کا شمار دنیا کی بڑی اور تیز رفتار معیشتوں میں ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جاگیردارانہ نظام کی جگہ جب سرمایہ دارانہ نظام لے لیتا ہے تو استحصال کا خاتمہ تو نہیں ہوتا استحصال کی شکلیں بدل جاتی ہیں۔
ایسے ملکوں میں جہاں انقلابی طاقتیں مضبوط نہ ہوں تو پھر قدم بہ قدم ہی تبدیلیوں کی طرف پیش قدمی کرنا پڑتا ہے اور اس حوالے سے ساری دنیا میں پہلا قدم زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہی رہا ہے۔ یہ روایت صرف بھارت تک محدود نہیں بلکہ بیشتر پسماندہ ملکوں نے سیاسی اور معاشی ترقی کے لیے سب سے پہلے جاگیردارانہ نظام کو ختم کیا۔
پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جاگیردارانہ نظام موجود ہی نہیں مضبوط بھی ہے اس کا اندازہ بہت آسان ہے ہماری سیاسی جماعتوں ہمارے قانون ساز اداروں ہماری حکومتوں پر آپ نظر ڈالیں تو ہر جگہ یہی سانپ بچھو پھن اور ڈنک اٹھائے بیٹھے نظر آئیں گے، ہمارے انتخابات دراصل جاگیرداروں کو جمہوری حکمران بنانے کی ایک مشین ہیں۔
ویسے تو دنیا کے بیشتر ملکوں میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے لیے بڑی بڑی کسان تحریکیں چلیں لیکن چین میں 3 ہزار سالہ جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے جتنی کسان تحریکیں چلیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ چینی جاگیرداروں کی بے رحم اقتصادی لوٹ کھسوٹ اور تشدد نے کسانوں کو جاگیرداروں کے خلاف متعدد بغاوتوں پر مجبور کیا چن خاندان، ہانگ خاندان، تانگ خاندان سے لے کر چنگ خاندانوں کے خلاف کسانوں نے مسلسل بغاوتیں کیں۔ اگرچہ کسانوں کی ان بغاوتوں سے فوری طور پر جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ تو نہ ہوسکا لیکن ان بغاوتوں نے جاگیردارانہ نظام کو کمزور بھی کیا اور اس میں دراڑیں بھی ڈال دیں۔
پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کی اہمیت اس لیے کم رہی کہ کسی سیاسی جماعت نے اس نظام کو ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی بلکہ اس حوالے سے افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ صنعتی اشرافیہ جسے طبقاتی حوالے سے زمینی اشرافیہ کی سب سے بڑی دشمن ہونا چاہیے۔
پاکستان میں صنعتی اشرافیہ زرعی اشرافیہ کی سب سے بڑی دوست ہی نہیں بلکہ لوٹ مار میں سب سے بڑی پارٹنر بنی ہوئی ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ مڈل کلاس ہمارے ملک میں معاشرے اور سیاست کو آگے لے جانے کے بجائے حکمران ٹولے کی طرفداری کا کردار ادا کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بڑی تبدیلی کی طرف پیش رفت ایک خواب بنی ہوئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف اگر کسی نے شعوری اور نظریاتی طور پر جدوجہد کی ہے تو وہ بایاں بازو ہی ہے۔ پنجاب میں چوہدری فتح محمد ، میجر اسحاق ، سی آر اسلم، راؤ سلیمان اگر اس طبقاتی جدوجہد میں متحرک نظر آتے ہیں تو خیبر پختونخوا میں افضل بنگش کسانوں کو متحرک کرتے نظر آتے ہیں ۔
ہشت نگر تحریک اس حوالے سے ایک یادگار تحریک ہے۔ سندھ میں ہاری تحریک کی قیادت کا فرض حیدربخش جتوئی نے ادا کیا۔ یہ بات طے ہے کہ نہ بورژوا پارٹیاں جاگیردارانہ نظام کو ختم کرسکتی ہیں نہ مڈل کلاس کی پیٹی بورژوا پارٹیاں اس نظام کو ختم کرنے میں مخلص نظر آتی ہیں۔ یہ ایک نظریاتی جدوجہد ہے اور وہی جماعت یہ طبقاتی جدوجہد کرسکتی ہے جو تبدیلیوں کی ضروریات کو سمجھتی ہو۔
پچھلے دنوں لاہور میں کسانوں کے احتجاج اور دھرنوں کی خبریں آئیں تو عوام کے باخبر حلقوں نے ان خبروں کا بڑی دلچسپی سے جائزہ لیا۔ میڈیا میں مختلف علاقوں سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لاہور آمد اور مختلف شاہراہوں کو دھرنوں کے ذریعے بند کرنے کی خبریں میڈیا میں جب ''بریکنگ نیوز'' کی ذیل میں آتی رہیں تو جستجو ہوئی کہ کیا کسانوں کا یہ احتجاج زرعی اصلاحات کے لیے ہو رہا ہے یا جاگیرداروں کے روایتی مظالم کے خلاف ہو رہا ہے ۔
معلوم ہوا کہ میڈیا نے جس خبر کو بریکنگ نیوز اور اہم ترین خبر بناکر پیش کیا اس کی حقیقت بس اتنی سی تھی کہ ہزاروں کسانوں نے یہ احتجاج آلو کی قیمت بڑھانے کے لیے کیا تھا کہ اس سال آلو کی فصل بہت اچھی رہی، مارکیٹ میں آلو کے ڈھیر لگ گئے اور منڈی کی معیشت کی رو سے جب رسد بڑھ جاتی ہے تو قیمتیں گر جاتی ہیں۔
بہرحال وجہ یا مطالبہ کچھ ہی رہاہے، ہزاروں کسان لاہور آئے اور لاہور کی مختلف شاہراہوں پر دھرنا دیا۔ یہ احتجاج اگرچہ مارکیٹ کی مندی کی وجہ سے ہوا تھا لیکن محنت کش طبقات میں بہرحال ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا جذبہ ضرور پیدا ہوتا ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اس احتجاج کی قیادت کس نے کی لیکن اس کا ایک مثبت فائدہ یہ ہوا کہ کسانوں کے احتجاج کی خبریں عوام تک پہنچیں تو خود بخود ان کا دھیان جاگیردارانہ نظام کی طرف گیا جس کا ذکر بلکہ جس کے خاتمے کا ذکر سیاسی جماعتیں تواتر سے کرتی رہتی ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی بھی جابرانہ ظالمانہ نظام نہ صرف خواہش کرنے سے ختم ہوا ہے نہ اخباری بیانات سے اس کا خاتمہ ہوا ہے بلکہ اس کے خلاف ایک منظم اور تحریک کی ضرورت رہی۔
جاگیردارانہ نظام کی مخالفت کئی حوالوں سے کی جا رہی ہے، ایک حوالہ سیاسی نعرے بازی ہے جس کا مقصد عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں، نظام کی تبدیلی کے نعرے اور خواہش یقیناً ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن جو لوگ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ معاشی معاشرتی اور سیاسی پیش رفت کے تناظر میں کرنے کے خواہش مند ہیں۔
وہ صرف آلو کی قیمت میں اضافے کے بعد اپنا احتجاج ختم نہیں کرتے کیونکہ اس قسم کے عناصر کو یہ علم ہوتا ہے کہ صنعتی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی نظام ہے اور صنعتی ترقی کے بغیر نہ عوام کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے نہ ملک سیاسی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہ کوئی پیچیدہ اور مشکل تھیوری نہیں بلکہ بار بار آزمایا ہوا نسخہ ہے۔
بھارت میں جاگیردارانہ نظام ختم کیا گیا تو ہی صنعتی ترقی کا راستہ کھلا اور آج بھارت کا شمار دنیا کی بڑی اور تیز رفتار معیشتوں میں ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جاگیردارانہ نظام کی جگہ جب سرمایہ دارانہ نظام لے لیتا ہے تو استحصال کا خاتمہ تو نہیں ہوتا استحصال کی شکلیں بدل جاتی ہیں۔
ایسے ملکوں میں جہاں انقلابی طاقتیں مضبوط نہ ہوں تو پھر قدم بہ قدم ہی تبدیلیوں کی طرف پیش قدمی کرنا پڑتا ہے اور اس حوالے سے ساری دنیا میں پہلا قدم زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہی رہا ہے۔ یہ روایت صرف بھارت تک محدود نہیں بلکہ بیشتر پسماندہ ملکوں نے سیاسی اور معاشی ترقی کے لیے سب سے پہلے جاگیردارانہ نظام کو ختم کیا۔
پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جاگیردارانہ نظام موجود ہی نہیں مضبوط بھی ہے اس کا اندازہ بہت آسان ہے ہماری سیاسی جماعتوں ہمارے قانون ساز اداروں ہماری حکومتوں پر آپ نظر ڈالیں تو ہر جگہ یہی سانپ بچھو پھن اور ڈنک اٹھائے بیٹھے نظر آئیں گے، ہمارے انتخابات دراصل جاگیرداروں کو جمہوری حکمران بنانے کی ایک مشین ہیں۔
ویسے تو دنیا کے بیشتر ملکوں میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے لیے بڑی بڑی کسان تحریکیں چلیں لیکن چین میں 3 ہزار سالہ جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے جتنی کسان تحریکیں چلیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ چینی جاگیرداروں کی بے رحم اقتصادی لوٹ کھسوٹ اور تشدد نے کسانوں کو جاگیرداروں کے خلاف متعدد بغاوتوں پر مجبور کیا چن خاندان، ہانگ خاندان، تانگ خاندان سے لے کر چنگ خاندانوں کے خلاف کسانوں نے مسلسل بغاوتیں کیں۔ اگرچہ کسانوں کی ان بغاوتوں سے فوری طور پر جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ تو نہ ہوسکا لیکن ان بغاوتوں نے جاگیردارانہ نظام کو کمزور بھی کیا اور اس میں دراڑیں بھی ڈال دیں۔
پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کی اہمیت اس لیے کم رہی کہ کسی سیاسی جماعت نے اس نظام کو ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی بلکہ اس حوالے سے افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ صنعتی اشرافیہ جسے طبقاتی حوالے سے زمینی اشرافیہ کی سب سے بڑی دشمن ہونا چاہیے۔
پاکستان میں صنعتی اشرافیہ زرعی اشرافیہ کی سب سے بڑی دوست ہی نہیں بلکہ لوٹ مار میں سب سے بڑی پارٹنر بنی ہوئی ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ مڈل کلاس ہمارے ملک میں معاشرے اور سیاست کو آگے لے جانے کے بجائے حکمران ٹولے کی طرفداری کا کردار ادا کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بڑی تبدیلی کی طرف پیش رفت ایک خواب بنی ہوئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف اگر کسی نے شعوری اور نظریاتی طور پر جدوجہد کی ہے تو وہ بایاں بازو ہی ہے۔ پنجاب میں چوہدری فتح محمد ، میجر اسحاق ، سی آر اسلم، راؤ سلیمان اگر اس طبقاتی جدوجہد میں متحرک نظر آتے ہیں تو خیبر پختونخوا میں افضل بنگش کسانوں کو متحرک کرتے نظر آتے ہیں ۔
ہشت نگر تحریک اس حوالے سے ایک یادگار تحریک ہے۔ سندھ میں ہاری تحریک کی قیادت کا فرض حیدربخش جتوئی نے ادا کیا۔ یہ بات طے ہے کہ نہ بورژوا پارٹیاں جاگیردارانہ نظام کو ختم کرسکتی ہیں نہ مڈل کلاس کی پیٹی بورژوا پارٹیاں اس نظام کو ختم کرنے میں مخلص نظر آتی ہیں۔ یہ ایک نظریاتی جدوجہد ہے اور وہی جماعت یہ طبقاتی جدوجہد کرسکتی ہے جو تبدیلیوں کی ضروریات کو سمجھتی ہو۔